عالمی اقتصادی فورم کے حالیہ اجلاس میں غالب موضوع یہ رہا کہ جغرافیائی سیاست، افراتفری اور انتشار یکجا ہوکر آج کے کشیدہ اسٹریٹجک ماحول کی صورت گری کر رہے ہیں۔جیسا کہ مشرق وسطیٰ، یوکرائن اور مشرقی ایشیا میں جنم لینے والے بحرانوں اور کشیدگیوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2014 سیاسی و معاشی عدم استحکام و ہنگاموں سے بھرپوررہا ہے، نیز غیریقینی صورت حال دنیا کے پیش کردہ مواقعوں پر تاریک سایہ ڈال رہی ہے۔بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مقابلہ بازی پرانے طور طریقوں کی واپسی کی علامت نظر آتی ہے اگرچہ اس نے نئے روپ دھارلئے ہیں۔ دنیا بھر میں قوم پرستی کے جذبات میں ابال سے بھی اس کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔
عالمی ایجنڈے پر عالمی اقتصادی فورم کا سالانہ اجلاس دبئی میں ہوا جس میں میزبان ملک کے ایک سینئر وزیر نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ فورم کا اجلاس بالخصوص ایک ایسے نازک موقع پر ہورہا ہے جب انتہا پسندی نئی شکلوں میں سر اٹھارہی ہے اور وسائل کی کمیابی و موسمی تبدیلی سے لے کر ایبولا کی وبا تک متعدد عالمی چیلنج نہ صرف مہیب خطرات موجودہ سنگین حقیقتوں کی صورت میں سر پر منڈلا رہے ہیں۔
دنیا کے اس سب سے بڑے برین اسٹارمنگ ایونٹ میں 80 ممالک کے تقریباً ایک ہزار ماہرین شرکت کرتے ہیں۔ اس سال فورم کے اجلاس میں کئی متفرق اور اہم امور پر بات کی گئی۔ عالمی اقتصادی فورم کے بانی کلاؤس شواب کے مطابق اجلاس کا مقصد اختراعی روح کے ساتھ مستقبل کی صورت گری کرنا ہے تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے بالخصوص ایک ایسے وقت جب دنیا کرائسس مینجمنٹ میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔کئی اجلاسوں میں شرکاء نے اتفاق کیا کہ 2014 ایک بے نظیر سال رہا کیونکہ چیلنج ایک ایسے وقت یکجا ہوگئے جبکہ عالمی گورننس کے ادارے انتہائی کمزور تھے۔ پرانے وقتوں میں عدم استحکام والے علاقے دنیا کی ترقی کی جانب پیش قدمی میں رکاوٹ نہیں بنتے تھے۔ لیکن آج فوری چیلنجوں کی بھرمار دنیا کی راہ میں حائل ہوگئی ہے۔کانفرنس میں اور علیحدہ سے ہونے والے مباحثوں میں تین یا چار عوامل کی نشاندہی ہوئی جنہوں نے موجودہ دورکو عالمی امور میں غیرمعمولی بنادیا ہے۔ اول، بحران کی بڑھتی ہوئی عالمگیریت ہے۔ اس نے موجودہ بحران کی سطح اور وسعت کو بنیادی طور پر ماضی کے بحرانوں سے مختلف بنادیا ہے۔دوم، یہ بحران ایک ایسے موڑ پر آپہنچے ہیں جہاں نظام یا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا پھر نازک حالت میں ہیں۔ سوم، یہ بحران طول پکڑتے جارہے ہیں اور دیرپا نوعیت کے ہیں۔ اور چہارم، انہیں حل کرنا آسان نہیں، اس کیلئے اچھا خاصا وقت اور بہت صبر و حکمت درکار ہے۔جغرافیائی اقتصادی چیلنجوں پر ہونے والے اجلاس میں زور دار بحث ہوئی جس نے جغرافیائی سیاست کی واپسی کےموضوع کو اجاگر کیا۔ ایک مقرر نے کہا کہ جغرافیائی سیاست تیزی سے معیشت کی عالمگیریت میں مداخلت کرتے ہوئے اسے ختم کررہی ہے جس کا نتیجہ قوم پرستی کے آگے شکست کی صورت برآمد ہورہا ہے۔اس سے فورم کے سالانہ رسالے آؤٹ لک میں گلوبل ایجنڈا 2015 پر اٹھائے گئے کلیدی نکتے کو تقویت ملی۔ عالمی جغرافیائی سیاست کے جائزے سے پتہ چلا کہ عالمگیریت مخالف قوم پرستی کے نظریات طویل عرصے سے دبے ہوئے معاملات میں نئے نقطہ اشتعال اور غیریقینی پیدا کررہے ہیں، جس کی یورپی یونین کے تازہ ترین تجربے سے تصدیق بھی ہوگئی ہے۔ایک اور مقرر نے کہا کہ باہمی اقتصادی انحصار کے بارے میں خیال تھا کہ تعاون کو جنم دے کر جغرافیائی سیاسی کشیدگیاں ختم کرے گا۔ اس کے برعکس اقتصادی جنگ و جدل زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے جب کہ بڑی طاقتوں کے مابین محاذ آرائی اقتصادی صورت بھی اختیار کرتی جارہی ہے۔ درحقیقت سب سے بڑی قوت ہونے کی مقابلے بازی نے کثیر الجہتی روپ دھار لیا ہے۔
سیشن میں یہ بات سامنے آئی کہ جغرافیائی اقتصادیات دنیا کو متحد نہیں بلکہ تقسیم کررہی ہے۔ مثال کے طور پر علاقائی کثیر فریقی منصوبوں کے مابین خوفناک مقابلہ یوکرائن کے بحران کا بنیادی سبب تھا۔ حتیٰ کہ انٹرنیٹ بھی اتفاق و اتحاد کے فروغ کےلئے مشترکہ عوامی مقام بننے کی بجائے عالمی برادری اور اس کی گفتگو میں نااتفاقی کا سبب بن رہا ہے۔ اگرچہ جغرافیائی اقتصادی باہمی انحصار بدستور ایک حقیقت ہے تاہم اقتصادی مسابقت اور منڈیوں کےلئے شدید لڑائی وہی کردار ادا کررہی ہے جو ماضی میں جغرافیائی سیاسی طاقت کے کھیلوں میں چھاؤنیوں نے ادا کیا تھا۔
اس سیشن اور دیگر میں شرکاء نے متعدد عالمی رجحانات و رویوں کی نشاندہی کی جن کا خلاصہ بیان کرنا بہتر ہوگا۔
بعد از سرد جنگ دور میں آج بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی ماحول انتہائی کشیدہ ہوچکا ہے۔کثیر القطبیت نے منظر نامہ تبدیل کردیا ہے۔ تاہم موثر عالمی اداروں اور قیادت کی غیر موجودگی میں یہ الجھن اور افراتفری کا ذریعہ بن گئی ہے۔دنیا گلوبلائیزشن (عالم گیریت) سے گلوکلائیزیشن (مقام گیریت) کی طرف بڑھ رہی ہے، یعنی مقامی مسائل اپنے اثرات کے اعتبار سے عالمی بنتے جارہے ہیں۔ایک نئی پیچیدہ باہم منسلک دنیا میں بدستور پرانے طریقے آزمائے جارہے ہیں جو ناکافی ثابت ہورہے ہیں۔ خطرات کے ملاپ کی وجہ سے عالمی چیلنج زیادہ اہمیت اختیار کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر کمزور ریاستوں میں خراب موسم یا وباؤں کا پھوٹنا۔ قوم پرست جذبات اور علیحدگی پسند طاقتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ یہ جزوی طور پر عالمگیریت کے خلل انگیز اقتصادی و سماجی اثرات کا ردعمل ہے۔عالمگیریت تیزی سے ایک مسدود تجربہ بنتی جارہی ہے کیونکہ قومیں پروٹیکشن ازم (مقامی صنعت کے تحفظ) میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ مزید ڈی گلوبلائزیشن (لاعالمگیریت) کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
وسائل کی مقابلے بازی تعاون کو ماند کررہی ہے اور قوموں کو ایسی ریاستوں کی نئی نوآبادیات بنانے کے خطرے سے دوچار کررہی ہے جو ان کے استحصال کی طاقت رکھتی ہیں۔ایشیائی قوتیں بھی ایشیا کو اپنا محور بنا رہی ہیں مثال کے طور پر چین روس تعاون جس کو توانائی کے نئے معاہدے نے مضبوط بنایا ہے۔بریٹن ووڈز اداروں (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک) کے زوال کے ساتھ نئے اداروں کا ظہور ہوا جنہیں ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اسکی اہم مثال انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ لگانے اور ہنگامی ریزرو فنڈ فراہم کرنے کیلئے ایک نئے ترقیاتی بینک کا منصوبہ ہے۔ابھرتی ہوئی طاقتیں گریٹ پاور پالیٹکس کی ایک نئی طرز میں حصہ لے رہی ہیں۔جو چیز ان رجحانات اور عالمی منظر نامے کی دیگر خصوصیات کو اکٹھا کرنے کا سبب بن رہی ہے وہ بڑھتے ہوئے جغرافیائی اسٹریٹجک مقابلے کے موقع پر عالمی قیادت کی عدم موجودگی ہے۔درحقیقت عالمی اقتصادی فورم کی رپورٹ میں ان دو رجحانات کو 2015 کےلئے 10 سرفہرست رجحانات میں شامل کیا گیا ہے۔یہ سالانہ رپورٹ فورم کے ارکان سے کئے گئے سروے اور نیٹ ورک کے نوجوان عالمی رہنماؤں کے خیالات پر مبنی ہوتی ہے۔ سروے سے پتہ چلا کہ 86 فیصد رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ آج دنیا کو قیادت کے بحران کا سامنا ہے۔ رائے دہندگان نے زوال پذیر نمائندہ جمہوریت کو دنیا کے پانچ سرفہرست رجحانات میں سے ایک قرار دیا۔
رہنماؤں پر اعتماد کے فقدان کا تذکرہ قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر کیا گیا۔ اس اعتماد کے فقدان میں حالیہ برسوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ فورم کی رپورٹ میں کہا گیا چونکہ شہریوں کا جمہوری اداروں پر اعتماد ختم ہوچکا ہے اور جغرافیائی سیاسی تنازعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، لہذا یہ بات واضح ہے کہ آج دنیا میں قیادت کی کمی مجموعی طور پر قیادت کے بحران میں کردار ادا کررہی ہے۔بین الاقوامی سطح پر، چیلنجوں کی پیچیدگی اور بھرمار سے نمٹنے میں عالمی گورننس اداروں کی ناکامی طویل عرصے سے بین الاقوامی بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ یقینی طور پر مغرب سے باقی دنیا کی طرف طاقت کی منتقلی اور چیلنجز کی عالمی نوعیت بین الاقوامی تنظیموں پر ان تبدیلیوں کو قبول کرنے اور ان کا اظہار کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ لیکن ایسا تاحال نہیں ہوا ہے۔
دریں اثناء موجودہ اداروں کی کمزوری، تنازع اور غربت سے لے کر مالی بے قاعدگیوں اور صحت عامہ کو لاحق خطرات تک مختلف بین الاقوامی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کو بہت زیادہ محدود کردیتی ہے۔حیرت کی بات نہیں کہ عالمی ایجنڈے پر سروے سے پتہ چلا کہ ایک بڑی اکثریت عالمی گورننس کےلئے نئے اسٹرکچرز کے مطالبات کررہی ہے۔ جس طرح ایک مقرر نے رپورٹ میں نشاندہی کی: ماضی میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کےلئے جس تسلط پر بھروسہ کیا جاتا تھا۔
وہ اب زوال پذیر ہے، جس کے نتیجے میں ابھرتے ہوئے ممالک کےلئے اسٹریٹجک اثاثوں کے حصول کی راہ ہموار ہورہی ہے۔مزید برآں، مغربی ممالک عالمی اداروں میں ابھرتی ہوئی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے یا شراکت اقتدار کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ رپورٹ میں پرانی اور نئی دونوں طرح کی بڑی طاقتوں پر زور دیا گیا کہ اس نئی اور زیادہ لامرکزیت والی دنیا میں پارٹنر بن کر جینا سیکھیں۔یہ یقینا عالمی سیاست میں ایک غیرمستحکم موڑ پر مناسب مشورہ ہے۔ تاہم جب تک دنیا کے متعدد خطوں میں اسٹریٹجک مطابقت پذیریاں، جن میں سے کچھ متشدد ہیں اور کچھ نہیں، مکمل نہیں ہوجاتیں تب تک یہ جاننا مشکل ہوگا کہ ایسی شراکت داریاں کس طرح بنتی اور فروغ پاتی ہیں۔ اس طرح کے تعاون پر مبنی کوششوں کے بغیر ہمارے وقتوں کے مسلط چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے نئے عالمی گورننس اسٹرکچر کے ابھرنے کا امکان نہیں۔ درحقیقت اگر تبدیلی قبول کرنے میں موجودہ عالمی ادارتی انتظامات بہت سست یا مزاحم ہیں تو دنیا اس سے اور زیادہ بدنظمی سے دوچار ہوجائے گی جس کا ابھی حال ہی میں مشاہدہ کرچکی ہے۔