پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم طالبان کے انتہائی اندوہناک حملے نے سارا ملک سوگوار کر دیا ہے۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں 132معصوم نونہالوں کی عظیم قربانی بھی شامل ہو گئی ہے اور انشاء اللہ یہ بے مثال قربانی اس بربریت اور انسانیت دشمن دہشت گردوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے درست کہا ہے کہ ان کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا قوم کی ترجمانی ہے کہ پاکستان کے دل پر حملہ کیا گیا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا یہ پہلا المناک سانحہ ہے جس میں ان درندوں نے معصوم بچوں کو پہلے ایک ایک کر کے شناخت کیا اور اس کے بعد بہیمانہ انداز میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ اس اندوہناک قومی سانحہ نے سارا ملک ہلا کر رکھ دیا ہے اور اس کی آواز اقوام متحدہ سمیت ساری دنیا تک پہنچی ہے۔ امریکی صدر اوباما ہی نہیں بھارتی وزیراعظم نے بھی وزیراعظم کو فون کیا۔ ترکی میں ایک روزہ سوگ اور بھارتی اسکولوں میں دو منٹ خاموشی کا اعلان کیا گیا۔ ہر ایک نے اظہار افسوس ہی نہیں اس کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف (بلوچستان کا دورہ مختصر کر کے) پشاور پہنچے۔ ہر بڑے چھوٹے سیاسی و مذہبی رہنما نے دکھ و غم کا اظہار کیا میاں نواز شریف نے قومی سطح پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا کہ تین روز ملک بھر میں قومی پرچم بھی سرنگوں رہے گا۔ ملک کے مستقبل کی یہ عظیم قربانی جہاں قوم کو دہشت گردی کے خلاف اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتی ہے وہیں سیاسی قیادت کو بھی اپنے لہو سے لکھ کر یہ پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف متحد ہو جائو ’’یہ وقت آپس میں ’’جنگ و جدل‘‘ کا نہیں۔ سب بھلا کر اگر متحد نہ ہوئے تو سب کچھ گنوا بیٹھیں گے‘‘ اور یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے آگے بڑھ کر یہ کہہ کر پہل کی ہے کہ تمام تر سیاسی اختلافات کو بھلا کر متحد ہونا چاہئے اور حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جو حکمت عملی مرتب کی جائے وہ عمران کی جماعت بھرپور تعاون کرے گی۔ ان کی جانب سے 18؍ دسمبر کی ’’ملک کو بند‘‘ کرنے کی کال کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم کی جانب سے پارلیمانی لیڈروں کا جو اجلاس ہوا اس میں عمران خان نہ صرف شریک تھے بلکہ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے تجاویز بھی دیں۔ جب تک تمام سیاسی و مذہبی جماعت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو کر مشترکہ حکمت عملی مرتب نہیں کریں گی دہشت گردی اور ملک میں موجود بے یقینی کی فضاء کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس قومی سانحہ کے بعد بال حکومت نہیں وزیراعظم کے کورٹ میں ہے اول تو انہیں تمام تلخیوں کو فراموش کر کے احسن اقبال کے بقول ’’جمالی دور‘‘ کا آغاز کرنا چاہئے اس حوالے سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کی جائے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے مفاہمتی اقدام کئے جائیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی تو اور بھی پارٹیوں کا بھی یہ الزام ہے تو اس کی شفاف انکوائری کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ملک کے تمام اداروں کو کام کرنے کی آزادی ہی نہیں یقین دہانی بھی کرائی جائے اور سب سے اہم اور ضروری کرنے کا کام یہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیاں جو ’’بیانات‘‘ کی جنگ جاری تھی اس میں ’’مشرقی روایات‘‘ کو بری طرح پامال کیا گیا۔ دونوں جانب سے جو ’’لب و لہجہ‘‘ اختیار کیا گیا وہ کسی صورت درست نہ تھا اور بعض چینلز پر ’’ٹاک شوز‘‘ کے نام سے جو کچھ ہوا وہ بھی ’’صحافتی اقدار‘‘ کے مطابق نہ تھا اس رویہ کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ اسے سدباب کے لئے بہتر تو یہ ہے کہ ایک ضابطہ اخلاق بنایا جائے تاکہ صحافیوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ ہو۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایک مضبوط پاکستان ہو گا تو سیاست اور سیاسی ہنگامے ہوں گے۔ کمزور پاکستان تو دشمنوں کو ہی دعوت دے گا۔ وطن کے 132نونہالوں نے جانوں کا نذرانہ دے کر جہاں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنا دیا ہے وہیں سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے کا موقع عطا کیا ہے۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کو ’’ذاتی‘‘ سیاسی اختلاف فراموش کر کے وطن کی سلامتی و استحکام کے لئے متحد ہونا ہو گا۔ یہ سارے معصوم پھول جیسے بچوں کے لہو کا پیغام ہے اس کی قدر کرنی ہو گی اور اگر ان سیاستدانوں نے اپنے ذاتی مفادات اختیار و اقتدار کے لئے سابقہ طور طریقے جاری رکھے تو وقت کا ظالم ہاتھ ہو گا اور ان کے گریباں وقت نے فیصلہ صادر کر دیا ہے۔ ان پر ہے کہ وہ اسے تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ ان معصوم شہید بچوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
کف قاتل پہ جمے یا کف صحرا پہ جمے
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے