مجھے یہ تو یاد نہیں کہ بہت پہلے میاں صاحب کو کہاں دیکھا لیکن جب سے دیکھا ان کی طبیعت کی سادگی اور بے ساختہ پن نے مجھے اپنا گرویدہ کرلیا۔ لمبا قد متوازن جسم، گول چہرہ، خوبصورت آنکھیں جس میں ایک خمار کی کیفیت رہتی تھی، لمبی سفید داڑھی، سر پر عام طورپر سفید کپڑے کی ٹوپی ، لمبا کرتا اور ڈھیلی ڈھالی شلوار پائوں میں عام سی جوتی، طبیعت میں بے نیازی، گفتگو میں بے ساختہ پن، بول چال عام اور سادہ پنجابی زبان میں گفتگو زبان میں کبھی کبھی تھوڑی سی لکنت، طبیعت میں جاذبیت اور میل ملاپ میں محبت بھری اپنائیت یہ تھے میاں جمیل احمد شرق پوری سجادہ نشین شرق پور شریف، ویسے تو آپ اتنی مشہور خانقاہ کے سجادہ نشین تھے لیکن طبیعت کی سادگی کی وجہ سے ایک سادہ انسان بلکہ پنجاب کے دیہات میں رہنے والے عام کسان کی طرح نظر آتے تھے ان کی محفل میں جب بیٹھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ حضرت مجدد الف ثانی کی فکر اور ان کی تعلیمات کے فروغ اور اشاعت کے لئے ہر وقت مصروف عمل رہتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے تصوف اور روحانیت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں حضرت مجدد کے افکار کو ترویج دینے ان اور ان کی اشاعت کے سلسلے میں مسلسل کام کیا ان کو حضرت مجدد الف ثانی کے حوالے سے کتابیں شائع کرنے کا جنون کی حد تک عشق تھا، اس سلسلے میں مجھے ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی نے میاں صاحب سے ملنے کے لئے کہا تھاکیونکہ ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ میں دو قومی نظریہ اور حضرت مجدد الف ثانی کے عنوان سے علی اکیڈمی کے سپیلائزیشن کے کورس کے جو مقالہ لکھ رہا ہوں اسے کتابی صورت میں شائع ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی کی خصوصی نگرانی میں اور ان کے خصوصی مشوروں سے میں یہ مقالہ لکھ رہا تھا۔ میرا معمول یہ تھا کہ جس دن مجھے اپنا تحریری مسودہ ڈاکٹر صاحب کو دکھانا ہوتا تھا اس دن دوپہر کو پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس شعبہ علوم اسلامیہ چلا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے دوپہر کے وقفے کو میرے لئے قربان کردیتے تھے وہ اپنے دفتر میں کرسی پر اپنی نشست جما کر آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاتے تھے اور مجھے اپنا مسودہ پڑھنے کے لئے کہتے۔ میں پڑھتا جاتا تھا اور کبھی کبھی ڈاکٹر صاحب کے چہرے کو دیکھتا جاتا تھا کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ شاید سو گئے ہیں اس لئے جیسے ہی رکتا ڈاکٹر صاحب اپنی موٹی موٹی آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتے اور پوچھتے کیوں رک گئے پڑھئے! میں پھر سے پڑھنے لگتا جب میں ان کو کسی فقرے کی ساخت پر اعتراض ہوتا یا کسی لفظ کا متبادل ان کے ذہن میں ہوتا توفوراً اصلاح فرماتے اور حکم دیتے اس کو یوں لکھئے۔ یا یہ لفظ مناسب نہیں اس کی جگہ دوسرا لفظ مناسب رہے گا۔ ڈاکٹر صدیقی کا تعلق روحانی طورپر شرق پور شریف سے تھا اور میاں جمیل احمد شرق پوری سے ان کے گہرے قریبی مراسم تھے اس لئے ڈاکٹر صاحب نے مجھے میاں صاحب سے ملنے کے لئے ایک ملاقات کا اہتمام کرایا، میاں صاحب بڑی محنت اور اپنائیت سے ملے اور فرمایا کہ ہم ماہنامہ طلوع اسلام کا مجدد الف ثانی نمبر شائع کرنے کا سوچ رہے ہیں اور یہ کئی جلدوں پر مشتمل ہوگا اس کی ایک جلد صرف آپ کی تحقیقی کتاب پر مشتمل ہوگی۔ جب تک میں پاکستان میں رہا اس کی اشاعت نہ ہوسکی لیکن بیلجم میں مجھے یہ شائع شدہ کتاب ملی، میاں صاحب نے واقعی اپنا وعدہ پورا کیا تھا اور ایک علیحدہ جلد کی صورت میں اسے شائع کرایا جب یہ انگلستان آگیا تو سب سے پہلے میرا قیام مانچسٹر کے قریب ایک نواحی گائوں بری میں تھا ایک دن میری رہائش گاہ کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا میں باہر آیا تو دیکھا کہ دروازے پر میاں جمیل احمد شرق پوری اکیلے کھڑے ہیں ان کے لمبے کرتے کی جھولی میں سیب پڑے ہیں اور انہیں نے بے ساختگی سے پنجابی میں مجھے کہا کہ جلدی سے لے لیں میں نے فوراً یہ سیب سنبھالے اور گزارش کی کہ اندر تشریف لائیے، کہنے لگے نہیں میں کہیں جارہا ہوں میں ادھر سے گزر رہا تھا کہ سوچا آپ کو یہ سیب پیش کرتا جائوں۔ اس بہانے آپ سے ملاقات بھی ہوگئی میاں صاحب جس کے ساتھ آئے تھے وہ گاڑی میں بیٹھا تھا لیکن میاں صاحب خود اپنے کرتے کی جھولی میں یہ سیب لئے میرے دروازے پر کھڑے تھے یہ منظر مجھے زندگی بھر نہیں بھولے گا۔ اتنے بڑی معروف ومشہور درگا کا سجادہ نشین اور اس قدر سادگی اور اپنائیت میرے اصرار کے باوجود اندر تشریف نہ لائے لیکن کہنے لگے کہ ملاقات کے لئے ضرور آئیے گا۔ پھر وہ ہر دوسرے تیسرے سال انگلستان کا دورہ لگاتے۔ مجھے اطلاع ہوتی تو میں ضرور ملاقات کا شرف حاصل کرتا ایک دفعہ مجھے ان کے ساتھ برمنگھم سے مانچسٹر تک ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا ایک پروگرام میں ہم دونوں اکٹھے گئے رات گئے پروگرام ختم ہوا تو انہوں نے منتظمین سے کہا کہ وہ ابھی مانچسٹر جائیں گے منتظمین نے پوچھا کیسے جائیں گے تو کہنے لگے صاحبزادہ صاحب کے ساتھ، میں خوش ہوگیا کہ اس طرح باتوں باتوں میں سفر اچھی طرح کٹ جائیگا۔ میں ڈرائیو کررہا تھا وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور پوچھا کیا حال احوال ہیں؟ انگلستان اور یورپ کے حوالے سے اسلامی تبلیغی سرگرمیوں کے بارے میں انہیں بتانے لگا کچھ دیر تو وہ سنتے رہے پھر آنکھیں بند کرلیں اور گہری نید میں چلے گئے اور پھر کچھ دیر بعد ان کے خراٹے شروع ہوگئے ڈرائیور کی حیثیت سے میری عجیب کیفیت تھی جب ڈرائیور کےساتھ کوئی بیٹھ کر سورہا ہو اور وہ بھی گہری نیند آدھی رات کا وقت ہو تو ڈرائیورپر بھی غنودگی ظاہر ہوجاتی ہے۔ میں ادب سے انہیں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا وقفے وقفے کے بعدنیم غنودگی کی کیفیت میں وہ اپنی آنکھیں کھولتے اور مجھ سے پوچھتے ہور سنائو کی حال احوال اے؟ اور پھر گہری نیند میں چلے جاتے اس طرح مانچسٹر تک ہمارا سفر کٹا اور اترتے ہوئے کہنے لگے آپ کے ساتھ سفر کرکے بڑا مزہ آیا اور آپ سے بہت کچھ مفید باتیں سننے کو ملیں، ایک دفعہ انگلستان کے اپنے دورے میں مجھے اطلاع دی کہ آپ کے استادپروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی صاحب کو ہم یہاں بھیج رہے ہیں جو یہاں مانچسٹر میں قائم ’’ مشیر ربانی اسلامک سینٹر میں تعلیمی اور تدریسی سرگرمیوں کی نگرانی کریں گے، کچھ مہینوں بعد ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی یہاں آگئے مجھے اس سے بڑی روحانی خوشی ہوئی کہ اس طرح استاد محترم کی صحبتوں اور نصیحتوں سے استفادے کا موقع ملا، حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری کا آنا ذرا کم ہوگیا کیونکہ ان کی صحت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ ان کے ایک صاحبزادے میاں جلیل احمد شرقپوری سیاست میں آگئے اور قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے، میاں جلیل احمد ہمارے گھر آتے رہے اور ان سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں ان کے ساتھ ہونے والی محفلوں میں ان کے والد گرامی کا ذکر ہوتا تھا میاں جمیل احمد شرقپوری اور ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی شیخ طریقت اور مرید صادق دونوں اللہ کے حضور حاضر ہوچکے ہیں ان کی یادیں اور تذکرے باقی رہ جائیں گے۔
.