• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جمہوریت‘‘ پاکستانی عوام کا پسندیدہ ترین طرز حکومت ،سروے

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی جمہوریت کو پسندیدہ ترین طرز حکومت قرار دیتی ہے اور 45فیصد پاکستانی جمہوری نظام حکومت کو ہی تمام خرابیوں کا علاج قرار دیتے ہیں فافن سروے کے مطابق 37فیصد پاکستانی عوامی فلاحی مملکت یا خلافت کے حامی ہیں صرف18فیصد فوجی اقتدار کو جمہوریت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ٹرسٹ برائے ڈیمو کریٹک ایجوکیشن  و فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کے زیر ا ہتمام منعقدہ سیمینار کے آغاز پر ٹی ڈی ای اے فافن کے نمائندے نے رواں سال فروری میں ادارے کی طرف سے قومی اسمبلی کے حلقوں میں کرائے جانیو ا لے سماجی وسیاسی سروے کے نتائج سے بھی شرکا کو آگاہ کیا۔سروے کے مطابق رائے دینے والے 45 فیصد افراد نے جمہوریت کی بطورپسندیدہ طرز حکومت حمایت کی۔ٹی ڈی ای اے کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے چیئر مین ضیا الدین نے کہا کہ بدعنوانی جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے آئین کی بالا دستی،وسائل کی مساوی تقسیم  اور مضبوط حکومتی رٹ ضروری ہے۔ پاکستان میں گورننس کے بحران کی بڑی وجہ معاملات کو اداروں کی بجائے ذات کے گرد گھمانا ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے ’’بدعنونی ایک بے لگام لعنت‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے  بد عنوانی  کو جمہوریت کیلئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ چیک اینڈ بیلنس کا متوازن نظام نہ ہو تو بد عنوانی سر اٹھاتی ہے۔ہمارے ہاں آڈیٹر جنرل پاکستان جیسے ریاستی ادارے کے سربراہ کو صرف اس لئے عہدے سے ہٹنا پڑتا ہے کہ وہ سخت رپورٹیں کیوں لکھتا تھا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان حکومت نہیں ریاست کا اہم ترین ادارہ اور معیشت کی دفاعی لائن ہےا ور اس کو آزادانہ کام کرنا چاہئیے۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کے منصوبے دنیا کی نسبت 3 گنا زیادہ قیمت پر مکمل کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ بجلی کے بحران کے خاتمے اور غربت پر قابو پانے کیلئے نئے آبی ذخائر کی تعمیر نا گزیر ہے مگر حیرت ہے کہ جن صوبوں میں غربت ہے وہیں کے لیڈر آبی ذخائر کی سب سے زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔پاکستان میں بری ترین بیورو کریسی ہے جبکہ سفارشی نظام دنیا بھر کی بلند ترین سطح پر ہے۔ یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے جمہوریت اورپاکستان میں دو متبادل  کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں فوجی اقتدار کا مستحکم حلقہ درمیانہ طبقہ ہے، مڈل کلاس سمجھتی ہے کہ سیاستدان غیر موثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری جمہوریت کا مطلب ہے کہ اشرافیہ خود کو منتخب کر لے۔شروع میں ہماری اشرافیہ جمہوریت سے خوفزدہ تھی اور انتخابات کو اپنی سیاسی موت سمجھتی تھی اسکے اس رویےنے غلط بنیادیں ڈالیں۔  پاکستان میں سیاسی جماعتیں لیڈروں کی ذاتی پارٹیاں ہیں۔سرور باری نے بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور محنت کش طبقات کی پریشانیاں کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو مزدوروں، تاجروں، وکیلوں اور دیگر پیشہ وارانہ تنظیموں کا رکن بننے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ دس سال میں غریب اور درمیانے طبقے پر ٹیکسوں کا پنتیس فیصد بوجھ بڑھا ہے جبکہ امیر لوگ اب بھی پورا ٹیکس دینے سے بچے ہوئے ہیں۔ مزدور، کسان کی نشستوں کے اسی فیصد امیدواروں نے خود کو تاجر پیشہ لکھا اسکے باوجود ریٹرننگ آفیسرز نے انکے کاغذات نامزدگی مسترد نہ کئے۔قبل ازیں فافن کے عہدیدار رشید چوہدری نے  اس سال فروری میں کرائے گئے  سروے کے نتائج بتائے جن کے مطابق 36 فیصد لوگ ذات برادری جبکہ چھبیس فیصد امیدوار کی شخصیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ دینے کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں ہے۔ سروے کے مطابق ملک بھر میں جمہوری نظام حکومت کی سب سے کم حمائت وفاقی دارالحکومت میں پائی جاتی ہے جبکہ اداروں میں سے عوام کا سب سے کم اعتماد الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ پر ہے۔
تازہ ترین