برصغیر میں عزاداری سب سے پہلے سندھ پہنچی جو ترکی سے سرخ پوش قلدر لائے تھے۔ یہ بھی تیرہویں چودہویں صدی کا قصہ ہے جب تمام برصغیر میں سب سے پہلے شیعہ عقیدے کے لوگ بھی سندھ پہنچے۔ یہ لوگ اسماعیلی تھے جو ہلاکو خان کے مظالم سے بھاگ کر سندھ پناہ کو پہنچے تھے اور پھر اثناء عشری عقیدے میں کنورٹ ہوگئے۔اسی لئے اہل بیت سے محبت کرنے اور ان کے ساتھ کربلا میں ہونے والے سانحہ کا ماتم کرنے کیلئے سندھ جیسی سرزمین بغیر کسی مذہب، عقیدے، نسل و رنگ کے صدیوں سے کرتی آئی ہے۔ سرزمین سندھ اصل میں کل تک بھی کسی بھی مذہبی تفرقے بازی اور انتہاپسندی کیلئے ناموزوں سرزمین رہی تھی۔اگرچہ مرزا دبیر نے لکھا تھا’’قیدخانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے کو میں ’’قید خانے میں تلاطم ہے کہ سندھ آتی ہے‘‘کہتا ہوں۔ سندھ میں تالپور حکمران اکثر راسخ العقیدہ تھے۔ یہ وہ اپنے سیر شکار میں ہوتے تھے یا پھر حب اہل بیت میں ماتم مناتے۔ ان میں سے کچھ کٹر بھی تھے جو سندھ میں ایک ہندو کے زبردستی ختنے کروانے کو بہانہ بنا کر سندھ پرانگریزوں کی چڑھائی اور پھر قبضے کا موجب بنے۔ لیکن زیادہ تر سندھ کےحکمران شیعہ تھے کہ سنی وہ وسیع المشرب حکمران تھے۔ اہل بیت کی محبت سے لبریز۔
اسی لئے حیدرآباد سمیت سندھ کے کئی شہروں اور قصبوں میں نوے فی صد عزاداری کے منتظمین سنی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
تالپوروں کے شیعہ حکمران ہونے کی وجہ سے کئی عالم و ذاکر پنجاب اور لکھنؤ و اودھ تک سے سندھ اورخاص طور خیرپور میرس آکر آباد ہوتے رہے اور تالپوروں نے ان کو زمینیں، خلعتیں اور جاگیریں عطا کیں۔ قزلباش خیرپور ریاست کے وزیراعظم تھے۔ پروفیسر کرار حسین جیسے جید انسان و عالم بھی خیرپور میرس میں رہے۔ جبکہ علامہ رشید ترابی کی بیٹی کا عقد خیرپور میرس کے ہزہائینس سے ہوا۔
اگرچہ ریاستی نظام ایوب خان کے زمانے میں ختم کردیا گیا ہزہائینس خیرپور عراق کربلا کی زیارت کو سندھ کے صناع و کاریگر و معمار لے کرگئے جنہوں نے کربلا و نجف کا ہوبہو نقشہ حاصل کیا اور آکر خیرپور میرس میں اسی طرح کربلا کے نقشے پر امام بارگاہ تعمیر کروائی جس میں ضریح امام حسن بھی کے ہوبہو بنا کررکھی گئی ہے۔کوٹ ڈیجی اور خیرپور میرس شہر سندھ کے لکھنو ہیں۔
روہڑی اور سکھر اور خاص طور پر پرانا سکھر پورے ملک تو کیا شاید دنیا بھر میں اپنی عزاداری اور محرموں کے سلسلے میں شہرہ آفاق ہیں۔ پرانے سکھر کا جلوس، اورادھرجب سکھر روہڑی پل پرسے نو کی شب روہڑی کی تنگ گلیوں سےضریح لاکھوں ہاتھوں اور سروں کے اوپر سے گزرتی ہوئی کربلا پل پرسے گزرتی اور اس دوران سنگھارعلی سلیم کی آواز ہوتی جو دل کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی۔ روہڑی کے ماتم کو دیکھنے کو آنیوالے لوگ پھرسال بھرنہ جانے کہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ وہ صرف محرموں کےدنوں میں تابوتوں، جھولوں کے ساتھ برآمد ہوتے ہیں۔ محراب پور میں عورتوں کے ڈھول پر نوحہ گری جسے وہ اوسارا کہتی ہیں عجیب سوگوار سا سماں باندہ دیتا ہے جسے پروین شاکر نے ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت کہا تھا۔حیدرآباد سندھ عزاداری کا اصل میں دارالحکومت ہے۔ حیدرآباد میں عزاداری کے تمام ماتم ومجلسوں کے نوے فی صد متولی، منتظمین اور بانیان کا تعلق سنی عقیدے سے ہے۔ بلکہ سنی کیا بہت سے ہندو بھی انتہائی عقیدت و احترام سے عزاداری کرتے ہیں۔ حیدرآباد اندرون شہر تمام کا تمام پڑوں (یعنی امام باڑوں) اور علم کے نام سے منسوب محلے کہلاتا ہے۔ جن میں سے فقیر جو پڑ، جمن شاہ جوپڑ، قصائین جوپڑوغیرہ۔ اسی طرح خیرپور میرس میں بڑا علم محلہ اور رضا شاہ کا تھلو یا کربلا محلہ مشہور ہیں۔ حیدرآباد میں پکے قلعے حیدرـاد کے سامنے ایک امام بارگاہ علی گھاٹ کہلاتا ہے جو اصل میں ایک شاید برطانوی ایلن گاڈ کے نام سے ہے ۔ ایلن گاڈ عزاداری میں اتنا محو و مستغرق عقیدہ ہوچکا تھا کہ لوگ اسے علی گھاٹ کے نام سے پکارنے لگے تھے اسی امام بارگاہ سے علم و ذوالجناح کا جلوس ہر محرم میں نکالتا ۔ جب ایلن گاڈ فوت ہوئے تو وہیں دفن کردیئے گئے۔ ان کامدفن مزار و درگاہ بنا جسے علی گھاٹ کا پڑ کہا جاتا ہے۔ حیدرآباد شہر کے قدیمی صدیوں سے ٹنڈو آغا ، ٹنڈو تھوڑو نوحہ گری، مدحتوں، ماتموں اور علم کی صناعی اور سنگھار سے ملکوں ملکوں نایاب و مشہور ہيں۔
کئی برسوں صدیوں سے ٹنڈو آغا میں جب معروف سندھی ادیب و سندھ پراتھارٹی ممتازمرزااور ان کے بھائی یہ نوحہ پڑھتے’’قافلہ جا رہا ہے‘‘ فضا پر گہری غمناکی طاری کردیتے۔ اسی طرح ٹنڈو تھوڑو میں ماتم قیامت کا ماتم کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دو سو برسوں سے زائد سے گل شاہ امام بارگاہ گاڑی کھاتہ سے آٹھویں کی شب مہندی کا جلوس برآمد ہونا روہڑی کی طرح کی ایک تقریب غم ہے۔ چار بجے صبح آٹھویں کے اندھیرے منہ ہزاروں سروں کا جلوس اور ہاتھوں میں روشن موم بتیاں اور پھر کئی من تازہ گلابوں اور ناز بو کی خوشبو میں گل شاہ حویلی کی چوکھٹ سے مہندی کا بر آمد ہونا۔ یہ میرے دوست ذوالفقارعلی شاہ عرف پپوشاہ کی مدارالمہامی میں نکلتا ہے۔ اوپر سے سندھ کے میر انیس و دبیر سید ثابت علی شاہ کے مرثیے۔یہاں پنجابی زبان میں مجلسیں اور عزاداری ہوتی ہے۔ سندھ میں سندھی اردو کے علاوہ پنجابی،سرائیکی، مارواڑی ، قدمی کھڑی، پوربی ، فارسی، پشتو، بلوچی تک میں نوحہ خوانی ہوا کرتی ہے۔
ایں شب شب ماتم حسیناں
کوئٹہ سے آ کر سندھ آباد ہونیوالے ہزاروں نے قرئیے قرئیے ، علاقے علاقے حسین آباد کے نام سے بستیاں آباد کیں عزا خانے برپا کئے۔ کئی ریئسوں زمینداروں نے اپنی املاک معروف ذاکر اور مقرر و عالم بلانے عشرہ پڑھوانے میں ختم کیں۔ فقراء و مساکین بھی پیچھے نہیں رہے۔ آپ چاہے کسی عقیدے یا میری طرح لاعقیدے سے تعلق رکھتے ہوں لیکن اگر آپ نے ایک دفعہ گل شاہ بخاری کی مہندی کا جلوس دیکھا ہے تو پھر دنیا میں کہیں بھی ہوں دیکھنے کی تمنا لئے پھریں گے۔ صرف وہ شب۔ ٹنڈو جہانیاں کا آگ کا ماتم اور کربلا دادن شاہ۔ حیدرآباد وہ بغیر کسی تفریق و امتیاز و انتہاپسندی کے ماتم و عزاداری مناتا ہے۔ یہاں تو بالشاہوں یعنی خاکربوں کا ذو الجناح کا جلوس نکلتا ہے اور یہاں اہل نشاط والی خواتین کے جلوس عزاداری ہیں ۔ بلکہ اس کمیونٹی کی معروف خاتون زوار کی طرف سے امام علی کے قدم گاہ کا مین گیٹ جسے باب خیبر کہا جاتا ہے انہی کی جانب سے تعمیر کروایا ہوا عطیہ ہے۔ یہاں تو خاکروبوں اور موالیوں کے جلوس عزاء علم و تابوت برآمد ہوتے ہیں۔سہون اور بھٹ شاہ سندھ میں سب سے قدیمی عزاداری کے سب سے بڑے مراکز مانے جاتے ہیں۔
تقسیم کے بعد ہندوستان سے آکر سندھ بسنے والے ماتم گساروں اور عزاداروں نےعظیم الشان اپنے عزاءخانے قائم کئے اور عزاداری برپا کی۔ خیرپور میرس، کراچی، حیدرآباد، روہڑی سکھر، محراب پور، کوٹ ڈیجی، لقمان یہاں تک کہ جھمپیر جیسے چھوٹے شہروں میں غم حسین منانے والوں نے تازہ بستیاں آباد کیں۔ اگرحیدرآباد سندھ میں انجمن امامیہ سندھ جیسی تنظیم کو برپا ہوئے ایک سو برس سے زیادہ ہوچکا ہے تو انجمن حیدری نامی نئے سندھی عزاداروں کی انجمن حیدری کو بھی قریباً ستر برس ہونے کو ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں ہند سے سندھ آ کر آباد ہونیوالوں کا پہلا جلوس عزاء عجیب اداسیوں کا نقشہ پیش کرتا ہوگا۔ اسی طرح جب کئی برس بعد حیدرآباد کے پرانے سندھیوں کو اپنے گھوڑے، علم، لپیٹ کر اپنے شہر میں شہربدر ہونا پڑا تھا تو کیا کیا نہ تقسیم ہوا سوائے اس غم کے۔ لسانی فسادات نے سندھ میں نئی کربلائیں رقم کیں۔ آج بھی قدیمی سندھی جو اپنے پڑوں اورعلموں اور عزاخانوں والے محلوں اندرون سندھ سے نکلے تھے لیکن جب محرم آتے ہیں تو یہ دس روز پھر سے پائوں ننگے سیاہ پوش پرانے شہر اور آبائی محلوں کا رخ کرتے ہیں۔