• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی ناکام حکمت ِ عملی

ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف کو شناخت کے بحران کا سامنا ہے۔ ایم کیوایم نے نتیجہ اخذکرلیا ہے کہ اُسے فی الحال قومی سطح پر سیاست کرنے کاسندھ یا دیگر صوبوں میںکوئی فائدہ نہیںہوا ، اس لئے اس نے مخالفین کے مطابق ’’مہاجر صوبے‘‘ کا ڈھول پیٹنا شروع کردیا ہے تاکہ وہ سندھ کے شہری علاقوں میں موجود اپنے روایتی مہاجر ووٹ بنک کا تحفظ کرسکے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے نتیجہ اخذکیا کہ انتخابی جمہوریت کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ طویل اور غیر یقینی ہے ، اس لئے کیوں نہ عدلیہ اور ملٹری میں موجود نظام سے بیزار کچھ عناصر کے ساتھ مل کر سازشوںکے ذریعے شارٹ کٹ لگایا جائے۔دونوں جماعتوںکی اپنی اپنی حکمت ِعملی ان کے اپنے تضادات کا شکار ہوگئی۔
ایم کیو ایم نے سندھ میں پی پی پی کی حکومت کو متعدد مرتبہ چھوڑا ۔ماضی میں دیکھنے میں آیا کہ راستے جدا کرنے کی دھمکی سے ایم کیو ایم دراصل اپنی کوئی بات منوایا کرتی تھی۔ تاہم اس مرتبہ بعض حلقوں کی رائے میں اس نے غیرمعمولی طور پر ’’نظریاتی ‘‘ پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے اختلاف کیا ہے۔ اس نے قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ کے ایک بیان ، جس کا مفہوم یہ تھا کہ آج چھ عشروں بعد انڈیا سے پاکستان میں ہجرت کرنے والوں کا ابھی تک اپنے آپ کو مہاجر کہنا درست نہیں۔ الفاظ ہوسکتا ہے کہ کچھ اور ہوں، لیکن شاہ صاحب کا مفہوم یہی تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ لفظ ’’مہاجر‘‘ عارضی قیام کا تصور اجاگر کرتا ہے جبکہ 1947 میں آنے والے پاکستانی ریاست اور معاشرے کا مستقل بنیادوں پر حصہ بنتے ہوئے آئے اور اس میں سما گئے۔ آج پاکستان کی قومی زبان بھی وہی ہے جو ہجر ت کرکے آنے والے ان افراد میں سے زیادہ تر کی تھی۔ خورشید شاہ صاحب نے حقیقت بیان کی ، لیکن دیدہ یا دانستہ، ان کے لہجے سے سندھی نسل پرستی اور پی پی پی کی صوبائی اجارہ داری کی بو آئی۔ ماضی میں بھی پی پی پی کی طرف سے ایسی باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن آج ایم کیوایم کو داخلی اور خارجہ محاذوں پر بہت سے چیلنجوں کاسامنا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ اس لئے اس کی قیادت نے انتہائی پوزیشن لیتے ہوئے خورشید شاہ کی طرف سے لفظ ’’مہاجر‘‘ کو توہین آمیز کہنے کو تاریخی اور اسلامی پس ِ منظر تک پھیلا دیا۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے معاملات کو خطرناک حد تک بڑھادیا ۔اس کی چار بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ایم کیو ایم کو’’مہاجر قومی موومنٹ ‘‘ سے ’’متحدہ قومی موومنٹ ‘‘ بننے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔نام تبدیل کرنے سے یہ تاثر دینا مقصو د تھا کہ یہ صرف مہاجروںکے حقوق کے لئے نہیں بلکہ قومی سطح پر پسے ہوئے افراد کے حقوق کے لئےآواز بلند کرنے والی جماعت ہے۔ اس تبدیلی کا مجموعی طور پر خیر مقدم کیا گیا تھا۔ لیکن طویل عرصہ گزرنے کے باوجود یہ دیگر صوبوں میںوہ کامیابی حاصل نہ کرسکی جو اسے سندھ کے شہری علاقوں میں حاصل تھی( اور ہے)۔ اس کی بجائے اے این پی اور پی ٹی آئی نے سندھ میں متحدہ کے روایتی ووٹ بنک، خاص طور پر اُن علاقوں میں جہاں پشتون آبادی تھی، میں نقب لگانا شروع کردی۔ خیبرپختونخوا ، فاٹا اور حتیٰ کے افغانستان سے آکر کراچی میں آباد ہونے والے مہاجرین کے نوجوان لڑکے ، جو تبدیلی کے خواہاں ہیں، کو پی ٹی آئی کے نعروں نے متاثر کرنا شروع کردیا۔ دوسری بات۔مخالفین کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا مسلح ونگ ،جس کا شہر میں اصل حکم چلتا ہے، کو شہر سے جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لئے کیے جانیو الے آپریشن نے خاصی گزند پہنچائی ہے۔ آپریشن میں گرفتار یا ہلاک ہونے والوںکے سیاسی روابط بھی دکھائی دئیے ہیں۔تیسری یہ کہ پی پی پی مقامی حکومتوںکے لئے ایسا قانون بنانے کی تیار ی میںہے جس کے ذریعے مقامی سطح پر طاقت کا توازن علاقائی نمائندوں کی بجائے پی پی پی کے متعین کردہ منتظمین کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ اس سے مقامی انتخابات کے ذریعے کراچی کو کنٹرول کرنے کا آپشن ایم کیو ایم کے ہاتھ سےنکلتا دکھائی دیتا ہے۔ چوتھی بات ،یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ کیسز میں الطاف بھائی پر برطانوی حکومت کی طرف سے پڑنے والے مبینہ دبائو کی وجہ سے ایم کیو ایم میں اختلافات کی بنیاد پر دراڑیں پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس وقت جماعت کے بہت سے سرکردہ رہنما یاتو جماعت چھوڑ چکے ہیں ، یا روپوش ہیں۔ ان حالات میں مخالف عناصر کی رائے میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس کی قیادت نے فیصلہ کیاہے کہ وہ سندھ کی حد تک لفط ’’مہاجر ‘‘ کو کیش کراتے ہوئے اپنے انتخابی مفادات کا تحفظ کرے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو یہ بھی سنگین الجھن کا شکار ہے۔ اس کے دھرنے اور جلسے نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور نہیں کر سکے کیونکہ ’’تیسرے امپائر‘‘ کی انگلی نہیں اٹھی۔ طاہر القادری بھی بوریابستر سمیت بیرون ِ ملک سدھارچکے ۔ اس طرح پی ٹی آئی کے کارکن تھکاوٹ اور مایوسی کا شکار ہیں۔ اس کا اظہار پارٹی کے اندر ہونے والے اختلافات سے ہوتا ہے ۔ اس کے ممبران کو اس میںکوئی منطق دکھائی نہیں دیتی کہ جب خیبرپختونخواہ اسمبلی میںحکومت قائم رکھنی ہے تو پھر قومی اسمبلی سے استعفے دینے کی کیا ضرورت ہے؟وہ جانتے ہیںکہ استعفے دینے کی صورت میںبھی نواز شریف حکومت نہیں گرے گی۔
سپریم کورٹ نے بھی پی ٹی آئی کی درخواست، جس میں 2013 کے انتخابات کو جعلی قرار دینے کی استدعاکی گئی تھی، مسترد کردی ہے۔ اگر عمران خان اسی راستے پر کامیابی کے بغیر چلنے پر مصر رہتے ہیں تو ان کے حامی ایک ایک کرکے ان کا ساتھ چھوڑتے جائیں گے۔ اگر وہ قادر ی کی طرح میدان چھوڑجاتے ہیں تو مبینہ طور پر ان کی ساکھ مکمل طور پرختم ہوجائے گی۔ اس لئے اُنھوں نے آخری کوشش کے طور پر تیس نومبرکو اسلام آباد میں اپنے تمام حامیوں کو آنے کی دعوت دی ہے تاکہ نواز حکومت کا خاتمہ کیا جاسکے۔اب چاہے اس کا ہجوم پرامن رہے یا تشدد پر اتر آئے، حکومت نہیںگرے گی۔ اُن کی پہلی اور آخری امید تیسرا امپائر ہی تھی ، جو دم توڑ چکی ہے۔ اب صرف عزت بچانے کے طریقے ہیں۔ اگر الطاف حسین اور عمران خان حقائق کا سامنا کریں تو اُنہیں نظر آجائے گا کہ ان کی حکمت ِ عملی ناکام ثابت ہوئی۔ اُنہیں ٹھنڈے سے بیٹھ کر اس پر نظر ِ ثانی کرنے کی ضرور ت ہے۔
(پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا نقطہ نظر بیان کرنے کیلئے اگر کوئی قلمکار اظہار خیال کرنا چاہیں تو جنگ کے صفحات حاضر ہیں)
تازہ ترین