• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ دنوں میں دو اہم بیانات آئے ہیںایک میں نظریہ پاکستان کے تحفظ کی نوید دی گئی جبکہ اسی روز لاہور میں جماعت الدعوۃکے سربراہ حافظ سعید نے نظریہ پاکستان کے لئے جدوجہد کا اعلان فرمایا ۔ مشکل اس میں یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف نے نظریہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی، بھلے ان کا تعلق کسی بھی گروہ اور جماعت سے ہو۔ ادھر حافظ سعید کے ارشادات میں یہ گوہر افشانی شامل تھی کہ مجاہدین کو کشمیری مسلمانوں کی آزادی میں مدد کے لئے سرحد پار جانے کا حق حاصل ہے۔ مطلب یہ کہ نظریہ پاکستان کی تشریح میں کچھ اختلاف موجود ہے اور یہ اختلاف کچھ ایسا فروعی بھی نہیں کیونکہ ملت کے ایک اور صف اول کے رہنما جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کراچی میں یوتھ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نظریہ پاکستان (حقیقی )کے کچھ نکات واضح کیے ہیں۔ جنرل مشرف کا بنیادی محاکمہ تو یہ تھا کہ سیاسی قوتیں جمہوریت اور آمریت کے بارے میں بے خبر محض ہیں۔ خواہ مخواہ بحث مباحثے کا پانی بلویا جاتا ہے۔ پیرومرشد نے بجا فرمایا۔ انہوں نے نو برس آمریت کا ڈنکا بجایا اور اس دوران خانہ ساز جمہوریت کا ایک نمونہ بھی مرتب کیا۔ پرویز مشرف کی جمہوریت میں شوکت عزیز ،چوہدری شجاعت حسین ، شیخ رشید احمد اور طارق عظیم کے اسمائے گرامی نمایاں رہے۔ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا۔ پرویز مشرف آمریت اور جمہوریت کی باریکیاں سمجھتے ہیں۔ سو جنرل پرویز مشرف صاحب کہتے ہیں کہ ملک میں فوج کا آئینی کردار ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صرف فوجیوں نے معیشت کی بہتری کے لئے کام کیا ہے۔ جنرل صاحب سے اختلاف کی جسارت کیسے کی جا سکتی ہے۔ طالب علمانہ عرض کیا جاتا ہے کہ جن چار فوجی ادوار میں معیشت کی بہتری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ۔ بدقسمتی سے کچھ شوریدہ سر انہیں آمریت کے زمانے قرار دیتے ہیں، آئین سے انحراف کا الزام دھرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیںکہ اس ٹوٹکے بازی ہی کا نتیجہ ہے کہ ہماری معیشت کے اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ جنرل صاحب کو ایسے بدباطن عناصر کی بات پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ جنرل صاحب کی بصیرت آئین ، آمریت اور جمہوریت کے مبتذل مباحث سے ماورا ہے۔ ایک پیش گوئی البتہ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی سیاست اور سیاسی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں۔ جنرل صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ 29نومبر 2007ء کو جو چھڑی ان کے ہاتھ سے پھسل گئی تھی وہ اب کئی ہاتھ تبدیل کر چکی ہے۔ آمریت اور جمہوریت کے بحث مباحثے واقعتا بے معنی ہیں ۔ سب کرشمے تھے باغ میں گل کے۔ جادوکی وہ چھڑی اب جنرل صاحب کے پاس نہیں ہے جسے ہاتھ میں لیتے ہی جنرل صاحب کے کندھے پر بصیرت کا ہما اترتا تھا۔ 2007ء کے موسم خزاں میں جنرل صاحب کے کچھ سابق ساتھیوں نے بیان بازی کی تو جنرل صاحب نے انہیں ’چلے ہوئے کارتوس‘ اور ’جعلی دانشور‘ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ان لوگوں کا وقت گزر چکا ہے۔ صاحب! وقت ایسا بے نیاز راہوارہے کہ کسی مقام پہ ٹھہرتا نہیں ۔ گھڑی کی مدھم ٹک ٹک ایک بے زار کن یکسانیت کے ساتھ مدام سنائی دیتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف دبنگ لہجے میں دو ٹوک بات کہنے کے عادی ہیں۔ عمران خان نے بھی خطابت میں بلند آہنگ قرینہ پایا ہے مگر حتمی تجزئیے میں عمران خاں سیاست دان ہیں اور کھل کر مدعا بیان نہیں کر سکتے۔ آزادی مارچ اور سی پلان کی شعری تراکیب سے کام لینے پر مجبور ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور عمران خان کسی اسکرپٹ رائٹر کے محتاج نہیں۔ دونوں صاحبان بصیرت جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں آمریت کے لئے نرم گوشہ رکھنے والا ذہن موجود ہے جو آئین کو ملکی ترقی میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ ایک مسیحا کے انتظار میں ہے جوپیدائشی طور پر رہنما خصوصیات سے مملو ہواور الوہی تدبر سے کام لیتے ہوئے ایسی آمریت نافذ کرے کہ ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو جائے۔ میٹرو بس کے جنگلے کی بجائے شہر شہر دودھ کی نہر بہے جس کے کنارے شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر شانہ بشانہ نظر آئیں، داستانوں میں پائی جانے والی عفیفہ خاتون سونا اچھالتی جنگل سے گزرے اور اسے کسی کا خوف نہ ہو۔ مشکل یہ ہے کہ ہزاروں برس پر محیط انسانی تجربہ ایسی آمریت کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آمریت ڈپٹی کمشنر اور پٹواری کی مدد سے جو ہیرے موتی چھانٹ کر منظر عام پہ لاتی ہے وہ دھوپ کی پہلی کرن پڑتے ہی دبئی کا رخ کرلیتے ہیں۔کچھ نگینے اپنی ظفر مندی کی خودنوشت کہانی لکھتے ہیں جس میں بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے آمریت میں شامل ہو کر آمریت کی مزاحمت کی اور کچھ صاحبان حکمت تو دبے پائوں مسلم لیگ نواز وغیرہ میں شامل بھی ہو جاتے ہیں۔ آمریت کے نتیجے میں جو قومی تصویر بنتی ہے اس میں سونا اچھالنے والی داستانوی خاتون کے احترام کی حقیقی صورت حال وہی ہوتی ہے جو وزیرآباد کی عدالت میں گینگ ریپ کی شکایت لے کر حاضر ہونے والی خاتون کو پیش آئی ہے جس کا عدالت کے بخشی خانے میں گینگ ریپ کے ملزم سے نکاح پڑھوایا جاتا ہے۔ پولیس اہلکار چھوہارے کھاتے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ مقدمے میں شامل باقی چار ملزموں کا نکاح کب ہو گا اور کس سے ہو گا؟
اہل پاکستان آمریت اور جمہوریت کی بحث میں پھسڈی ہیں کیونکہ ہماری قوم کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح بھی جمہوریت ہی کا درس دیتے رہے۔ انہوں نے ہمیں آمریت کی خوبیوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ چنانچہ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ آمریت ریاست کے نظرئیے پر یک طرفہ اورمن مانے اجارے کا نام ہے۔ جمہوری ریاست کے مقاصد واضح ہوتے ہیں۔ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے۔ شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائی جاتی ہے ۔ مختلف طبقات، گروہوں اور منطقوں کے باہم تعلقات کو انضباط میں لایا جاتا ہے اور مجموعی طور پر ایسا ماحول پیدا کیا جاتا ہے جس میں شہری جنس ، عقیدے اور زبان کے اختلافات سے قطع نظر اپنے پیداواری اور تخلیقی امکان کو بروئے کار لا سکیں۔ اس مشترکہ نصب العین کی طرف بڑھنے کے لئے سیاسی قوتوں میں مختلف نقطہ نظر پائے جاتے ہیں ۔ جمہوریت نقطہ نظر کے ان اختلافات میں عوام کی رائے سے سمجھوتہ پیدا کرنے کا نام ہے۔ جمہوریت میں ایک نظریہ نہیں پایا جاتا۔ مختلف نظریات میں پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اگر ریاست شہریوں پر زبردستی ایک ہی نظریہ مسلط کرنے کا عزم باندھ لے تو آمریت جنم لیتی ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ جس ملک میں سوبھوگیان چندانی جیسے سیاسی کارکن جنم لیتے ہیں اس کی منزل صرف جمہوریت ہو سکتی ہے۔ سوبھوگیان چندانی کی موت ایک قومی نقصان ہے لیکن اس میں امید کا پہلو یہ ہے کہ سوبھوگیان چندانی نے قرینے، استقامت اور بصیرت سے پچانوے برس پر محیط زندگی بسر کی۔ ایسی موت فرد کے رخصت ہونے کا اعلان کرتی ہے لیکن رواداری ،انسان دوستی اور وطن سے محبت کی اقدار پر توثیق کی مہر لگاتی ہے۔ سوبھو گیان چندانی جیسے سیاسی رہنما چکاچوند مناصب کے تام جھام کو نہیں پہنچتے لیکن اْن کی ریاضت اور مساعی سے قوموں کا تاریخی کردار اور اجتماعی روایت تشکیل پاتے ہیں۔ آمریت کی چھڑی چھن جائے تو اقتدار کا بت اوندھے منہ گر جاتا ہے۔ جمہوری جدوجہد میں سوبھوگیان چندانی کا سایہ بھی سر سے اٹھ جائے تو امید ختم نہیں ہوتی۔
تازہ ترین