دھرنے کی شاندار کامیابی کے بعد تحریک انصاف والوں نے اب گھیرائو کا پروگرام بنایا ہے اس میں لطف والی بات یہ ہے کہ تحریک کی خواتین گھیرائو کیا کریں گی کتنا مزہ آئےگا۔ پروگرام کے مطابق سب سے پہلا گھیرائو جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن کا کیا جائے گا۔ بہت بولنے لگ گئے ہیں، آزادی نسواں کے خلاف تو جیسے وہ ادھار کھائے بیٹھے ہیں، لیکن مجھے یہاں سابق جنرل پرویز مشرف کا وہ تبصرہ یاد آرہا ہے۔جو گزشتہ دنوں انہوں نے کیا تھا کہ عمران خان کو سیاست کے اسرار و رموز سمجھنے میں ابھی بیس سال اور لگیں گے واقعی سیاست ایسا ایک سمندر ہے جس کا اندازہ کنارے پر کھڑا شخص نہیں لگا سکتا اترنا پڑتا ہے اور اترنے کے لئے تجربے کی آنچ اور شعور کی کسوٹی کی ضرورت پڑتی ہے نقشوں کی مدد سے اوسط نکالنے سے گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا، دو دوست ایک دریا پار کرنا چاہتے تھے نقشوں کی مدد سے انہوں نے دیکھا کہ پانی کہیں ایک فٹ ہے کہیں آٹھ فٹ اور کسی جگہ دوفٹ ہے۔ انہوں نے اوسط نکالی تو ساڑھے تین فٹ آئی دونوں نے فیصلہ کیا کہ ساڑھے تین فٹ تو کوئی گہرائی نہیں آسانی سے ہم دریا پارکرسکتے ہیں دونوں دریا میں اترے اور آٹھ فٹ کی گہرائی میں جاکر ڈوب گئے یہی کچھ عمران خان اور مولانا طاہر القادری کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ حکومت گرانے کی اوسط نکال کر آئے تھے مولانا طاہر القادری تو سیانے اور جہاں دیدہ شخص ہیں اپنی پگ بچا کر نکل گئے مگر عمران خان کو کیا سوجھی کہ وہ (خواتین ونگ) کے ذریعے ایک اور بلنڈر کرنے جارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کا گھیرائو کوئی آسان کام ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو سے آج تک جتنی حکومتیں گزری ہیں وہ کسی نہ کسی طور مولانا فضل الرحمٰن کے گھیرے میں رہی ہیں۔ مولانا کسی کے گھیرے میں آنے والے نہیں، لہٰذا تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں جائے اور عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ان کی خدمت میں دن رات ایک کردے ۔اسلام آباد کے ڈی چوک میں بھنگڑے ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے ان کا صوبہ براہ راست دہشت گردوں کے نشانے پر ہے وہاں ان کی ضرورت ہے بس کریں دھرنا کافی ہوگیا۔
پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ملک ہے قدم قدم پر دیکھ بھال کے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ اتوار واہگہ بارڈر پر پیش آنے والا واقعہ بہت بڑا سانحہ ہے جس میں 3رینجرز اہلکاروں 11خواتین اور سات بچوں سمیت 61افراد جاں بحق ہوئے 5رینجرز اہلکار اور120 شہری زخمی بھی ہوئے کالعدم تنظیم جنداللہ اور طالبان کے ایک گروپ جماعت الاحرارنے واہگہ بارڈر پر دھماکے کی ذمہ داری قبول بھی کرلی۔ پاکستان بھر سے مذمتی بیانات آئے، بھارت نے بھی مذمت کی ۔ افغانستان نے بھی ہمدردی کا اظہار کیا دہشت گردی کے اس طرح کے سانحات کسی طور بھی جہاد کے زمرے میں آتے ہیں اور نہ ہی مخاصمت کا یہ دلیرانہ طریقہ ہے ،نہتے شہریوں پر اس طرح کے بزدلانہ حملے دنیا میں مسلمانوں کا امیج خراب کرنے کے مترادف ہیں۔
واہگہ میں ہرروز ایک میلہ سا سجتا ہے مجھے کئی بار جانے کا اتفاق ہوا جس طرح واہگہ سے لاہورتیس کلومیٹر کے فاصلے پرہے اسی طرح وہاں سے بھارت کا قریب ترین شہرامرتسر ہے، دونوں طرف کرکٹ اسٹیڈیم طرز کی کرسیاں لگائی گئی ہیں دونوں طرف کے شہری شام کو اکٹھے ہوتے ہیں۔ پریڈ کا دورانیہ بیس منٹ کا ہوتا ہے سورج غروب ہونے پر دونوں ملکوں کے جھنڈے اتارے جاتے ہیں۔ پاکستان کے انتظامات لاہور رینجرز کے پاس ہیں اور بھارت کے بی ایس ایف بارڈر سیکورٹی فورس کے پاس، دونوں طرف ترانے بج رہے ہوتے ہیں نعرے لگائے جارہے ہوتے ہیں آوازے کسے جاتے ہیں اپنے اپنے جوانوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے مخالف پر ترش جملے اور بھبھکے لگائے جاتے ہیں تین ساڑھے تین ہزار لوگ ہر روز واہگہ پہنچے ہوتے ہیں۔ چھٹی والے دن یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے وہاں کارپارکنگ موٹر سائیکل اور سائیکل اسٹینڈ تک کے انتظامات رینجرز کے پاس ہیں کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹال بھی رینجرز کے پاس ہیں قیمتوں کی وہی حالت ہے جو ایئرپورٹوں اور بسوں کے اڈوں پر ہوتی ہے۔ پنڈال میں سیخ تکا، چپس ، بوتل اور چائے والے اس طرح آوازیں لگارہے ہوتے ہیں جس طرح سینما گھروں میں ہاف ٹائم میں لگائی جاتی ہیں۔ وہ کام بھی رینجرز اہلکار کررہے ہوتے ہیں۔ حفاظتی نقطہ نظر سے اس کاروبار کی آڑ میں لوگوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔
واہگہ میں پہلے مفت پریڈ دکھائی جاتی تھی مگر گزشتہ چند برسوں سے ٹکٹ لگا دیا گیا ہے جن میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں رینجرز کو چاہئے کہ لاکھوں روپے روزانہ اس رقم سے وہاں ایک اسپتال بنادیں ثواب کا ثواب اور ڈیوٹی کی ڈیوٹی۔ واہگہ میں پرچم اتارنے کی وہ تقریب برسہا برس سے جاری ہے۔ پاکستان کی طرف جو گیٹ ہے اس پر باب آزادی لکھا ہوا ہے اور جو بھارت کی طرف ہے اس پر انڈیا لکھا ہوا ہے وہ مشترکہ فلیگ پریڈ چار پانچ مراحل میں مکمل ہوتی ہے عوامی رابطے کے طور پر خوب نعرہ بازی ہوتی ہے۔ ہماری طرف نعرہ تکبیر نعرہ رسالت اور نعرہ حیدری گونجتے رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف سے بھارت ماتا کی جے ابھرتی رہتی ہے۔ ایک دفعہ ہماری طرف سے سورہ یٰسین کے پہلے تین رکوع کی تلاوت لگائی گئی تو ادھر سے شور بلند ہوا بیٹے نے کہا بابا تلاوت میں تو خاموش رہتے ہیں مگر وہ شور کررہے ہیں ۔ میں نے کہا یہی وجہ تھی جب علامہ اقبال نے کہا تھا ہم دو قومیں ہیں۔ پریڈ کے وقت دونوں طرف کے گیٹ کھول دیئے جاتے ہیں دونوں کے درمیان پانچ فٹ کی پٹی غیرجانبدار علاقہ ہے (نومین لائن) پریڈ کے پہلے مرحلے میں ہماری طرف سے تین جوان بڑی تیزی سے پائوں پگڑی تک اٹھاتے ہوئے بھارت کی طرف بڑھے تو لگا جیسے اب امرتسر جاکررکیں گے مگر اپنی حدود تک جاکر ٹھہرگئے اسی طرح ادھر سے بھی آے اور اپنے گیٹ پر آکر رک گئے ایک دوسرے کو گھورا غصہ کیا مونچھوں کو تائو دیا اور واپس آگئے۔ اس دوران دونوں طرف سے عوامی تبصرے بھی ہوتے رہے پرہماری طرف سے ایک جوان انتہائی غصے میں نکلا اور بھارتی گیٹ پر جاکر رک گیا اتنے میں ایک بھارتی گرتا پڑتا دائیں بائیں دیکھتا جیسے کوئی پتھر تلاش کررہا ہوآیا اور اپنے گیٹ پر آکر ٹھہر گیا اب یہ دونوں آمنے سامنے کھڑے کمر پر ہاتھ رکھے ایک دوسرے کو خوب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھ رہے ہیں دوتین منٹ گزر گئے تو بیٹے نے پوچھا ان کو کیا ہوگیا ہے یہ ہل جل کیوں نہیں رہے، میں نے کہا دونوں ایٹمی ملک کے نمائندے ہیں اپنی اپنی برتری دکھا رہے ہیں پھر اچانک انہوں نے اس تیزی سے ہاتھ ملایا تو یوں لگا جیسے وہ ایک دوسرے کو چپیڑ مارنا چاہتے تھے مگر نشانہ خطا چلا گیا جھنڈا اتارنے کا مرحلہ اس سے بھی دلچسپ ہے میں ہر بار یہ سمجھ کر پریڈ دیکھتا ہوں کہ شاید اس کا مقصد سمجھ آجائے مگر آج تک کامیابی نہ ہوئی اور 61 افراد جاں بحق ہوگئے۔