گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے زیر اہتمام ایک دو روزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں پاکستانی شرکاء نے آپس میں بات چیت کرنے سے زیادہ اپنے امریکی ہم منصبوں سے گفتگو کی۔ کانفرنس کے پہلے روز پاکستان امریکہ تعلقات اور علاقائی ماحول بشمول افغانستان پرسیرحاصل بحث ہوئی۔ لیکن دوسرے روز پاکستان کی معیشت اور گورننس پر ہونے والی بحث میں کئی پاکستانی شرکاء ان امور کو دو طرفہ تعلقات یا وسیع خارجہ پالیسی سے منسلک کرنے کی اہمیت سمجھ نہیں پائے جو کانفرنس کا ظاہری مقصد تھا۔ بلکہ انہوں نے ان اجلاسوں کو پاکستان کے مسائل پر لمبی چوڑی تقاریرمیں بدل ڈالا۔ میں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلے ہی دنیا کا وہ ملک ہے جو ضرورت سے زائد تشخیص کا شکارہوچکا ہے۔ لیکن میری اس بات کا ان لوگوں پرکوئی اثر نہ ہوا جنھیں شاید پاکستان کے مسائل گنوانے میں مزہ آرہاتھا ، بجائے اس کے کہ وہ کسی مفید مکالمے میں حصہ لیتے جس میں مسائل کے حل کی تجاویزدی جاتیں۔ اس کے باوجود کانفرنس نے پاکستان امریکہ تعلقات کے حال اورمستقبل سے متعلق بصیرت افروزمعلومات فراہم کیں۔ پاکستانی فریق نے معروف لیکن مفید نقطہ نظر بیان کئے۔ اس بات پر عمومی اتفاق رائے نظر آیا کہ تعلقات ماضی قریب کےمقابلے میں کافی بہتر ہیں۔ تاہم یہ تعلقات ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں اوریہ غیرواضح ہےکہ وہ کیا روپ اختیار کرنے والے ہیں۔ دوسابق امریکی عہدے داروں کےتبصرے خاصے دلچسپ تھے۔ان میں سےایک نے یاد دلایا کہ کچھ عرصے تک دونوں ممالک سب اچھا ہےکا تاثر دیتے رہے۔ لیکن اس سے ایک ایسا مرحلہ آگیا جس میں ہر چیز کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جانے لگا۔ اس نے کہا سلالہ واقعہ ایک موڑ تھا، جس نے ان حدود کو واضح کردیا جہاں تک امریکہ پاکستان سے اپنی مرضی کے کام کراسکتا تھا۔اس نے بتایا اس وقت دونوں ممالک صرف قلیل مدتی، تدبیری امور پر اتفاق کرسکتے ہیں کیونکہ طویل مدتی مشترکہ مقاصد کا کوئی اظہار نہیں کیا گیا ہے۔ اس نے نشاندہی کی کہ انسداد دہشت گردی کوئی حکمت عملی نہیں ۔اس پر مبنی کوئی بھی تعلقات لازماً محدود ہوں گے۔
اس نے دلیل دی کہ اس وقت مستحکم نظر آنے والے تعلقات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن کی توجہ خطے پرنہیں ہے۔ اگر امریکی پالیسی انخلاء کی ہے اور اس کا توجہ کہیں اور ہے تو اس سے یقینی طور پرکشیدگی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ امریکہ کو اس وقت جنوبی ایشیا کی بہت کم پروا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک بات چیت کرتا۔ اورایک ایسے وقت جب امریکی خارجہ پالیسی میں وضاحت کا فقدان ہے،تو ممالک کے پاس خواہ مخواہ واشنگٹن کا دم چھلا بننے کے کوئی معقول وجہ موجود نہیں۔
انہوں نےموجودہ تعلقات کی خاصیت کو یوں بیان کیا کہ ان کی سیکورٹی بہت کم ہے۔ تعلقات کی اقتصادی سمت اہم متقابل فراہم کرسکتی ہے۔ لیکن اس کیلئے پاکستان میں بنیادی معاشی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ جو ابھی آنا باقی ہے۔ پاکستان کسی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی بحث کا حصہ نہیں کیونکہ وہ ابھی اس مقام پر پہنچا ہی نہیں۔ لیکن مستقبل میں امریکہ کو پاکستان کے سب سے بڑے اثاثے اس کے متوسط طبقے کو اپنے فطری ساتھی کی حیثیت سے دوست بنانا چاہئے۔ دوسرا امریکی مقرر سابق دفاعی افسر تھا۔ اس نے سوال اٹھایا کہ واشنگٹن کی سرفہرست دو جغرافیائی سیاسی ترجیحات میں پاکستان کہاں فٹ ہوتا ہے۔ یہ دو ترجیحات ہیں مشرق وسطیٰ میں جاری بحران اور ایشیا کو دوبارہ متوازن بنانا۔ دوسرے معاملے میں اس نے پیش گوئی کی کہ چین کے خدشات کے حوالے سے پاکستان بہت زیادہ حساس ہوگا۔ بلکہ اس سے بھی آگے پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں خود مختاری پر زور دے گا۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک/دفاعی تعلقات پربات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھارت کے پاس اپنی فوجی صلاحیتوں کو جدید بنانے اور اپ گریڈ کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔(اگرچہ بھارت نے یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگائی)۔ لیکن واشنگٹن کو اس سے پاکستان پر پڑنے والے اثرات کا ادراک کرنےکی ضرورت ہے جس کی روایتی فوجی صلاحیتیں وقت کے ساتھ پہلے ہی کمزورہوچکی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ جوہری دفاع پر زیادہ انحصار کرنے پرمجبور ہورہاہے۔اس امریکی افسر کے مطابق امریکی پالیسی سازوں کے پاس پاکستان سے متعلق دو آپشن ہیں۔ اس اعتراف کے باوجود کہ یہ آپشن زیادہ سے زیادہ علاقائی عدم استحکام کو جنم دے گا تاہم غالب (مگر غیر متفقہ) نقطۂ نظردست برداری کاہےکیونکہ بالخصوص افپاک خطے کے حوالے سے بیزاری آچکی ہے۔ دوسرا طریقہ جس کی اس نے حمایت کی معنی خیز طورپر روابط استوارکرنا ہے تاکہ منسلک جغرافیائی سیاسی مفادات کی شناخت اور ان میں تعاون کیا جاسکے۔ اس نے تسلیم کیا کہ اب تک دونوں ممالک کے درمیان نام نہاد اسٹریٹجک مکالمہ نہ تو اسٹریٹجک تھا اور نہ ہی مکالمہ۔ ماہراقتصادیات اورآئی ایم ایف کے سابق افسر محسن خان نے کافی پرفکر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا پیہم آنے والی پاکستانی حکومتوں نے واشنگٹن سے اصولی طور پرجو بات کہی ہے اس میں بہت وزن ہے کہ وہ ایڈ نہیں بلکہ ٹریڈ چاہتی ہیں۔ اس کےبھرپورشواہد موجود ہیں کہ تجارت (اور ایف ڈی آئی) ترقی کا انجن ہیں اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرتی ہیں۔ امداد دونوں میں سے کوئی کام نہیں کرتی۔ لیکن درحقیقت تمام پاکستانی حکومتوں نے امداد اور تجارت دونوں کی خواہش کی ہے۔ شاید ہی کبھی اسلام آباد نے تجارت کیلئے امداد کی قربانی دی ہوگی۔
محسن کا کہنا تھا کہ امداد نہیں تجارت اس وقت تک ایک کھوکھلا نعرہ ہے جب تک پاکستان خود کو منظم نہیں کرتا۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے محدود برآمداتی مرکز کا مسئلہ حل کرنا اور مسابقت کو بہتربنانا۔ انہوں نے پوچھا کہ پاکستان کتنا کمالے گا اگرامریکہ میںاپوزیشن غالب آجائے اورڈیوٹی فری برآمدات بشمول ٹیکسٹائل کی اجازت دے دی جائے۔ یہ نفع سالانہ 2 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ پاکستان دیگر ٹیکسٹائل برآمداتی ممالک کو پیچھے چھوڑدے جنھیں بھی وہی یکساں تجارتی مواقع حاصل ہوں گے۔ انہوں نے یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو ملنے والے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی حقیقت بیان کرتےہوئے تجربے کا تذکرہ کیا۔ جون 2014 میں ختم ہونے والے مالی سال میں یورپ کو بھیجی گئی ٹیکسٹائل برآمدات میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ لیکن اسی عرصے کے دوران باقی دنیا کو بھیجی جانے والی ٹیکسٹائل برآمدات میں کمی ہوگئی۔ اس سے تجارت میں اضافے اور تجارت کی ڈائیورژن (رخ موڑنے) کے یکجا ہونے کا علم ہوا جس کی وجہ سے مجموعی فائدہ بہت کم رہا۔
اس لئے پاکستان کو نئی برآمداتی صنعتیں قائم کرنے،زیادہ ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کی طرف منتقل ہونے اور مسابقت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ محسن اوردیگر مقررین نے پاکستان پرنچلی سطح کے ٹیکسٹائل توازن جال سے باہر نکلنے کی ضرورت پر زوردیا۔ یہ نشاندہی کی گئی کہ بنگلہ دیش برآمدات میں گزشتہ برس پاکستان کو پیچھے چھوڑچکا ہے۔ محسن نے کانفرنس کے دوران ایک سابق پاکستانی وزیر کے کئی باردہرائے جانےوالے دعوے پراعتراض کیا کہ پاکستانی کسی کے ساتھ تجارت کرنا یا اپنی مصنوعات فروخت کرنا پسند نہیں کرتے۔ محسن کا جواب تھا کہ پاکستان افرادی قوت کی برآمد کے ذریعے سالانہ16 ارب ڈالرکی ترسیلات زرکماتا ہے اور تجارت میں صرف اشیائے صرف ہی شامل نہیں ہوتیں۔ پاکستانی کاروباری برادری سےتعلق رکھنے والےمقررین نےملک کے معاشی مستقبل کے حوالےسے بہت امیدظاہرکی تاہم پریشان کن رکاوٹوں کا اعتراف بھی کیا جن میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قلت اور بیورو کریسی کا سرخ فیتہ نمایاں ہیں۔ صنعت کے ایک رہنماکپتان نے کہا کہ ایک بڑی اور معیار سے باخبر مارکیٹ میںپرکشش مواقع موجود ہیں جہاں متوسط طبقہ ترقی کررہا ہے۔آئی ٹی جیسےشعبوں میں نئے کھلاڑیوں اور متحرک کاروباری شخصیات نے قدم رکھا ہے۔ شاہد جاوید برکی نے بھی متعدد مثبت پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے نمو میں ایک دم ہونے والے اضافے کو بیان کیا جو ملک کی معاشی تاریخ کے تین امتیازی ادوار میں حاصل ہوا۔ لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ملک کس طرح ہمیشہ کنارے پررہا ہے کیونکہ اسے یہ بات معلوم ہے کہ کوئی اسے آکر بچالے گا۔
انہوں نے یاد دلایا کہ جب انہوں نے عبوری وزیر خزانہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی تو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 4 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی تھی34 کروڑ20 لاکھ ڈالرکی نہیں جو اکثر خیال کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے مقرر نے کہا کہ دنیا میں دیگرجگہ بحران سے اصلاحات جنم لیتی ہیں۔لیکن چونکہ پاکستان کو ہمیشہ بیل آؤٹ کرلیاجاتا ہے اس لئے وہ اصلاحات کو ضروری ہی نہیں سمجھتا۔کانفرنس میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ پاکستان کی معاشی خوشحالی کا انحصار وسیع نوعیت کی ساختی اصلاحات پر ہے اور خراب گورننس بہترین وضع کردہ معاشی پالیسیوں کو بھی شکست دے سکتی ہے۔ اچھی پالیسیاں اورعمدہ گورننس فوری طورپرمعیشت کی کایا پلٹ سکتی ہیں۔ لیکن اس کے لئے اصلاحات کے حامی حلقے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ بات غیرواضح ہے کہ کیا ایسا کوئی حلقہ موجود ہے۔
ایک سابق امریکی سفارتکار نے کئی پاکستانیوں کی جانب سے اٹھایا گیا نکتہ دہرایا جو سیاست اور ’’معاشیات سے کیا حاصل ہوسکتا ہے ‘‘ کے مابین تعلق کے بارے میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی اشرافیہ نے اپنےگرد موجود دنیا کے ساتھ مطابقت اختیارنہیں کی اوراسےحاصل دیرینہ استحقاق اصلاحات میں بدستور ایک رکاوٹ ہے۔ سرپرستی کلچر والی جماعتیں تبدیلی میں مزاحم ہیں اس لئے سیاست کے بنیادی ڈھانچوں کو بدلنا ہوگا تاکہ اصلاحات کیلئے ایک ماحول بنایا جاسکے۔ زیادہ تر وفود نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے سے توقعات وابستہ کیں، اگرچہ اس کے حجم اور ہم آہنگی کے حوالے سے سوالات بھی کئے گئے۔ کئی شرکاء نے دوسروں کی بے جامایوسی کا بھرپور جواب دیا۔ لیکن ہر ایک اس نکتے پر متفق نظر آیا کہ پاکستان کے مسائل صرف پاکستانی ہی حل کرسکتے ہیں باہر کے لوگ نہیں۔ جہاں تک پاکستان امریکہ کے تعلقات کی بات ہے تو انہیں بعد از 2015 تعلقات کو ازسرنو مرتب کرنے کا چیلنج درپیش ہے، جوتیزی سے بدلتی لیکن زیادہ غیر مستحکم ہوتی دنیا میں مشترکہ مفادات والے شعبوں کی شناخت کرکے پورا کیا جاسکتا ہے۔