• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کا راگ الاپتی رہتی ہیں لیکن ان سیاسی جماعتوں کے اندر کیا ہوتا ہے،اس پر ابھی تک کھل کر باتیں نہیں کی گئی ہیں۔ مختلف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر جب راز دارانہ ماحول میں اندر کی باتیں ہوتی ہیں تو بہت سی چیزیں سامنے آتی ہیں ۔ اس حوالے سے کچھ حقائق کا تذکرہ یہاں ضروری ہے ۔ مثلاً (1 ) سیاسی جماعتیں خاندانوں یا افراد کی ’’ لمیٹڈ کمپنیاں ‘‘ بن گئی ہیں، جو خاندان یا افراد پارٹی کو چلا رہے ہوتے ہیں ، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی میں جو لوگ شامل ہیں ، وہ اس لمیٹڈ کمپنی کے ایسے ملازم ہیں جن کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی۔ ان ملازمین کے بارے میں یہ تصور قائم کر لیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لئے اس کمپنی میں شامل ہوئے ہیں ۔ (2 ) ایک دو سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر اکثر سیاسی جماعتوں میں نظم و ضبط اور پروٹوکول فوجی اداروں سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو بھی اس نظم و ضبط اور پروٹوکول کی پابندی کرنی پڑتی ہے ۔ پارٹی کا سربراہ جو بات کہے گا، وہ حرف آخر ہےاور کوئی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا ہے ۔ پارٹی سربراہ کی ہر بات کو قبول کرنا ہی پارٹی نظم و ضبط بن گیا ہے ۔ ( 3) سیاسی جماعتوں میں نہ صرف بحث کا کلچر ختم ہو گیا ہے ، بلکہ میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بھی راستے مسدود ہوگئے ہیں۔ ہر پارٹی سربراہ کی اپنی ایک مخصوص ٹیم ہوتی ہے۔ اس ٹیم کے انتخاب کا کوئی معیار نہیں ہوتا ہے۔ کچھ غیر معمولی ’’ اسمارٹ ‘‘ لوگ پارٹی سربراہ کے منظور نظر بن جاتے ہیں اور انہی لوگوں کے ہاتھوں پارٹی یرغمال بنی ہوتی ہے۔ اب یہ انہی منظور نظر لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ پارٹی کے سربراہ کو ایمانداری سے مشورے دیں یا پارٹی کو کچھ بیرونی قوتوں کے ایجنڈے پر چلائیں ۔ (4 ) پارٹی میں کسی کی کوئی عزت اور اہمیت نہیں ہوتی ۔ جس کو پارٹی میں رہنا ہے ، رہے اور اگر نہیں رہنا تو خوشی سے چلا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں اگر کوئی سینئر رہنما یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی عزت نہیں ہو رہی یا اسے اہمیت نہیں دی جا رہی تو اس کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں کہ وہ یا اس بات سے سمجھوتہ کر لے یا پارٹی چھوڑ کر چلا جائے ۔ ( 5 ) دنیا میں نظریاتی کشمکش ختم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھی اپنے نظریات پر مکمل سمجھوتا کرچکی ہیں ۔ مذہبی ، لسانی ، قوم پرست اور مڈل کلاس کی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے نظریات صرف یہ ہوتے ہیں کہ اپنے کارکنوں اور حامیوں میں یہ خوف پیدا کیا جائے کہ دوسرے ان کے حقوق سلب کررہے ہیں یا مخصوص سیاسی تعصبات کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اس پر اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن اس لئے سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں کہ ان کا کوئی دوسرا مستقبل نہیں ہے یا ان کا کوئی مخصوص مفاد ہے۔ اس مخصوص مفاد پر بھی پارٹی قیادت کی نظر رہتی ہے اور وہ پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو حد سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھانے دیتی۔ اس صورت حال میں اکثر سیاسی جماعتوں میں نیا خون شامل نہیں ہورہا ہے اور جن سیاسی جماعتوں میں نئی نسل شامل ہورہی ہے، وہ مذکورہ بالا تمام حقائق سے سمجھوتہ کرکے شامل ہو رہی ہے ۔ خاص طور پر جو نئی سیاسی جماعتیں نوجوانوں اور نئی نسل کی نمائندہ بن کر ابھری ہیں ، ان میں پرانی سیاسی جماعتوں سے زیادہ آمرانہ کلچر ہے ۔ ( 6 ) پوری دنیا میں سیاست کی ’’ پروفیشنلائزیشن ‘‘ ہو چکی ہے ۔ لیکن پاکستان میں تو یہ عمل زیادہ شدت کے ساتھ مکمل ہوا ہے ۔ سیاسی جماعتیں لمحہ بہ لمحہ اپنی پالیسیاں بناتی ہیں تاکہ وہ اپنے حامیوں کو ہر وقت الجھائے رکھیں اور میڈیا پر زیادہ سے زیادہ وقت اور جگہ حاصل کرسکیں ۔ اس صورت حال میں سیاست دانوں اور سیاسی دانشوروں کی بجائے ’’ پولٹیکل پروفیشنل ‘‘ سیاسی جماعتوں پرحاوی ہیں اور وہ لوگ زیادہ آگے ہیں ، جو24 گھنٹے اعصاب شکن سرگرمیوں میں نہ صرف مصروف رہتے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو بھی اپنی اہمیت کا احساس دلانے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ سیاست کی پروفیشنلائزیشن نے بھی نہ صرف باہر کے لوگوں کے لئے سیاست میں آنے کے مواقع محدود کر دیئے ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے دیرینہ رہنماؤں اور کارکنوں کی حیثیت ایک ’’ بے کار کیڈر ‘‘ کی ہو گئی ہے ۔ (7 ) سیاست میں بہت زیادہ پیسے کا عمل دخل ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قربانیاں دینے والے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی نسبت ان لوگوں کو سیاسی جماعتوں میں زیادہ اہمیت مل گئی ہے، جو سرمایہ کاری کر سکتے ہیں یا کسی بھی طریقے سے پیسہ کما سکتے ہیں یا فنڈز لا سکتے ہیں ۔ (8 ) سیاست کا عوام پر انحصار ختم ہو چکا ہے ۔ اقتدار کے حصول کے لئے ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے لابنگ کرنا پڑتی ہے ۔ لابسٹ کا ایک گروہ بھی سیاسی جماعتوں پرحاوی ہو چکا ہے اور اس گروہ کے لوگ ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں ۔ حکومتوں میں بھی انہیں اہم عہدے ملتے ہیں۔ سیاسی جلسے منعقد کرنے کا نظام بھی ’’ انسٹی ٹیوشنلائزڈ ‘‘ ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی جلسے منعقد کرنا اب صرف بہترین ’’ ایونٹ منیجمنٹ ‘‘ کا کمال بن کررہ گیا ہے ۔ کچھ سیاسی جماعتیں اپنے عسکری گروہوں پر بھی زیادہ انحصار کرنے لگی ہیں یا مختلف عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ ان کے گہرے روابط ہیں ۔
دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی سیاسی جماعتوں کے اندر اس طرح کے معاملات ہوں گے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے معاملات کچھ زیادہ ہی خراب ہیں۔ دنیا میں سیاسی جماعتوں کے اندر بحث، اختلاف رائے، میرٹ اور احتساب کا کوئی نہ کوئی نظام موجود ہوتا ہے ، جو پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں میں مفقود ہے ۔ اس صورت حال کی وجہ سے نچلی سطح پر محنت کرکے سیاست میں آگے بڑھنے کا ماحول نہیں رہا ہے اور ماضی میں جو سیاسی کیڈر پیدا ہوا ہے ، وہ مایوس ہوچکا ہے ۔ ملک کے سینئر سیاسی رہنما اس وجہ سے سیاسی جماعتوں میں شامل نہیں ہو رہے کہ اب ان کی سیاسی جماعتوں میں ضرورت نہیں رہی یا وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں ان کی عزت نہیں ہوگی ۔ ایک طرف نچلی سطح پرسیاست میں محنت کرنے کا رجحان ختم ہو گیا ہے اور دوسری طرف تجربہ کار سیاست دانوں کے تجربات سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ یہی وجہ ہے کہ سب کچھ کرنے اور سیاسی جماعتوں میں پروفیشنلز، انویسٹرز، پیسہ کمانے والوں اور لابنگ کرنے والوں کی موجودگی کے باوجود پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کم ہو رہی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کیا کررہی ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کو مافیا بنا کر جمہوریت کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا۔
تازہ ترین