• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں جھنگ تیسری بار گیا تھا۔
پہلی بار گورنمنٹ کالج جھنگ کی سالانہ تقریب میں گیا جہاں میرے نہایت محترم دوست محمد سلیم اسلامیات کے پروفیسر تھے۔ ہم نے اُن طلبہ کو اُردو ڈائجسٹ کا تحفہ دیا جنہوں نے امتحانات میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔ پروفیسر سلیم اور میں کئی سال تک محکمۂ انہار میں ملازمت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ وہ نہایت اچھے اسٹینوگرافر اور میں سگنیلر تھا۔ اُنہوں نے علومِ اسلامیہ میں ایم اے کیا جبکہ مجھے ایم۔اے پولیٹیکل سائنس میں داخلہ مل گیا۔ سلیم صاحب ایم۔اے کرنے کے بعد محکمۂ تعلیم میں آ گئے اور مجھے قدرت کوچۂ صحافت میں لے آئی۔ پروفیسر سلیم بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے اور اُن کے اندر بہت خوبصورت اورمؤثر تحریر لکھنے کا جوہر موجود تھا ، چنانچہ ہم نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ دو ماہ کی چھٹی لے کر ہفت روزہ زندگی میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ وہ تیار ہو گئے اور جھنگ سے لاہور چلے آئے۔ اُنہوں نے ہمارے ساتھ برسوں کام کیا اور آخر کار سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اِس کے بعد وہ نوائے وقت میں چلے گئے اور سالہا سال ’’سرِ راہے‘‘ رقم کرتے رہے ، یہاں تک کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
دوسری مرتبہ میں ایک سیاسی قیدی کی حیثیت سے جھنگ جیل میں آیا تھا۔ یہ مئی 1972ء کی بات ہے۔ اُن دنوں سخت گرمی تھی اور جیل میں سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مسٹر بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی ہم پانچ صحافیوں کو مارشل لاء کے تحت گرفتار کرا دیا تھا۔ اِن میں راقم الحروف کے علاوہ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ، مجیب الرحمٰن شامی ، مظفر قادر اور حسین نقی شامل تھے۔ہم نے عدالت میں مارشل لاء مردہ باد کے نعرے لگائے اور اپنے بیانات میں عدالت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ نام نہاد عدالت نے ہمیں دو سال قید کی سزا سنائی۔ میرے حصے میں جھنگ جیل آئی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ عدالت ِعالیہ کی طرف سے رہائی کے بعد میری پروفیسر گوہر صدیقی سے جھنگ میں ملاقات ہوئی تھی جو تعلیمی میدان میں نہایت خاموشی اور منصوبہ بندی سے کام کر رہے تھے۔ اُن کا ادبی ذوق بھی بہت عمدہ تھا اور اُن کی چند کہانیاں اُردو ڈائجسٹ میں بھی شائع ہو چکی تھیں۔ جھنگ جیل میں اُن دنوں مولانا منظور چنیوٹی بھی زیرِحراست تھے۔ اُن سے بڑی دلچسپ ملاقاتیں رہیں۔
تیسری بار میں گزشتے ہفتے جھنگ کیڈٹ کالج کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے گیا جو پروفیسر گوہر صدیقی اور اُن کے ہونہار فرزند کمانڈر صہیب فاروق نے 2007ء میں قائم کیا ہے۔ میرے ہمراہ جناب سجاد میر بھی تھے جن کی پُرلطف باتوں نے ساڑھے تین گھنٹے کے سفر کو خوشگوار اور خیال افروز بنائے رکھا۔ اِس تقریب میں شرکت کے لئے کراچی سے قادرالکلام شاعر جناب اعجاز رحمانیؔ ، جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغیات کے چیئرمین ڈاکٹر طاہر مسعود اور معروف صحافی نصیر احمد سلیمی آئے تھے اور اسلام آباد سے نامور کالم نگار احتشام ضمیر بڑے جذبے کے ساتھ پہنچے تھے۔ 8نومبر کو تقریری مقابلے کی ایک انتہائی سحر آفریں تقریب منعقد ہوئی جس میں نوجوانوں کے پُرجوش خیالات سن کر بڑی ڈھارس بندھی۔ ایک زمانے میں کالجوں اور جامعات میں کل پاکستان تقریری مقابلے باقاعدگی سے ہوتے اور انہی سے لیڈر اُبھرتے تھے۔ اب یہ ساری باتیں خواب و خیال ہو گئی ہیں۔ اِس تقریب میں پورے ملک سے طلبہ اور طالبات آئی تھیں۔تفتان سے لے کر گلگت بلتستان تک۔ ہم سب کو اِس یک جائی سے بے پناہ خوشی کا احساس ہوا اور یوں لگا کہ محبت بھرا پاکستان اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہم پر طلوع ہو رہا ہے۔ تقریب میں حسن ترتیب اور ڈسپلن سے دل بہت شاد ہوا۔ طلبہ اور طالبات آٹھ گھنٹے جم کر بیٹھے رہے جو اِس امر کی شہادت دے رہے تھے کہ اُنہیں بہت اچھی ذہنی اور اخلاقی تربیت مل رہی ہے اور اُن کے اندر تہذیب و شائستگی فروغ پا رہی ہے۔
کیڈٹ کالج جھنگ کے بارے میں جو ہم نے مشاہدہ کیا اور معلومات جمع کیں ، وہ یقیناً ہوشربا تھیں اور پروفیسر گوہر صدیقی کے وژن ، قابلیت اور استقامت کی زندہ جاوید تصویریں۔یہ کیڈٹ کالج پاکستان کا پہلا گرلز کیڈٹ کالج ہے جس میں سات سو لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور آٹھ سو طلبہ پڑھتے ہیں۔ ہر پندرہ طالب علموں کے لئے ایک استاد میسر ہے۔ اِس کالج کا الحاق ایئر فورس کے علاوہ کیمبرج یونیورسٹی انگلستان سے بھی ہے۔اِس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ پورے ملک سے طلبہ اور طالبات یہاں پڑھنے آتے ہیں۔ اِس طرح قومی شناخت اور ملکی یک جہتی کے رشتے مستحکم ہوتے ہیں۔ ہاسٹل کے ایک کمرے میں دس طلبہ قیام کرتے ہیں جن میں تمام صوبوں کے لڑکے اکٹھے رکھے جاتے ہیں۔ تیسری خوبی یہ کہ اِس میں جملہ مذاہب سے تعلق رکھنے والے طلبہ تعلیم پاتے ہیں۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو ، عیسائی اور پارسی بھی ہیں جو اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے اور باہمی تعلقات کو پُرامن رکھنے کے پابند ہیں۔ مسلم طلبہ و طالبات پانچ وقت کی نماز پڑھتے اور قرآن کا ترجمہ سیکھتے ہیں۔ اساتذہ اور طلبہ چاربجے صبح سے لے کر رات دس بجے تک مصروف رہتے ہیں۔ مہینے میں دو بار ادبی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں طالب علموں کو تقریر کرنے کا فن اور اُن میں شعروادب سے لگاؤ پیدا کیا جاتا ہے۔ کھانا کھانے، لباس پہننے اور گفتگو کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔ اُنہیں سخت جان بنانے کے لئے کھیلوں کے علاوہ سردیوں میں منفی 22درجہ حرارت میں برف پر لیٹنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔
کالج کی کشادہ فضا میں پورا دن گزرا اور عشاء کی نماز کے بعد محفلِ مشاعرہ منعقد ہوئی۔ شعرائے جھنگ نے ایک سماں باندھ دیا اور اِدھر اعجاز رحمانیؔ دلوں کو گرماتے رہے۔ اِن تقریبات کا ایک حصہ پروفیسر گوہر صدیقی کی ساٹھ سالہ معلمی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے بھی وقف تھا۔ گوہر صدیقی ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے آئے تھے اور فسادات میں اُن کے خاندان کے 113افراد شہید ہوئے۔ خود اُنہیں بھی گولیاں لگیں اور اُن کی بہن انیس فاطمہ پر کرپان کا وار ہوا۔ پاکستان میں اُنہوں نے 1954ء میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا اور چند سال بعد ملازمت چھوڑ کر اپنا غزالی سکول قائم کیا۔ وہ چند ہی سال بعد غزالی کالج قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں وہ قومیا لئے گئے ، مگر اُن کا جذبۂ تعمیر سرد نہ پڑا۔ حالات سازگار ہوتے ہی اُنہوں نے تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دیا۔ کام جب زیادہ بڑھا ، تو اُنہوں نے اپنے بیٹے صہیب فاروق کو ملازمت چھوڑ کر اِس کارِ خیر میں شامل ہونے کے لئے کہا۔ صہیب فاروق اُن دنوں ایئرفورس میں فلائنگ پائلٹ تھے اور ایئرفورس اُنہیں فارغ کرنے کے لئے کسی طرح آمادہ نہیں تھی۔ جب اعلیٰ قیادت کو یقین ہو گیا کہ وہ ایک اعلیٰ مقصد کے لئے ملازمت سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں ، تووہ کڑی شرائط کے ساتھ فارغ کر دیے گئے۔
کمانڈر صہیب فاروق نے اپنے والد کی خواہش کے مطابق پنجاب میں 21غزالی تعلیمی ادارے قائم کر دیے ہیں جن میںاعلیٰ پائے کی معیاری تعلیم دی جا رہی ہے۔ پھر کیڈٹ کالج قائم کیا اور چند برسوں میں اُسے مثالی بنا دیا۔ اِس کی توسیع کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ باہر کے ملکوں سے پاکستانی طلبہ پڑھنے اور سعودی عرب ، متحدہ عرب امارت ، قطر ، کینیڈا اور امریکہ سے کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ اِس کالج کی کارکردگی سے متاثر ہو کر ہمارے دوست ڈاکٹر طاہر مسعود اپنے بیٹے کو بھی اِس میں داخل کرانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں نے تقریب کے صدر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش معلم بننے اور معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے کی تھی۔ مجھے تو قدرت کوچۂ صحافت میں لے آئی ، لیکن آج یہاں آ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے خواب کی زندہ تعبیر سامنے آ گئی ہے اور یہ تابندہ حقیقت بھی کہ ایک شخص کا عزم بڑے کارنامے اور معجزے تخلیق کر سکتا ہے جبکہ نااہل اور سست گام حکمران خاندان تصویر بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین