• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق وزیراعظم بھٹو کے خلاف تحریک ’’ووٹ کے تقدس‘‘ کو بحال کرنے اور عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تھی۔تحریک انصاف نے بھی ’’انتخابی دھاندلی‘‘ کو تحریک اور دھرنے کا جواز قرار دیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت نوجماعتی قومی اتحاد میدان میں تھا اوراس وقت صرف ایک جماعت اکھاڑے میں ہے۔ تاہم پی پی پی سمیت دوسری جماعتوں کااعتراف ہے کہ 2013کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی ہے۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں پولیس، رینجرز کو استعمال کیا گیا اور لاہور، ملتان اور کراچی میں فوج بھی طلب کی گئی۔ اگرچہ مرحوم بھٹو نے پاکستان قومی اتحاد سے طویل مذاکرات کئے۔ کہتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ دونوں کے درمیان مفاہمت ہوگئی تھی اور جناب بھٹو دوبارہ انتخابات کرانے کےلئے تیار ہوگئے تھے لیکن 5جولائی کو ملک میں فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس فوجی حکومت میں قومی اتحاد کی دو جماعتوں جمعیت علما پاکستان اور تحریک استقلال نے شمولیت اختیار نہیں کی۔ باقی جماعتوں کے نمائندے وزیر بن بیٹھے اور ’’مرد ِ مومن۔ مرد ِ حق‘‘ کے نعرے لگائےگئے۔ اس طرح اس وقت کی سیاسی قیادت نےبلواسطہ یا براہ راست فوج کی حکمرانی کی حمایت کی اور میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں تھا۔ آج کے جمہوریت کے چیمپئن بڑے نامور صحافی جنرل ضیاالحق کے ’’صحافتی طائفہ‘‘ کے نہ صرف رکن تھے بلکہ احتراماً اس کی جانب پیٹھ کر کے گزرتے بھی نہیں تھے۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جب ملک دونیم ہو گیا تھا تو اسے مضبوط قیادت فراہم کی اور دن رات ایک کرکے ملک کو دوبارہ استحکام دیا۔ 90ہزار جنگی قیدیوں کی واپسی اور شملہ معاہدہ ان کے دو ناقابل فراموش سیاسی کارنامے ہیں۔ عوام میں شعور پیدا کیا اورجاگیرداراور اس کی رعیت کسان کو آمنے سامنے کردیا۔ لکھنے والوں نے بہت باتیں لکھی ہیں ۔ کئی ایسے واقعات بھی جو ابھی تک تاریخ میں پوشیدہ ہیں۔ قومی اتحاد کی تحریک کے محرکات کچھ بھی ہوں حقیقت یہ ہے کہ ’’بھٹو دشمن‘‘ کامیاب ہوگئے اور اسے تختہ دار پر چڑھا دیاگیا جبکہ ساری دنیا (دو ملک چھوڑ کر) نے اس وقت کے صدرسے رحم کی اپیل کی تھی۔پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر جناب ریا ض الخطیب نےاپنے دوست کی زندگی بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ اول تو سعودی حکومت ’’بھٹو دوست‘‘ تھی تاہم ریاض الخطیب بھٹو صاحب کے بچپن کے ساتھی تھے۔ کہتے ہیں کہ ممبئی میں وہ اور بھٹو صاحب ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ قومی اتحاد کی ہی وجہ سے ملک میں مارشل لا لگا ۔ ’’ضیاء کے سنہری دور‘‘ میں ہی غیرجماعتی انتخابات کا تجربہ کیا گیا جو جمہوریت میں ایک عجوبہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لئے پیر صاحب پگارو مرحوم نے اس وقت منتخب اسمبلیوں کو ’’بڑا بلدیاتی ادارہ‘‘ قرار دیاتھا۔ اگرچہ اس وقت ملک کی اکثر بڑی چھوٹی جماعتیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ نے یہ قرارداد بھی منظور کی ہے کہ موجودہ حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے دی جائے لیکن عوام کے تیور دیکھ کر یہ ’’انتخابی دھاندلی‘‘ کااعتراف بھی کرتے ہیں۔ سیاسی سطح پر گروپ بندیاں بھی ہو رہی ہیں اور سیاسی ناپختگی ہے یا دانستہ طور پر کیا جارہا ہے۔ کراچی میں حکومت خصوصاً سندھ حکومت کے خلاف اکٹھ کیا جاتا ہے تو اس میں ایک وفاقی وزیر نہ صرف موجود ہوتے ہیں بلکہ ان کی اقامت گاہ پر یہ اجلاس ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی میں ناہید خان خاصی متحرک ہو رہی ہیں۔ ظاہراً تحریک انصاف کے ساتھ کوئی بڑی جماعت نہیں ہے لیکن عمران خان نے عوام خصوصاً پڑھے لکھے طبقے کو اپنی جانب متوجہ کیاہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سنیٹر پرویز رشید، ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق اور پنجاب حکومت کے ترجمان سید زعیم قادری نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے ارسلان افتخار آنجہانی سیتا وائٹ کا قصہ سامنے لائے ہیں۔ ’’بیانات‘‘ کی حد تک یہ درست لیکن اسے عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ حکومت عمران خان کے 5مطالبات کو تسلیم کرنے پرتیار ہے۔ چند ایک پر کام بھی ہورہا ہے تو سپریم کورٹ کی نگرانی میں دھاندلی کی انکوائری کرانے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اگر حکمران پارٹی ایساکرنے پر تیار نہیں توسپریم کورٹ ازخود نوٹس لے سکتی ہے کیونکہ 30نومبر کو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔بیانات کی جنگ ’’سب اچھا ہے‘‘ کی خبر نہیں دے رہی۔عمران خان کے لب و لہجہ میں ترشی آگئی ہے اور شیخ رشید مرنےمارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ بات کو بگڑنے سے بچایا جائے۔ پکڑ دھکڑ سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگرچہ علامہ طاہر القادری دھرناچھوڑ گئے ہیں اور بیمار بھی ہیں لیکن کنٹینر پر کھڑے ہو کر انہوں نے عمران خان کو ’’سیاسی کزن‘‘ قرار دیا ہے۔
اس لئے ’’اپنے کزن‘‘ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ علامہ طاہر القادری نےعمران خان سے مشاورت اور مرضی کے بعد دھرنا ختم کیا تھااور یہ طےہوا کہ دونوں اپنے اپنے حلقہ اثر میں عوامی اجتماعات کریں۔مسلم لیگ (ق) نے بھی بہاولپور میں طاقت کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کیا کہ ’’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘‘
30نومبر کے اجتماع کی قومی اتحاد کے جلسے جلوسوں سے کوئی مماثلت تو نہیں لیکن سلگتا ہوامسئلہ ایک جیسا ہے۔ اُس وقت بہت سے لوگ مارے گئے، ہزاروں زخمی اور ہزاروں گرفتار کئے گئے۔ ان میں قومی اتحاد کی تمام چھوٹی بڑی قیادت شامل تھی۔ یہاں تو ابھی کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگا ہے۔ جو شواہد ہیں وہ تو یہی کہتے ہیں کہ حکومت یا اس کی جماعت ’’تحریک انصاف‘‘ کو فری ہینڈ دے گی۔ کیونکہ حکومت بھی کوئی رسک لینا نہیں چاہتی۔وہ بھی ڈھیل دینے کو تیار نہیں ہیں لیکن اب ’’سانپ سیڑھی‘‘ کے اس کھیل کو اورطول نہیں دیاجاسکتا۔یہ کہنا بہت خوبصورت ہے کہ اب عمران خان کا زوال شروع ہوجائے گا۔ علامہ طاہر القادری علاج کے لئے امریکہ چلے جائیں گے۔ مان لیا کہ یہ ہو جاتا ہے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ مسئلہ تو جوں کاتوں موجود ہے اس لئے ’’وقت کی آواز‘‘ پر دھیان دیا جائے اور بات کو ’’رگ و پے‘‘ میں اترنے سے پہلے طے کیا جائے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے سیاسی جرگہ کو مفاہمت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان نے تو وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہو کر لچک کامظاہرہ کیا تھا۔ حکومت بھی اپنے رویہ پر نظرثانی کرے کیونکہ اس وقت جو صورتحال ہے عوام کا براہ راست اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دور کے ولی ٔ کامل حضرت نعیم قادریؒ کہا کرتے تھے کہ ’’یہ سب کچھ اوپر ہے۔ اوپر اوپر سے اوپر ہی چلا جائے گا۔ کوئی فکر کی بات نہیں۔‘‘
اور آخر میں جناب احسن رشید کے انتقال پر اظہار تعزیت۔ میری ان سے ایک عمر کی شناسائی تھی۔ زندگی میں بڑ ا عروج پایا۔ سعودی عرب میں ایک آئل کمپنی کے سربراہ بنے۔ تحریک انصاف کےبانی رہنما تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے!
تازہ ترین