• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرانا مصرعہ ہے: ’’کیسے تیر انداز ہو، سیدھا تو کر لو تیر کو‘‘ یہ پتہ ہے کیوں یاد آیا…؟ میں نے ٹی وی پر لڑکیوں اور خواتین کو پستول چلا کر نشانہ لینے کی تربیت کرتے ہوئے دیکھا۔ اچھا بھی لگا اور ڈر بھی …وہ عورت جس کے ہاتھ میں پستول ہو، گھر میں، دفتر، اسکول یا کالج میں، وہ اب تک غصّے کے عالم میں بچّوں کو سوئیاں مارتی رہی ہیں، وہ کہیں غضب میں آ کر خدا نخواستہ بچّوں پہ گولیاں نہ چلا دیں مگر یہ میرا وہم ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا ہو مگر ہوتا کیا ہے؟ یہ خواتین جب گولی چلانا سیکھ جائیں گی تو یقیناً یہ ہر وقت بیگ میں یا کوٹ کی جیب میں ڈالے تو نہیں رہیں گی، ظاہر ہے کہ پستول کو کسی سیف یا الماری میں رکھ دیا جائے گا، ضرورت پڑنے پر نکالا جائے گا…یہی سوچ کا لمحہ ہے۔ خدا نہ کرے کہیں سے دہشت گرد اکیلا یا اجتماعی شکل میں حملہ آور ہوں تو وہ کیسے محفوظ رکھی ہوئی پستول نکالیں گی، کیسے خودکش بمبار کا مقابلہ کیا جائے گا؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے ان کو مارشل آرٹ سکھایا جاتا کہ ان کے جوڑ اور ہاتھ، پائوں کھل جاتے، جسم حرکت کرنے کے قابل ہو جاتا تو پستول کے استعمال کا طریقہ سکھایا جاتا اور یوں بااعتماد لڑکیاں اور خواتین تیار ہوتیں۔
یہیں مجھے یاد آیا ہے کہ جب ہر اسکول اور کالج میں لائبریری کا قیام لازمی قرار پایا تو خاص طور پر اسکولوں میں کتب الماریوں میں تالا لگا کر رکھی جاتی تھیں، جس ٹیچر کے پاس الماریوں کی چابیاں ہوتی تھیں وہ عموماً بچیوں کو کتابیں نکال کر دینے سے گریز کرتی تھیں کہ ممکن ہے کتاب پھٹ جائے، غائب ہو جائے تو ان کی تنخواہ میں سے پیسے کٹیں گے۔ اس خوف کے پیش نظر وہ کتابیں نکالتی ہی نہیں تھیں۔ کالجوں میں یہ رواج کم تھا کہ خود استاد بھی لائبریری کی کتابیں پڑھنا چاہتے تھے۔ کسی اور کی نہیں تو کم از کم مستنضر حسین تارڑ کی کتابیں ساری استانیاں بڑے شوق سے پڑھتی ہیں۔ لڑکیوں کیلئے بھی ہر تعلیمی ادارے میں مارشل آرٹ کی تربیت لازمی ہونی چاہئے مگر پستول چلانے کی تربیت کے حق میں… میں کیا کوئی بھی والدین نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں ذہنی بلوغت بہت کم ہے، ہم تو اپنے گھر میں نوکرانی بچی سے اگر غلط کام ہو جائے تو اس کو پھونکنی، توا، چمٹا جو چیز بھی ہاتھ آ جائے، اس سے مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیتے ہیں۔ کچھ اور ہاتھ نہ لگے تو بیڑیاں ہاتھوں اور پیروں میں ڈال دیتے ہیں۔ اساتذہ کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ وہ بچے سے ناراض ہوں تو اس کو ایسی سزا دیتے ہیں کہ بچے کا جی پڑھائی سے اچاٹ ہو جاتا ہے، وہ اسکول جانے سے ڈرتا ہے۔ یہ تمام باتیں مفروضات نہیں، ہر روز اخباروں اور ٹی وی پر یہ حادثات نظر آتے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گھر میں موجود عام چیزوں سے اگر کسی نوکر کو لہولہان کیا جا سکتا ہے تو گھر میں موجود پستول تو جان لیوا ہی ثابت ہو گی اور اگر وہ تمام بندوقیں اسکول، کالج یا دفتر کی الماری میں مقفل و محفوظ رکھی جائیں گی تو جب تک چابی آئے گی، تالا کھولا جائے گا، اس وقت تک دہشت گرد کام کر کے جا بھی چکے ہوں گے۔ میں نے سروے کیا تھا کہ جتنے گارڈ دکانوں اور گھروں میں حفاظت کیلئے رکھے جاتے ہیں، ماشاء اللہ ان کی بندوقیں صرف نمائش کیلئے ہی ہوتی ہیں، ان کے اندر کچھ نہیں ہوتا اسی لئے بہت سے بینک چوکیدار کے ہوتے ہوئے بھی لٹ جاتے ہیں۔
اس عمر میں پستول چلانے کی تربیت، ان بچوں کو شوقیہ پستول چلانے کی بھی ترغیب اسی طرح دی جا سکتی ہے جیسے کہ ہمارے بیشتر نوجوان کبھی کھڑے ہو کر، کبھی لیٹ کر یا کبھی ایک ٹانگ پر موٹر سائیکل چلاتے ہیں۔ ان کا انجام بھی ہم سب نے دیکھا ہوا ہے۔ مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس دہشت گردی کے زمانے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی ذاتی حفاظت کیلئے ایسی تربیت ناگزیر ہے کہ وہ تنہا بھی ہوں تو اپنی مدافعت کر سکیں۔ دہشت گردی چھوڑیں، ٹیکسی میں اکیلی سفر کرتی ہوئی لڑکی کے ساتھ زبردستی، یہ صورتحال ہندوستان، پاکستان دونوں ممالک میں یکساں ہے۔ اسی طرح تنہا گاڑی چلاتی خاتون کو دھمکا کر کس طرح نوجوان بیگ، موبائل وغیرہ چھین کر فرار ہو جاتے ہیں، ان کے ہاتھوں سے سونے کی چوڑیاں اتار لیتے ہیں اور بازار سے گزرتی لڑکی کو کس طرح چھیڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ان سب ہی وارداتوں میں پستول بے سود اور لاحاصل ہے۔ اس طرح کے جرائم اور اخلاق سے گری حرکات کے سدباب کیلئے لڑکے اور لڑکیوں کی مارشل آرٹ کی تربیت کا بندوبست ہر اسکول اور کالج کی سطح پر لازمی ہونا چاہئے۔ آج کوئی گاڑی محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی گھر، لوگوں کو ازراہ مذاق بچوں یا ہمسایوں کو اغواء کر کے رقم مانگنے کا ذائقہ منہ کو لگ گیا ہے۔ رقم نہ ملے تو اغواء شدہ بچے یا مغوی کو بوری میں بند لاش کی صورت گھر کے سامنے یا پھر مسجد کے اوپر ڈال جاتے ہیں۔مسجد کا ذکر آیا تو اب گڈ مدرسہ اور بیڈ مدرسہ کے خانے بھی بنائے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں تین ثقافتیں پرورش پا رہی ہیں۔ اوّل تو ان اختلافی تعلیمات کو ختم کر کے یکساں نصاب نافذ کیا جانا چاہئے۔ بعدازاں خود مدافعتی نظام گھر سے دفتر تک لازمی ہونا چاہئے۔
تازہ ترین