• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ انیس سو نوے میں بینظیر بھٹو کی حکومت کے آخری دنوں اور سابق صدر غلام اسحقٰ خان کے ہاتھوں ان کی برطرفی کے فوری بعد والے دنوں کی بات ہے جب مرتضی بخاری کیس منظر عام پر آیا تھا۔ مرتضی بخاری پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھے جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت کے دنوں میں وہ ملک کی خدمت کے خیال سے برطانیہ سے ایک خطیر رقم لیکرپاکستان آئے تھے اور خیراتی اسپتال قائم کرنا چاہتے تھے۔یہ بات بقول مرتضی بخاری کے انہوں نے اپنے ہم زلف اور لاڑکانہ کے نامی گرامی اور خوفناک وڈیرے غلام حسین انڑ کو بتائی تھی جنہوں نے انہیں اس وقت کی وزیر اعظم کے شوہر نامدار آصف علی زرداری سے ملوایا تھا اور انہوں نے ان سے اسپتال قائم کرنے میں مدد کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بعد میں مبینہ طور پر اسپتال کھولنے میں مدد کے بجائے، مرتضی بخاری کے الزامات کے مطابق، آصف علی زرداری، اور غلام حسین انڑ، ڈاکٹر سومرو اور دیگر مبینہ سابق ملزمان انکی ٹانگ سےبم باندھ کرانہیں زبردستی بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کی کراچی شاخ میں لیکر گئے تھے اور ان کے اکائونٹ سےانکی برطانیہ سے اسپتال قائم کرنے کے عزائم سے لائی گئی رقم انکے ہاتھوں سے نکلوا کر اینٹھ لی تھی اور انہیں موت کی دھمکیوں کی وجہ سے پاکستان چھوڑ کر جان بچاتے برطانیہ واپس جانے پر مجبور کیا گیا تھا۔
بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی پر مرتضی بخاری کے صدر غلام اسحٰق خان اور اس وقت کے سابق آرمی چیف کو لکھے گئے خطوط میں لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کا مقدمہ آصف علی زرداری اور ان کے اسوقت کے دوست اور پارٹی ایم پی اے غلام حسین انڑ سمیت ڈاکٹر سومرو و دیگر کے خلاف قائم کیا گیا تھا۔ جن میں آصف علی زرداری اور غلام حسین انڑ و دیگر گرفتار ہوکر جیل میں رہے تھے۔ لیکن پھر یہ مقدمہ سیاسی انتقام پسندی کا ہتھیار بنادیا گیا ۔ جام صادق علی سندھ میں تب وزیر اعلی تھے انہوں نے غلام حسین انڑ کو آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے پر رضامند کرلیا اور ان کی پی پی پی سے وفاداری تبدیل کراکے جیل سے اٹھا کر انہیں لاڑکانہ کا بے تاج بادشاہ بنا دیا تھا۔ ڈسٹرکٹ کونسل لاڑکانہ کے چیئرمین کے انتخابات میں جس طرح دھاندلی ہوئی جس طرح اراکین کو گھوڑوں کی طرح خرید کر ان کی وفاداریاں تبدیل کرواکر کوسٹروں میں کراچی پہنچایا گیا تھا اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ان کی خاطر مدارات کرائی گئی تھی وہ بھی پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کی تاریخ ہےجب بقول جام خریدے ہوئے ممبر رفع حاجت کیلئے بھی پانی کی جگہ اسکاچ استعمال کرتے تھے۔
یہ بھی سیاسی انتقام کی تاریخ ہےکہ مرتضی بخاری کیس میں آصف علی زرداری کو سزائے موت کی کوشش میں صدر غلام اسحٰق خان نے ایک صدارتی حکم یا آرڈیننس کے ذریعے شروعات کےطور پاکستان پینل کوڈ کا تعزیرات پاکستان میں اغوا کے قانون میں ترمیم کا حکم دیا تھا جس کے تحت اغوا برائے تاوان کے جرم کو قابل سزائے موت جرم بنایا گیا تھا۔
لیکن یہ بھی پھر اسی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی مضحکہ خیز سنگدلی دیکھئے کہ اپنے نظریہ ضرورت کے تحت جب غلام اسحٰق خان نے نوازشریف کی حکومت برطرف کر کر سردار بلخ شیر مزاری کی نگران وزارت عظمٰی کے تحت کابینہ بنائی تو آصف علی زرداری کو وفاقی وزیر بنانے کیلئے جیل سے رہا کرنے کو ایک بیچارے رمیش لال نامی کراچی کے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے ہاتھوں مرتضی بخاری کیس میں فریادی اور گواہوں کے مجسٹریٹ کے سامنے دئیے گئے ابتدائی بیانات میں ردوبدل کرایا گیا۔ حکومتیں برطرف ہوئیں ۔ وزیر اعظم آئے گئے ، پاکستان کی دیواروں پر یہ نعرہ ’’آصف علی زرداری کو رہا کرو‘‘ بمشکل پرانا ہوکر قصہ پارینہ بنا۔ لیکن بیچارے سندھی ہندو مجسٹریٹ رمیش لال کو ایوان صدر کے حکم پر ایسے بیانات تبدیل کرنے پر سزا اور جیل ضرور ہوئی۔ دور بدلے ۔ بینظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بنیں ۔ آصف زرداری کی خواہش پر ان سے وفاداریاں تبدیل کرنے والے اور مرتضیٰ بخاری کیس میں ان کےخلاف وعدہ معاف بننے والے غلام حسین انڑ کو تادم مرگ جیل میں ہی رہنا پڑا کہ ان کا انتقال بھی قید اور بیماری کی حالت میں جناح اسپتال میں ہوا۔ غلام حسین انڑ، اسمعٰیل راہو کے چچا، علی محمد ہنگورو، اور جناب جی ایم سید کا بحالت قید اور بیماری انتقال کرجانا پچھلے پی پی پی ادوار حکومت کی سیاسی انتقام پسندی کی بھیانک اور پرائم مثالیں ہیں۔چونکہ مرتضی بخاری برطانوی شہری تھے تو ان کےکیس کا برطانوی میڈیا میں ان دنوں میں آصف علی زرداری اور غلام حسین انڑ جیسے اہم مبینہ ملزمان کے حوالے سے بھی بڑا چرچا رہا تھا۔ وہی برطانیہ جہاں کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں عمران خان پڑھے ہیں، جہاں کی کائونٹیوں اور میدانوں میں انہوں نے کرکٹ کھیلی ہے، جہاں ان کی شادی ارب پتی گولڈ برگ کی بیٹی سے ہوئی ، جہاں ان کے بچے رہتے ہیں، پڑھتے ہیں، جہاں کے با اثر و رسوخ حلقوں میں عمران خان وسیع تعلقات رکھتے ہیں۔ باوجود اپنی طالبان نواز شناخت کے ان کی ہیروڈز مارکہ شناخت ہے وہاں۔ وہیں جہاں حال ہی میں بلاول بھٹو پر ان کے بھانجے کی طرف سے بدتمیزی ہوئی تھی۔ جہاں چھپی ہوئی آصف علی زرداری اور نواز شریف کی مبینہ دولت وہ پاکستان لانے کی بات کرتے ہیں۔ جیسا انہوں نے لاڑکانہ کے قریب اپنے جلسے میں کہا کہ ’’گو نوازگو‘‘ کا مطلب ’’گو زرداری گو‘‘ ہے۔
جی ہاں عمران خان کے لاڑکانہ کے قریب اسی جلسے کے میزبان کوئی اور نہیں اسی مرتضی بخاری کیس میں آصف علی زرداری کے ساتھ اور اہم سابق مبینہ ملزم اور سندھ کے دبنگ وڈیرے غلام حسین انڑ کے بیٹے اور خاندان کے لوگ تھے۔ جب وہ ایک بڑے میڈیا گروپ کے مالک کو صحافیوں کے حق میں اپنی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا ٹھیک اسی جگہ علی آباد ان کے میزبان وڈیروں پر ایک صحافی اور کیمرہ مین منیر سانگی کے قتل کا الزام ہے۔
کہتے ہیں کہ مرتضی بخاری کیس کے سابق اہم مبینہ ملزم غلام حسین انڑ کے خاندان نے عمران خان کے جلسے پر نوے لاکھ روپیہ خرچ کیا جس میں سے تیس لاکھ اسٹیج اور ڈی جے پر خرچ ہوئے۔ لیکن لاڑکانہ کے میدان میں آصف علی زرداری کی پی پی پی کے خلاف کھیلنے کو انکی کمزور پچ ان کے میزبان وڈیرے تھے جو اپنے علاقے میں خوف و دہشت کی علامت مانے جاتے ہیں۔ ایسے وڈیرے ،بھوتار ،سردار اور پیرسندھ کے ہر پانچویں اور دسویں میل پر ایک ریاست کے اندر ریاست رکھتے ہیں۔تبدیلی آئے نہ آئے لیکن تبدیلی مفاد پرست ابن الوقت وڈیروں پیروں شوگر مل مالکوں کیلئے وفاداری بدلنے کی صورت میں آ چکی ہے ۔
لیکن عمران خان کا عددی اعتبار سے یہ جلسہ کامیاب سمجھا جائے گا کہ غیر جانبدار شرکاء کے مطابق ان کے جلسے میں شریک لوگوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہوگی ۔ جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔
یہ بات مجھے میرے ایک دوست نے بتائی جو اپنے علاقے کے نوجوانوں کی گاڑی بھر کر دادو سے سفر کر کر لاڑکانہ علی آباد پہنچا تھا اور جلسے کی جگہ پر تین چار میل اسے پیدل پہنچنا پڑا۔ میرا دوست پڑھا لکھا ہے، سابق نوجوان ہے، وہ پی پی پی مخالف تو ہے لیکن عمران خان کے حق میں نہیں۔ میرے دوست نے مجھے بتایا کہ عمران خان کے جلسے میں شریک لوگ بڑی بڑی گاڑیوں والے یا پولیس پٹواریوں کے کہنے پر نہیں، نہ ہی انڑ وڈیروں کے اثر سے آئے تھے وہ چنگچی،سوزوکی جیسی چھوٹی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں والے لوگ زیادہ تھے۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ زیادہ تھے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو باقی ملک کی طرح عمران خان نے سندھ میں بھی اپنی طرف متوجہ و متحرک کیا ہے اور ان کی ایک بہت بڑی تعداد عمران خان کے لاڑکانے والے جلسے میں شریک تھی۔
میرے دوست نے عمران خان کے جلسے سے واپسی کے فوری بعد مجھے فون کیا اور بڑی عجیب بات کی۔ اس نے کہا کہ سندھ میں پکی عمر کے لوگوں نے شہر شہر قریہ قریہ گندگی کے ڈھیروں ،بھوک، بیماری، بیروزگاری اور پسماندگی اور حکمراں پی پی پی کی نا اہلی اور بدعنوانی کو اب مقدر جان رکھا ہے۔ لیکن دوسری طرف وہ دیکھ رہے ہیں کہ فلاں وڈیرہ فلاں رئيس تین کروڑ کی گاڑی خریدکر لایا ہے، دس کروڑ کا نیا بنگلہ بنوایا ہے، لاکھوں کروڑوں شکار پر خرچ کئے ہیں۔ اس خاص عمر کے گروپ کے لوگ تو شاید اپنی تقدیر نہ بدلیں لیکن نوجوان اور پڑھے لکھے یہ باتیں آسانی سے ہضم نہیں کر پا رہے۔ وہ ان پر سمجھوتا نہیں کر پارہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھ میں بلاول بھٹو زرداری کی عمر والی سندھی نوجوانوں کی نسل بلاول بھٹو زرداری کی ووٹر نہیں ہوگی۔ ایسی نسل کو عمران خان نے اپنی طرف ضرور متوجہ کیا ہے۔
تازہ ترین