سُبک سر بن کے کیا پوچھیں وہ ہم سے سرگراں کیوں ہے
جب صدراوباما نے بھارت کا دورہ شروع کیا تو اخبارات اور چینلوں پربلوغت سے عاری تبصر ہ نگار جو تبصرے کرتے نظر آئے، ان میں یہ حقیقت یکسر نظر انداز کردی گئی کہ دنیا مفادات کی آماجگاہ ہے اور ہرایک کو یہ حق حاصل ہے وہ اپنی پالیسیاں اپنے مفادات کے مطابق بنائے ۔اگر ہماری پالیسیاں عوامی مفادات کے تحت نہیں بنائی جاتیں تو اس میں دوسروں کا کیا قصور۔ ان تبصروں میں یہ گلے شکوے بھی شامل تھے کہ اوباما کو پاکستان کادورہ بھی کرنا چاہئے تھا ، یہ سراسر بصیرت عاری تخیل ہے۔ یہ دورہ ہفتے کو طے نہیں ہو ا جو مہما نِ گرا می اتوار کو ہمارے ارمانوں کا خون کرکے بھارت چلے کر گئے ۔ یہ باقاعدہ طے شدہ دورہ تھا اوراس کی تفصیلات ساری دنیا کے سامنے تھیں اور یہ بھی معلوم تھا کیا کیا ہونے والا ہے ۔کیا ہمارےزیرک حکمرانوں اور ان کے مشیروں کو معلوم نہیںامریکہ 1987 سے اپنی خارجہ پالیسی کا اسٹیئرنگ وہیل بھارت کی طرف موڑ چکا ہے ۔یہ تو 9/11نے اسے پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا پھر بھی اس نے بھارت کی پشت سے اپنے ہاتھ کا دبائوکبھی کم نہیں کیا۔ثبوت کیلئےایف ایم سی ٹی اور commitee of disrmanment حاضر ہے۔ یقیناً قارئین کی اکثریت نہیں جانتی ہو گی یہ کیا بلائیں ہیں ،لہٰذا میں چاہوں گا تھوڑی سی تفصیل لکھوں تاکہ سمجھنا آسان ہو۔fissile materiel cutt off treatyکے بنیادی خدو خال تو1957سے زیر بحث آتے رہے مگر 1974میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے ایک (Nsg)نیو کلیئرسپلائرزگروپ بنایا گیا جس کا مقصدنیو کلیئر میٹر یل کی سول مقاصد کےلئےسپلائی کو ایک گروپ تک محدود رکھنا تھا تاکہ بھارت کی طرح سول ٹیکنالوجی کے پردے میں کوئی ملک ایٹم بم بنا کر دھوکہ نہ دے سکے۔ حیرت ہے 2008میں اسی گروپ نے بھارت کو امریکہ کے ایماء پر استثنیٰ دیدیا ۔اس سے قبل اسرائیل کو استثنیٰ دیاگیا تھا جبکہ پانچوں ویٹو طاقتوں پراس کا اطلاق نہیں ہو تا۔ ایف ایم سی ٹی کے 64ممبران ہیں جن میں سے 7کو استثنیٰ حاصل ہے اور بقیہ کا نیو کلیئر ٹیکنالوجی سے دور دور تک واسطہ نہیں ماسوائے پاکستان کے ۔ یہی وجہ ہے پاکستان ہر اجلاس میں اس کے بائی لاز بنانے کی مخالفت کرتاہے، مخالفت کیوں نہ کرے یہ معاہدہ صرف پاکستان کو متاثر کرتا ہے اور پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کو کنٹرول کرنے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے جب تک تمام ممبران اتفاق نہیں کرتے بائی لاز نہیں بن سکتے۔ امریکی میڈیا ہر اجلاس کے اختتام پر پاکستان کونکتہ چینی کا ہدف بناتا ہے مگر پاکستان وہ پھندہ کیوں بننے دے جوصرف پاکستان کی گردن ناپ کر بُنا جا رہا ہے ۔ایف ایم سی ٹی کے باہرسی ڈی سی ترتیب دیا گیا اور پاکستان کو باہر رکھ کر بائی لاز بنانے کی کوشش کی گئی مگر پاکستان نے صاف کہہ دیا جس معاہدے کے بائی لاز میں ہم شامل نہیں اس کے قوانین بھی ہم پرلاگو نہیں لہٰذا یہ دونوں معاہدے زیر التوا چلے آ رہے ہیں ۔پہلے ان کی مخالفت صرف بھارت کرتا تھا پھر اسرائیل،اور پھر پاکستان بھی مخالفت کرنے لگے۔ اسرائیل اور بھارت کو استثنیٰ ملنے کے بعد اب اکیلا پاکستان اس کا مخالف ہے ۔ ڈپلومیسی کی دنیا گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے اور جو پاکستان کے بعض تجزیہ نگاروں کی طرح محض مرثیہ گوئی پر تکیہ کرتے ہیں وہ کوسوں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔کیا امریکہ پاکستان سے پوچھ کر اپنی خارجہ پالیسی بنائے گا جس کی اپنی کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں ۔ موجودہ وزیراعظم نے تو وزیر خارجہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔اس موقع پر مجھے اپنے یہ تبصرہ یاد آرہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی سرتاج عزیر اور فاطمی جیسے بزرگوں کے رحم و کرم پرہے۔ پنجابی کی ایک مثال ہے جس دی کوٹھی دانے اوہدے کملے وی سیانے ۔ جس کی معاشی پالیسی درست ہو گی اسی کی خارجہ پالیسی درست ہو گی۔غریب کا نہ گائوں نہ شہر میں اور نہ ہی بین الاقوامی برادر ی میں کوئی رول ہو تا ہے۔
بھارت افغانستان میں ایک قابل اعتماد دوست ہے کوئی نئی بات نہیں ،2001سے امریکہ یہی تاثر دے رہا ہے۔ ضربِ عضب اور جنرل راحیل کے دورے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ افغانستان کا مسئلہ پاکستان بھارت ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے تعاون سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو شاید افغانستان کو ایک پُر امن ملک بنایا جا سکتا مگر پینٹاگون کو سیدھی انگلیوں سےگھی نکالنے کی عادت نہیں ۔میں بار ہالکھ چکاہوں افغانستان میں پاک بھارت پراکسی وار نوشتہ دیوار ہے ۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان دشمنی کے سحر میں گرفتار ہے جسے امریکہ استعمال کر رہاہے ورنہ اوباما اور سابق صدور کے دوروں کے باوجود بھارت امریکہ اختلافی نقطۂ نظر موجود ہے ۔امریکہ 100ارب ڈالر کا اسلحہ بھارت کو بیچنا چاہتا ہے بھارت خریدنا بھی چاہتا ہے مگر امریکہ اسے یہ ٹیکنالوجی کے ساتھ نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ بھارت کو ایف 18کی پیشکش پہلے بھی کر چکا ہے جسے بھارت مسترد کر چکاہے ،امریکہ چاہتا ہے کہ ۱یف18کے انفرا اسٹرکچرکیلئے جو خدمات فراہم کرنا چاہتا ہے بھارت ا نہیں نہیںمانتا ، بھارت کو شبہ ہے ان خدمات کے پردے میں سی آئی اے اس کے دفاعی اداروں میں گھس جائے گی ۔بھارت یہ بھی جانتا ہے امریکہ کی حمایت کے باوجود اقوام متحدہ کی مستقل ممبر رکنیت کافی فاصلے پر ہے۔جرمنی ،جاپان،اور برازیل کی حمایت امریکہ ایک عرصے سے کر رہاہے ۔ جرمنی کی مخالفت اٹلی جاپان کی چین اور بھارت کی پاکستان کر رہا ہے ۔ اگر امریکہ اس مقصد کے لئے کوئی غیر متفقہ قرارداد لایا بھی تو وہ ویٹو ہو جائے گی ۔ بھارت کی چین سے 60ارب ڈالرسے زائد تجارت ہے دونوں ممالک100ارب ڈالرتک لیجانا چاہتے ہیں ،امریکہ سے بڑھتی قربت اس تجارت کو زک پہنچاسکتی ہے۔ امریکہ کے روئیے کسی کیلئے بھی قابل اعتماد نہیں وہ جب چاہتا ہے اپنے رویوں کی نئی تاویل گھڑ لیتا ہے۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں بھارت کیلئے امریکہ میں کوئی کشش نہیں ۔ امریکہ سے بھارت کی 100ارب ڈالرکی تجارت ہے ،بھارتیوں کیلئے ترجیحی ویزا پالیسی ہے۔ امریکہ ایک کھلی منڈی ہے جس میں اشیاء کے ساتھ افرادی قوت کی کھپت بھی ہے جبکہ چین ایک بند منڈی ہے۔ امریکہ کے ساتھ یورپی منڈیاں بھی ہیں ۔ امریکہ پاکستان کے خلاف بھارت کے موقف کی بڑی حد تک حمایت کر سکتا ہے ، بھارت نے امریکہ کو چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے اوریہ بھارت کے لئے موقع ہے۔ اوبامامودی ملاقات سے زیادہ پینٹاگون ،بھارتی فوجی ہیڈکوارٹر کا پُر زوررومانس ہے جسے نظر انداز کرنا سول قیادتوں کے بس میں نہیں۔ پاکستان کیلئے بین الاقوامی منظر نامے میںمایوسی کی کوئی بڑی وجہ موجودہ نہیں۔اس منظر نامے میںروس چین جنوبی کوریا نیا کوریڈور کھل رہا ہے۔ پاکستانیوں کیلئے مایوسی صرف اپنی قیادت ہے ۔