• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک بھارت کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک ہمارے اور بھارت کے تعلقات اکثر کشیدہ ہی رہے ہیں ۔ بھارت کی ایک مخصوص لابی جس میں سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ اہم سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی کی متعدد وجوہات کے ساتھ ایک بڑی وجہ افغانستان ہے ۔طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد انڈیا نے مغرب کی مدد سے افغانستان میں اپنے پائوں جمانے شروع کر دئیے۔ وہاں پر بیٹھ کر نہ صرف پاکستان مخالف سرگرمیاں شروع کیں ساتھ ہی افغانستان کے وسائل پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش بھی شروع کر دی ۔ بھارت کی 100 سے زائد کمپنیاںافغانستان کے اندر مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہیں ۔ بھارت اب تک افغانستان کو 2 بلین ڈالرز کی امداد دے چکا ہے ۔ اس طرح یہ افغانستان کو امداد دینے والا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے ۔ انڈیا افغانستان کے 2 ہزار فوجیوں کو تربیت بھی دے چکا ہے اور افغانستان کی اہم دفاعی و مالی تنصیبات کی حفاظت کے لئے بھی افغان فوج کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے ۔ بھارت افغانستان کے وسائل کا بڑا حصہ نہ صرف اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے بلکہ افغان سرزمین میں دفن خزانوں کو بھارت لے جانا چاہتا ہے ۔
محتاط اندازے کے مطابق افغانستان میں اس وقت 3 ٹریلین ڈالرز کی معدنیات وپیٹرولیم کے ذخائر موجود ہیں ۔ انڈیا کی 35 کمپنیاں صرف انہی مقاصد کے حصول کیلئے سرگرمِ عمل ہیں ۔ افغانستان کا صوبہ بامیان جو معدنی وسائل سے مالا مال ہے بھارت کی توجہ کا مرکزہے ۔ دنیا کے دوسرے بڑے لوہے کے ذخائربامیان صوبے کے علاقہ HAJIGAK میں واقع ہیں ۔یہ علاقہ ہندوکش پہاڑی سلسلے کاحصہ ہے ۔ 1960-70 اور 1980 کی دہائی میں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی اور روس نے یہاں پر مختلف سروے کئے جبکہ روس نے 1980 کی دہائی میں یہاں سے لوہا نکالنے کی کوشش بھی کی مگرافغان سیکورٹی کی صورتحال اور انفراسٹرکچر نہ ہونے کے باعث کامیاب نہ ہو سکا۔ ابتدائی اندازے کے مطابق ان ذخائر میں 1.8 بلین ٹن خام لوہا موجود ہے اور اس کی مالیت 11 بلین ڈالرز بتائی جا رہی ہے۔ ایک چینی کمپنی کے سروے کے مطابق یہ ذخائر اس سے کئی گنا زیادہ ہیں ان کی تازہ رپورٹ کے مطابق ان ذخائر کی مالیت ٹریلین ڈالرز میںبھی ہو سکتی ہے ۔ افغان حکومت ان ذخائر سے 100 ملین ڈالرز سالانہ آمدن کی توقع کر رہی ہے ساتھ ہی 50 ہزار افراد کو روزگار بھی میسر آ نے کی امید ہے ۔ ان ذخائر کو نکالنے کا کام 4 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے ایک بلاک کاکینیڈین جبکہ 3 بلاکس سے یہ لوہا نکالنے کا ٹھیکہ بھارتی کمپنیوں کو دسمبر 2011 میں حامد کرزئی کی حکومت نے دیا 2013 میں بھارت کی 7 کمپنیوں کے کنسورشیم نے یہاں سے لوہا نکالنا شروع کر دیا ۔ ان ذخائر کے کچھ حصوں میںخام تانبابھی موجود ہے جس کو انڈین کمپنیاں پہلے ہی نکال چکی ہیں ۔ بھارت کا منصوبہ تھا کہ وہ اس خام لوہے کو نکال کر پاکستان کے راستے بھارت لے جائیں اور وہاں پر اس سے مصنوعات تیار کی جائیں ۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف جب بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے بھارت گئے تو وہاں انڈیا میں لوہے کی صنعت سے وابستہ سرمایہ کاروں نے اُن سے ملاقات کی جس میں خام لوہے کو افغانستان سے پاکستان کے راستے بھارت لانے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ۔ اُن سرمایہ کاروں نے درخواست کی کہ ہمیں افغانستان سے واہگہ بارڈر کے راستے ترسیل کی اجازت دی جائے ہم حکومت پاکستان کو معقول معاوضہ بھی دیں گے ۔وزیر اعظم پاکستان نے اُن کی پیشکش مسترد کر تے ہوئے کہا کہ پاک بھارت جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ہی اس سمیت دیگر تجارتی اُمور پر بات ہو سکے گی ۔تازہ اطلاعات ہیں کہ اشرف غنی حکومت نے بھارت کے ساتھ یہ معاہدہ ختم کر دیا ہے افغان حکومت کا کہنا ہے کہ سابقہ دورِ حکومت میں قواعد و ضوابط کے خلاف بھارت کو نوازتے ہوئے یہ معاہدہ کیا گیا۔ اس معاہدے سے افغانستان کو شدید مالی نقصان کا اندیشہ ہے ۔ افغانستان نے بھارتی کمپنیوں کو اس معاہدے کے ذریعے نکالے جانے والے تانباکے عوض اپنی سرمایہ کاری ایڈجسٹ کرنے کو کہا ہے جسے پہلے ہی وہاں سے نکالا جا چکا ہے ۔اب خبریں آ رہی ہیںکہ اشرف غنی حکومت ان ذخائر کو نکالنے کا معاہدہ چین کے ساتھ کرنے جا رہی ہے ۔ چین نہ صرف یہاں سے لوہا نکالے گا بلکہ افغانستان میں سٹیل مل لگانے کی بھی منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ بھارت نے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کے حالیہ دورہ بھارت پراس معاملہ کو اُٹھایا اوریہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شاید پاکستان نے بھارت کے اس معاہدے کو ختم کروانے اور چین کو یہ کنٹریکٹ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ نئی دہلی حکومت نے جان کیری کے سامنے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمیںافغانستان میںاہم کردار ادا کرنے کو کہا تھا ۔ ہم نے اب تک افغانستان میں بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے اس سرمایہ کاری کا انڈیا کو براہ راست فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے اشرف غنی حکومت بھارت کے مفادات کا تحفظ نہیں کر پا رہی ۔ ہمارا کردار افغانستان میں ہر آنے والے دن میں کم اور پاکستان کا روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔کابل حکومت نے بھارت سے فوجی تربیت کے معاہدے کو بھی حتمی شکل نہیں دی کہا جا رہا ہے افغانستان اب پاکستان سے اپنی فوج کی تربیت کا معاہدہ کرنا چاہتاہے پاکستان پہلے ہی جس کی پیشکش کر چکا ہے ۔
اشرف غنی کے صدربنتے ہی پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات نے ایک نیا موڑ لیا ہے ۔خاص طور پر سانحہ پشاور کے بعد پاک افغان حکومتیںایک نئے دور کا آغاز کرتے نظر آرہی ہیں ۔یہ امر قابل ِستائش ہے اب دونوںممالک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ اسلام آباد نے جاری" ضرب عضب " آپریشن سے اپنا مئوقف ثابت بھی کر دیا ہے اسی طرح گزشتہ چند روز سے افغانستان کے اند ر افغان فورسز کی پاکستان مخالف دہشت گرد بالخصوص مولوی فضل اللہ و طالبان کمانڈر عمر خالد خراسانی گروپس کے خلاف کارروائی نے ثابت کر دیا ہے کہ اب کابل بھی سنجیدہ ہے۔ موجودہ صورتحال بھارت کو پریشان کئے ہوئے ہے دہلی سمجھتا ہے خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتے حالات کے باعث افغانستان میں اس کا رول اپنے خاتمے کی طرف گامزن ہے ۔ پاکستان مخالف گروپس جن کو بھارت کی مکمل معاونت حاصل ہے اُن کے لئے بھی افغانستان میں زمین تنگ ہو رہی ہے ۔ اسی وجہ سے بھارت نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سرحدی کشیدگی کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد پاک افواج کے جاری آپریشن " ضرب عضب " سے توجہ ہٹانا ہے ۔میرے موقف کو تقویت پاک افواج کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی برطانیہ میں دی جانے والی بریفنگ سے بھی ملتی ہے ۔فوج و سول آفیشل،برطانوی تھنک ٹینک اور انٹرنیشنل میڈیا کو دی جانے والی اس بریفنگ میں جنرل باجوہ نے دلائل کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا لائن آف کنٹرول ا و رورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال گولہ باری کا مقصد مغربی سرحدوں پر جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ سے توجہ تقسیم کرنا ہے۔ پاکستان نہ صرف خطہ بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے جس میں ہر روز نہ صرف مالی نقصان اُٹھا رہا ہے بلکہ قیمتی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہا ہے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لئے لڑی جانے والی اس جنگ کو ریاست پاکستان جاری رکھے یا پھر اپنی توجہ مشرقی سرحدوں کی طرف موڑ دے یہ فیصلہ اب اقوامِ عالم ،مغرب اور بالخصوص امریکہ کو کرنا ہے۔
تازہ ترین