ڈاکٹر نظام الدین چوہدری کا نام تعلیمی اصلاحات کے حوالے سے پاکستان میں ایک معتبر حوالہ بن چکا ہے۔ ملک میں تعلیم کو اس کی اصلی بنیادوں پر متعارف کروانا اور بدلتے ہوئے رجحانات کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں لا کر قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے ذریعے سماج کو بدلنا ان کا مقصد ہے۔ ان کا مقصد اتنا بلند تر ہے کہ اس نے انہیں کبھی اوقاتِ کار کی پابند ملازمت کا اسیر ہونے سے نہ صرف باز رکھا بلکہ شبانہ روز خدمت کی ترغیب دیتے ہوئے ہر لمحہ متحرک رہنے پر اکسایا۔ اسی لئے ان کی شخصیت اور مزاج پر متکبر افسرانہ چھاپ کی بجائے حلیمی، رواداری اور خلوص کا رنگ نمایاں ہے اور ہر نیک نیت انسان کی طرح انہیں بھی ایک اچھی ٹیم میسر آئی جو کام اور محنت پر یقین رکھتی ہے اور اپنے قائد کے اصولوں کا دل و جان سے احترام کرتے ہوئے انہیں عمل میں ڈھالنے کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ گجرات یونیورسٹی آج جس مقام پر ہے اس میں چوہدری صاحب کی کرشمہ ساز شخصیت کا بہت عمل دخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ تبدیل ہونے کے باوجود انہیں نہ صرف ایکسٹینشن دی گئی بلکہ ہر طرح کی آزادی فراہم کی گئی، نئے بلاک اور میڈیکل کالج کی تعمیر کے لئے حکومتی سطح سے بھرپور معاونت کی گئی اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے ہر قسم کی پالیسی سازی میں ان کا مشورہ معتبر گردانا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو شخصیات غیر سیاسی رویے، نیک نیتی اور صائب عمل کی حامل ہوتی ہیں وہ ہر دورِ حکومت میں معتبر سمجھی جاتی ہیں کیوں کہ کام بولتا ہے۔ گجرات یونیورسٹی میں ڈاکٹر صاحب کے آٹھ سال مکمل ہوئے مگر ان کا مشن ابھی باقی ہے۔ ابھی ان کے ذہن میں بہت سے منصوبے ہیں، وہ گھر میں ٹِک کر بیٹھنے والے نہیں، جب تک جان ہے اپنے نظریات اور خدمات سے قوم کو مستفید کرنے کی کسی نہ کسی اسکیم کی تلاش میں رہیں گے۔ تعلیمی اصلاحات کے ساتھ ساتھ ان کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے قیام کے دوران گجرات یونیورسٹی میں آزادانہ سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے بہت سے مذاکرے، مباحثے اور سیمینار منعقد کئے جن میں ملک کے نامور دانشوروں کو مدعو کیا گیا تا کہ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے ذہنوں میں فکر کے نئے بیجوں کی آبیاری کرکے انہیں سوال کرنے اور سوچنے کی ترغیب دی جا سکے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جو ان کے عزیز دوست ڈاکٹر سید شبیر شاہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے، خصوصاً دانشوروں سے، ایک سوال کرنا بھی مقصود تھا کہ حالات کو کس طرح اس نہج پر لایا جائے جہاں آزادانہ سوچ کے حامل ڈاکٹر سید شبیر شاہ جیسے علم دوست، روشن خیال اور امن پسند دانشور بے رحم سوچ کا ہدف نہ بن سکیں۔ اس سیمینار میں سحر انصاری، امتیاز عالم، اصغر ندیم سید، وجاہت مسعود، ڈاکٹر انوار احمد، قمر زمان کائرہ اور راقم نے شرکت کی۔ ہر مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی معاشرے کی درستگی کے لئے دانشوروں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ رویوں میں تبدیلی خوف یا قانون کے ذریعے ممکن نہیں ہے بلکہ ذہن اور روح میں جب تک علم سرایت نہ کر جائے وہ کردار میں نظر نہیں آتا۔
پاکستانی معاشرہ ایک دن میں اس حالت تک نہیں پہنچا بلکہ اس کے پیچھے سالوں کی کنفیوژن اور فکری بے راہ روی موجود ہے جس نے اسے منزل کا واضح پتہ دینے کی بجائے یرغمال بننے پر مجبور کیا ہے۔ کنفیوژن کی ابتداء کلچر سے ہوئی جب یہاں کے لوگوں کو بتایا گیا کہ ان کا کلچر ان کی دھرتی سے وابستہ نہیں بلکہ اس کا تعلق ان کے عقائد سے ہے۔ کوئی بھی قوم اپنے کلچر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ جب اس سے اس کا کلچر، آرٹ اور زبان چھین لی جائے تو وہ نہ صرف کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے بلکہ بھٹک جاتی ہے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی چرب زبان انسان انہیں اپنی پیروی پر مجبور کرسکتا ہے اور وہ مفعول صورت میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ آزادانہ سوچ کے راستے مسدود کردیئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تبلیغ کا رواج ہے، ہر مبلغ اپنے پیروکاروں کو اپنی سوچ کے مطابق عمل کی تلقین کرتا ہے۔ وہ انہیں خود سوچنے کا مشورہ دیتا ہے نہ عقل استعمال کرنے کی صلاح۔ حالانکہ دیکھا جائے تو انسان حیوانِ ناطق ہے جو اپنی سوچ اور آواز کے باعث دوسرے حیوانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ ملک میں جب جب آمریت نے اپنا تسلط جمایا تو سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والوں نے پہلی ضرب نیشنلزم اور دوسری آزادانہ فکر پر لگائی۔ نیشنلزم کو عقائد کے مطیع کرکے تمام صوبوں کی مختلف ثقافتوں اور رنگارنگ تہذیبوں پر ایک رنگ چڑھانے کی کوشش کی، ایک رنگ مسلط کرنے کا مطلب ان کے جداگانہ ورثے سے محروم کرنے کی حکمت عملی تھی، اس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی لوگوں کو تقسیم کرنے کاعمل شروع ہوا یعنی سیاسی جماعتوں کے باعث یکجہتی کی طرف رواں دواں قافلوں کو منتشر کرکے انہیں برادریوں اور فرقوں کے حوالے سے متحرک کرنے کا رویہ اختیار کیا گیا جو آج بھی جاری ہے۔
پاکستان میں دانشوروں کے کردار کی بات کی جائے تو انہوں نے اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے بھرپور طریقے سے اپنی آواز بلند کی اور لوگوں کو بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ کی ترغیب دی۔ آج کا دانشور بھی حالات کا شکار ہے۔ آمریت کے پروردہ ظاہر پرستوں نے روشن خیالی کو مذہب سے متصادم کر کے لوگوں کے اذہان میں ابہام اور شکوک پیدا کردیئے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں مکمل طور پرمادیت کا راج ہے۔ آرٹ جو جمالیات اور اخلاقیات کو جنم دیتا ہے وہ اب قصۂ پارینہ ہوچکا، روشن خیالی اور فکری آزادی کی بات کرنے والی تنظیموں پر طرح طرح کے فتوے لگانے کا رویہ عام ہوچکا ہے۔ جب تک موسیقی، ادب، فلسفہ اور آرٹ کی تعلیم کو سائنس، انجینئرنگ سمیت تمام علوم کے نصاب کا لازمی حصہ نہیں بنایا جائے گا لوگوں کے دل محبت کی روشنی سے معمورنہ ہوسکیں گے اور وہ روح سے خالی جسم کا میکانکی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ میڈیا کے لئے بھی صرف سیاست کا شعبہ اہم ہے۔ وہاں علم و ادب اور ثقافت کے حوالے سے 8 سے 10 بجے کے پروگراموں میں بحث کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ دانش صرف کلاس روم تک محدود نہیں بلکہ ڈرامے، تھیٹر، رقص، غزل اور نثر میں علامتی اور بیانیہ طور پر سرایت کرتی ہے۔ دانشور کا کام سوال اٹھانا اور لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جوابات کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ وہ اپنا کام کررہا ہے، وہ لفظوں کی چابک سے ذہنوں پر دستک دے کر اپنا حق ذمہ داری نبھا رہا ہے، یہ اور بات ہے کہ جب بھی کوئی فرد نمایاں ہو کر فکری آزادی اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے آمریت کے پیروکار اسے رستے سے ہٹا کر خوف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید شبیر شاہ کا قتل بھی ایسی ہی کارروائی تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ علم دوست تھا اور علم کو ہی مذہب گردانتا تھا کیوں کہ اس پر مذہب کی اصل تعلیمات واضح ہو چکی تھیں۔ وہ لوگوں کو اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے اور اس کے بارے میں رائے قائم کرنے پر اکساتا تھا لیکن سوچ کو یرغمال بنانے کی عادی ریاست بھلا ایسے لوگوں کو کب برداشت کرتی ہے؟ اسے تو صرف یس سر کہنے والے لوگ ہی راس آتے ہیں۔