زندگی انساں کی ہے مانند ِ مرغ خوش نما
شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اُڑ گیا
جب شہنشاہ ہمایوں کو شیرشاہ سوری سےپے درپے شکست ہوئی تو اس نے بغرض پناہ ایران و عراق کا رخ کیا۔ بغداد پہنچ کر درگاہ ِ حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی غوث اعظم ؒکے سجادہ نشین حضر ت سید محمد علی جیلی سے مدد کی درخواست کی کہ وہ اپنی آل اولادسے کسی عظیم شخصیت کو ہمراہ کردیں تاکہ موجب فتح و نصرت ہوں۔ اس طرح سیدابوالحسن آغا بدیع الدین کو بمعہ لشکر ہمراہ ہمایوں بھیج دیا گیا۔ تب ہمایوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پنجاب پر قبضے کے بعد اس نے امور ِ مذہبی، اوقاف اور عدل و انصاف کےشعبے آغا سید بدیع الدین کے سپرد کردیئے۔ شہنشاہ ہمایوں کی وفات کے بعد اکبر بادشاہ نے علاقہ پرگنہ مینگڑی میں عسکری قیادت بھی آغا سید بدیع الدین کے سپرد کردی اور منتظم اور قاضی مقرر کرکے وسیع جاگیر عطا کردی۔ ایک گائوں اکبر پور مبارک کے نام سے بنوایاجہاں آغا بدیع الدین قیام پذیر ہوئے۔ ان دنوں غیرمسلموں کی یورش عروج پر تھی۔ ان سے مقابلہ کے دوران آغا صاحب کا سرتن سے جدا ہو گیا مگر اس کے باوجود جسم گھوڑے پر سوار مسلسل تیغ زنی کرتا رہا حتیٰ کہ کئی میل تک لڑتا رہا اور فتح تک یہ کیفیت رہی۔ اس طرح آپ کی شہادت ہوئی اور علاقہ میں اسلام کا بول بالا ہوا۔ آپ کے دو مرقد ہیں۔ سر مبارک موضع گھونہ میں اور تن مبارک موضع سہاری ضلع نارووال میں۔ دونوں مزاروں کا درمیانی فاصلہ دو میل ہے تاہم آپ کی آل اولاد کا مسکن اکبرپور مبارک میں ہی رہا۔
آغا بدیع الدین شہید کی اولاد اسی گائوں میں رہی۔ پسران ابو الفتح سید فیروز الدین ابوالمکارم گائوں میں اور سید جلال الدین بغرض تبلیغ کشمیر اور شمال کی طرف خدمات ادا کرتے رہے جبکہ دختر بی بی مریم صاحبہ نہایت نیک و پاکیزہ خاتون جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ میں نمازادا کیا کرتی تھیں، اسی گائوں میں رہیں اور جب آخری وقت آیا تو حسب خواہش زمین شق ہوگئی اور اس میں سماگئیں۔ وہیں ان کا مزار ہے۔ آغا صاحب کی اسی نسل سے قاضی سید محمدعارف علاقہ کےقاضی (منصف) اور ان کےپسر سیدعنایت علی قاضی القضاہ (چیف جسٹس) رہے جن کی عملداری کابل تک تھی۔ اسی وجہ سے اکبرپور مبارک کا نام چک قاضیاں مشہور ہو گیا۔ اسی سلسلے سے ابو الفرح شاہ فاضل بٹالہ والے کے خاندان سے جناب سید شمیم حسین قادری چیف جسٹس پنجاب رہے۔ اسی خاندان سے سید محمد اشرف کشفی شاہ نظامی بانی تحریک میلاد النبیؐ تھے، جو صاحب ِ کرامات ولی تھے۔ ان کےبیٹے جناب ایس ایم ظفر وزیرقانون و انصاف ہوئے۔ بعد ازاں ناچیز کو جج عدالت ِ عالیہ چیف جسٹس پنجاب قائمقام گورنر پنجاب و جج سپریم کورٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم اور حضور ﷺ کے طفیل سیدنا غوث الاعظم عبدالقادر گیلانیؒ اور بزرگوں کے صدقے ہوا ورنہ بندہ کی کیا حیثیت۔سکھوں کی عملداری میں یہ گائوں اور خاندان ابتلا کا شکار رہا تاہم عسکری ، علمی اور منصفی خدمات اس کا خاصہ رہا۔ سید فضل حسین شاہ میرے نانا اورسید مہر علی شاہ دادا دونوں بھائی تعلیم یافتہ تھے۔ سیدمہرشاہ فوج میں ملازم رہے اور پہلی جنگ ِ عظیم میں افریقہ میں قابل قدر خدمات کے صلے میں ایوارڈیافتہ تھے جبکہ سید فضل حسین شاہ بسلسلہ روزگار برما چلے گئے جہاں ولی اینڈ کمپنی میں کشفی شاہ صاحب بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں ان کے مالی حالات بہت اچھے تھے۔ نانا سید فضل حسین شاہ نے وہیں شادی کی جس سے میری والدہ اور ان کے دو بھائی سیدعبدالقادر اور سید عبداللطیف ہوئے۔ میرے والد سید منور حسین ابھی چھوٹے تھے کہ دادا کا انتقال ہو گیا۔ جب دوسری جنگ ِ عظیم میں جاپانیوں نےبرما کا رخ کیا تو نانافضل حسین شاہ اور خاندان کے دیگرافراد کو واپس پنجاب آنا پڑا۔ تب تک نانی وہیں انتقال کرچکی تھیںاور نانا پنجاب آ کر وفات پا گئے۔ یوں والدہ صاحبہ جن کی ابتدائی پرورش اور تعلیم رنگون جیسے شہر میں ہوئی تھی، کی گائوں آ کر ہمارے والد سید منور حسین سے شادی ہوگئی۔ آفرین ہے جس طرح انہوں نے خود کو خالصتاً دیہاتی ماحول میں ڈھالا اور ہم پانچ بھائیوں اور دو بہنوں کی پرورش کی۔ میری ابتدائی تعلیم گائوں کےپرائمری ا سکول میں ہوئی بعدازاں غلام دین اسلامیہ ہائی ا سکول مینگڑی سے میٹرک کیا۔ اسکول گائوںسے دو میل دور تھا پیدل ہی جانا آنا ہوتا تھا۔مجال ہے کہ والدہ نےگرمی ہو یا سردی کبھی اسکول سے غیرحاضر ہونے دیاہو۔ یہ اس حلیم صابر شاکر خاتون کی نظرمیں تعلیم کی اہمیت تھی۔ مجھے ابھی تک گھر کا آنگن،گائوں کی گلیاں یاد ہیں۔ یہ بھی یاد ہے کہ جب سخت سردی میں والدہ علی الصبح اٹھ کر چرخہ چلاتیں یا چکی پیستی تھیں اور ہم بچوں کواٹھا کر مسجد بھیجتی تھیں۔ انتہائی محدود وسائل کے باوجود کوشش اور خواہش کہ بچے اچھی تعلیم حاصل کریں، ان کا مشن تھا۔ میں نے جب گریجویشن کیا توایم اے کےلئے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ والد صاحب نے خواہش ظاہرکی کہ قانون کی تعلیم حاصل کروں۔ اس طرح ان کی خواہش کے پیش نظر لا کیا۔وکالت کے ابتدائی دنوں میں جسٹس خلیل الرحمٰن خان جو اس وقت پائے کے وکیل تھے اور بعد ازاں جناب ایس ایم ظفر جووزیرقانون رہ چکے تھے اور بین الاقوامی شہرت کے آئینی امور کے ماہر تھے، کی رہنمائی رہی۔ جب میری بطور جج لاہور ہائی کورٹ تقرری ہوئی پھر چیف جسٹس پنجاب او ر بعدازاں جج سپریم کورٹ تعیناتی ہوئی اس وقت والد اوروالدہ دونوں حیات تھے یہ سب کچھ ان کی دعائوں کے سبب ہوا۔
والدہ جنوری 2012 میں اللہ کو پیاری ہوگئیں اور دسمبر 2013میں والدصاحب۔ دونوں کی زندگی چک قاضیاں میں گزری۔ دونوں گائوں کے آبائی قبرستان میں آسودہ ٔ خاک ہیں۔
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار؟
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آئوں گا!
ان کی وفات کے بعد احساس ہوا کہ ٹھنڈی چھائوں والا شجر اب نہیں رہا۔
ماواں بعد محمد بخشا کون کرے رکھوالی
علامہ اقبالؒ نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا:
دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات
والدہ کی وفات کے بعد خاندان کو ایک بڑے صدمے سے گزرنا پڑا۔ جب چھوٹے بھائی سید خورشید خاور کا نوجوان بیٹا ڈاکٹر جبران اچانک وفات پا گیا۔ والد کو یہ دن دیکھنا پڑا اور زندگی کے آخری دنوںمیں بہت دکھی رہے۔ ان کی وفات کے فوراً بعد ایک اور صدمہ ہماری نوجوان بیٹی مہرین کی وفات کا دن 8فروری 2014تھا۔ جب دو کمسن بچے احمد ا ور امان ماں کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ نظام قدرت ہے جو آیا اس نے جانا ہے ’’کل نفس ذائقتہ الموت‘‘ شکوہ کی بالکل گنجائش نہیں خواہ کسی کی کتنی ہی بے وقت موت لگے۔ مالک کی رضا کے سامنے سرجھکانا ہوتا ہے۔ مہرین بیٹی بھی چک قاضیاں قبرستان میں آسودہ ‘ خاک ہے ۔ اللہ کریم ان سب کو اپنی بیکراں رحمتوں کے سایہ میں رکھے۔ آمین
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو تیرا