• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بات کے لاتعداد شواہد موجود ہیں کہ وہ ممالک جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے وہ ہی بڑی تیزی سے پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔پاکستان کو بھی سائنس و ٹیکنالوجی کو تمام ترقیاتی منصوبوں میں مرکزی حیثیت دینا ہوگی خاص طور پر ہمیںزرعی اور صنعتی شعبوں کی ترقی کیلئے حکمت عملی تیار کرنا ہوگی ۔ اس میں سب سے زیادہ اہمیت ا علیٰ تکنیکی شعبوں میں بین الاقوامی سطح کی مصنوعات کی صنعتیں قائم کرنے اور ان کو بڑے پیمانے پر برآمد کرنا چاہئے ۔ اس طرح بڑھتی ہوئی افرادی قوت کیلئے مناسب روزگار کے مواقع میسر آسکیں گے اور غربت کے خاتمے میں مددملے گی۔اس علمی معیشتوںکے دور میں ہمیں موجودہ تعلیمی اداروں کی مضبوطی، ابھرتی ہوئی نئی ٹیکنالوجیوں میںنئے اداروں کے قیام ، منڈی کی ضروریات کے مطابق پیشہ ور افراد اور کارندوں کی تربیت ، تعلیمی اداروں، تحقیقی مراکزاور صنعتوں کے مابین مؤثر تعاون، نجی شعبوں کو اعلیٰ تکنیکی صنعت پر سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی اورمخصوص ٹیکنالوجی پارکوں کے قیام کیلئے مراعات فراہم کرنے پر بھر پور توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ہے جب کہ ہماری برآمدات صرف 23 ارب ڈالر سالانہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک ننھے ملک، سنگاپور کی صرف پچپن لاکھ کی آبادی ہے لیکن اس کی برآمدات 518 ارب ڈالر سالانہ ہیں ۔ سنگاپور میں کوئی قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ اس نے ایسا کیا کیا ہے کہ پاکستان سے اسکی آبادی 35 گنا کم ہونے کے باوجود اسکی برآمدات ہم سے 26 گنا زیادہ ہیں۔ اسی راستے پر سفرکرنے کیلئے ہمیں مندرجہ ذیل اقدامات کرنا ہونگے۔
زراعت پاکستانی معیشت کا سب سے زیادہ آمدنی اور روزگارفراہم کرنے والا شعبہ ہے۔ تاہم عرصہ دراز سے یہ مستقل کم زرعی پیداواری صلاحیت کا شکار ہے ۔ بھارت اور مصر کی زرعی پیداواری صلاحیت سے اگر موازنہ کریں تو ہماری اکثر اشیاء کی پیداوار آدھی یا ایک تہائی سے بھی کم ہے، اس کی اہم وجوہات بیجوں میں نقائص، کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف مزاحمتی صلاحیتوں کی کمی، جینیاتی اقسام میں کمزوری ،خشک سالی اور شدید گرمی کا دباؤ ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی کا ایک اور سبب سیم اور تھو بھی ہے جس کی وجہ سے 30 ارب روپیہ سالانہ کا نقصان ہوتا ہے،جبکہ کٹائی کے بعد پھلوں اور سبزیوں کے ضائع ہونے کا تخمینہ 60 ارب روپیہ سالانہ ہے۔ زرعی پیداوارمیں ہمیں سالانہ پانچ سے چھ فی صد اضافہ کرنا ہوگا اس سے قومی آمدنی بڑھے گی، معاشی استحکام پیدا ہوگا، دولت کی منصفانہ تقسیم سے غربت میں کمی واقع ہوگی جس سے تیز رفتار ترقی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا زراعت کے تمام ذیلی شعبوں کی ناکامیوں کو دور کرنے کیلئے ہمیں زرعی پیداوار کا رخ تبدیل کرنا ہوگا اور زیادہ آمدنی والی فصلوںکی کاشت کرنا ہوگی، اور زمین اور پانی کے وسائل کا تحفظ بھی کرنا ہوگا۔صنعتی حیاتی ٹیکنالوجی کے استعمال سے زراعت اور صحت دونوں شعبوں میں ترقی کے کافی مواقع موجود ہیں۔ اس شعبے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت نے حیاتی ٹیکنالوجی کا علیحدہ محکمہ بنا یا ہے تاکہ جس طرح آئی ٹی کے شعبے میں بھارت نے تیزی سے ترقی کی تھی اسی طرح یہ شعبہ بھی اگلے پندرہ سالوں میں 50 ارب ڈالر کا ہدف پوراکرسکے۔ جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا تو اس وقت میں نے قومی کمیشن برائے حیاتی ٹیکنالوجی اور نینوٹیکنا لوجی قائم کئے تھے لیکن افسوس سابقہ حکومت نے دونوں کو بند کردیا۔ ہمارے صنعتی شعبے کا افسوسناک پہلویہ ہے کہ ہماری 60% صنعتیں کپڑا سازی کی صنعتوں پر مشتمل ہیں ۔ یہ شعبہ عالمی منڈی کے نہایت قلیل (6% ) حصے پر مشتمل ہے۔ جبکہ تمام بڑے شعبوں میں پاکستان کا کوئی وجود ہی نہیں، مثلاً انجینئرنگ کا سامان، بحری جہاز سازی، برقیات، حیاتی ٹیکنالوجی مصنوعات، نئے مادے، وغیرہ۔ صنعتی ترقی کے لئے سب سے ہم شعبہ انجینئر نگ کا شعبہ ہے۔ اس کیلئے تکنیکی اعتبار سے، مالی اور طبعیاتی بنیادی ڈھانچے کو قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور عالمی پیداوار کے نظام کے ابھرتے ہوئے رجحانات کے ساتھ ایک ہموا ر ا تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اعلیٰ معیاری تکنیکی تعلیم کی کمی کی وجہ سےہم اب تک ابھرتی ہوئی نئی ٹیکنالوجیوں اور انجینئرنگ کے شعبے میں قدم نہیں رکھ سکے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ انجینئرنگ کی صلاحیتوں کی خاکہ کشی کی جائے، مسودات اور بنیادی ڈھانچے ، جانچنے کی لیبارٹریاںاور اوزاربنائے جائیں۔ نجی و سرکاری شراکت داری منصوبے بنا ئے جائیں جو جدت طرازی کے ذریعے نئی مصنوعات اور نئے عوامل متعارف کرائیں۔
برقی مصنوعات کی صنعت دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہ ترقی اور جدت طرازی کا امتزاج ہے یہ صنعت کئی بہت سی دوسری اہم صنعتوں کا سہاراہے جن میں (Automotive)، معلوماتی و مواصلاتی ٹیکنالوجیاں ، صارفین کے آلات ،دفاعی، حیاتی طبی آلات، اور دیگر سائنسی آلات اور اوزار شامل ہیں۔ اس شعبے کی بے پناہ ترقی کی صلاحیت کے باوجود پاکستان نے اس شعبے کی ترقی کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے۔ ملک میں برقی مصنوعات کے شعبے کو ترقی کا اہم ذریعہ بنانے کیلئے ہمیں خاص طور پر ڈیجیٹل سگنل پراسسنگ، آپٹکس ،ڈیجیٹل مواصلات، اور مائیکرو الیکٹرانکس جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں انسانی وسائل کی ترقی کیلئے توجہ مرکوز کرناہوگی ، اندرون ملک تحقیق و ترقی کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا، بہت بڑے پیمانے پرتربیتی مراکز قائم کرنے ہونگے، معیاری بنیادی ڈھانچے پر مبنی خصوصی ٹیکنالوجی پارکس قائم کرنے ہونگے جو کہ بڑھتی ہوئی اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کی مدد کر سکیں۔
پاکستان میں سافٹ وئیر کی صنعت کی موجودہ صورتحال میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔ سافٹ وئیرکی ترقی بنیادی طور پر انسانی وسائل پر منحصرہے ۔ لہٰذا اس صنعت کے فروغ کیلئے پیشہ ور افراد کی تعداد اور معیار کو بڑھانے کیلئے موزوں اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کو بروئے کار لانے کیلئے کئی اقدامات اٹھانا ہونگے جن میں آئی ٹی تعلیم، برقی نظام حکومت، آئی ٹی افرادی قوت کی ترقی سے متعلق شعبے شامل ہیں جن پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
نئے مواد کی تیاری اقتصادی ترقی اور مقابلے کے رجحان کیلئے نہایت ضروری ہے ۔شعبہ نینو ٹیکنالوجی اس قسم کے بے تحاشا مواقع فراہم کرتاہے۔ اس شعبے کا اطلاق بہت سی صنعتوں میں ہو سکتا ہے بالخصوص دفاع سے منسلک صنعتوںمیں، برقیات، انجینئرنگ، نقل و حمل توانائی اورکھیل۔ہمیںشعبہء فلزیات میں اعلیٰ کارکردگی کے مراکز قائم کرنا ہونگے، نئے مواد میں اعلیٰ درجے کی تعلیم کیلئے مختلف جامعات میں نئے شعبے قائم کرنا ہونگے، ہمیں پولی میرک مواد اور فوٹانک مواد کی تیاری اور ترقی کے لئے نئے نئے مراکز قائم کرنا ہونگے، جغرافیائی معلومات اور جغرافیائی نقشے کے مراکز قائم کرنے پر توجہ مرکوز کرناہوگی، جواہرات کے وسائل کو استعمال کرنے کیلئے تحقیق و ترقی کے مرا کز قائم کر نا ہونگے۔ پاکستان دیگر ترقی پزیر ممالک کے برعکس بیش بہا معدنی وسائل سے آراستہ ہے لیکن اب تک ان سے ممکنہ فوائد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
کیمیائی صنعت بھی صنعتی ترقی کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں اب تک بہت سی کیمیائی صنعتیں ابتدائی مراحل طے کر رہی ہیں ۔ پاکستان میں مشترکہ کیمیائی صنعت کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ ان صنعتوں کے فروغ کیلئے ’’نیفتھا کریکر‘‘ قائم کیا جائے ۔ یہ سہولت اندرون ملک بڑے پیمانے پر کیمیات اور ادویات کی تیاری کیلئے انتہائی اہم ہے۔دواساز صنعتیں اس وقت 90% فعال اجزادرآمد کر رہی ہیں۔ پاکستان کو ضروری اجزاخود تیار کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص ان اجزا سے جن کا خام مال (raw material) ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ توانائی تمام شعبوں کی ترقی کیلئے کلید ی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم حکومتی سطح پر1990 سے شدید قسم کی بدعنوانیوںنے اس صنعت کو برباد کر دیا ہے۔ کرائے پر بجلی گھروں کے معاملے میں شدید دھاندلیوں کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا ، کیا کچھ اخباروں میں چھپا ، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ تمام بدعنواں حکمراں بچ نکلے اور اسی طرح آزاد گھوم رہے ہیں۔ شمسی خلیات کے ذریعے توانائی کی قیمت 3 روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ ہو گئی ہے۔لیکن اب بھی حکومت کو 14 روپے یا اس سے زیادہ کے ٹھیکے دے رہی ہے۔ جیساکہ ابھی حال ہی میں بہاولپور میں چولستان صحراء میں شمسی توانائی پارک میں ہوا۔ اس قسم کی بدعنوانیوں کے خلاف بھاری جرمانے کے ساتھ سخت سزائیں دینی چاہئیں اور قانون کا سختی سے نفاذ ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود تنزلی کا شکار رہے گا۔ قومی نظام جدت طرازی میں اعلیٰ و معیاری علمی کارکنان اور محققین ایک اہم جز ہوتے ہیں۔ قومی نظام جدت طرازی میں اعلیٰ و معیاری علمی کارکنان اور محققین ایک اہم جز ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں فی دس لاکھ کی آبادی کے لئےصرف 150 سائنسدان اور انجینئر ہیںجو کہ تحقیق و ترقی کے کام کیلئے ناکافی ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کریں تو وہاں 2500 سے 3000 سائنسدان اور انجینئر فی دس لاکھ کی آبادی کے لئے مو جود ہیں۔ہمیں بھی اس ہدف تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے( یعنی 2035ء تک پانچ لاکھ پی ایچ ڈی سطح کے سائنسدان ہونے چاہئیں) اگر ہم تیزی سے علم پر مبنی معیشت کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔


.
تازہ ترین