• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے صدر بھارت کے دورے پر تشریف لائے، جس گرم جوشی کا اظہار اہل بھارت، ان کی قیادت اور امریکی صدر نے کیا ہے اس نے ہماری حکومتوں کے لئے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں کہ کیا ہماری پالیسیاں پہلے اور اب صحیح ہیں؟ موجودہ بھارت کا طرزسیاست ٹھیک ہے؟ کیا بھارت کے روسی قیادت سے اسی قسم کے تعلقات اور گرم جوشی نہیں تھی؟ جب بھی روسی حکمران ہندوستان اور بھارتی حکمران روس جاتے تھے تو اسی گرم جوشی کا اظہار دونوں طرف سے نہیں ہوتا تھا اور بہت سے معاہدے ان دونوں ملکوں کے درمیان نہیں تھے؟ روسی وزیراعظم خروشیف نے جنرل اسمبلی میں پشاور کے گردنشان لگا کر یہ نہیں کہا تھا کہ اب ہمارے خلاف اگر کوئی کارروائی پاکستان سے کی گئی تو ہم نے پشاور کے گرد سرخ نشان لگا دیا ہے۔ روس اور بھارت کے تعلقات مختلف معاہدوںکے ذریعے اپنی بلندیوں کو چھورہے تھے۔ سوویت یونین کے بکھرتے ہی یہ تعلقات صفرڈگری پر پہنچ گئے اور بھارت کے تعلقات امریکہ کے ساتھ بہت ہی گرم جوشی پر چلے گئے، جس کا مظاہرہ ہم نے ٹیلیوژن پر دیکھا ہے۔ مجھ جیسے لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ امریکہ ہندوستانی جمہوریت کے چیمپئن اور مذہبی انتہاپسند پارٹی کے سربراہ نریندر مودی کو گجرات سے اٹھا کر دہلی کیوں لایا ہے جبکہ ان کے خلاف الزامات تھے کہ انہوں نے جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کیا ہے اور امریکہ اس سے پیشتر انہیں ویزہ دینے سے بھی انکار کرچکا تھا مگر صدر امریکہ اور بھارتی وزیراعظم کی گرم جوشی دیکھ کر مجھے اپنے رہنمائوں کی پالیسیوں پر افسوس ہوتا ہے، جن کی وجہ سے بین الاقوامی طاقتور سربراہوں کے دورے منسوخ ہوئے اور ہمیں موجودہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار اور طاقتور سیاسی لوگوں کو یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ اس ملک کیساتھ کس قدر دردناک سلوک کررہے ہیں اور ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سے سپرپاور نے سلامتی کونسل کی نشست کا فیصلہ بھارت کے حق میں کردیا ہے۔ نتیجہ کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ اقوام متحدہ کے تحت بہت سے ادارے قائم ہوئے اب ہمیں کھل کر اپنی خارجہ پالیسی بیان کرنی چاہئے ہم کیا چاہتے ہیں اور سلامتی کونسل کی مستقل نشست جو سب سے اہم ہے بھارت کو نہیں ملنی چاہئے کیونکہ ہندوستان کے خلاف کشمیر میں رائے شماری اور حیدرآباد جوناگڑھ کے مسئلے موجود ہیں۔ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبر ہیں جنہیں ویٹوپاور کا حق بھی حاصل ہے۔ اگر یہ سیٹ ہندوستان کو مل گئی تو کشمیر کا مسئلہ مستقل طور پر ختم ہوجائے گا چونکہ سلامتی کونسل کے ممبر اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایک ممبر ویٹو کردے تو یہ معاملہ پھر کبھی ایجنڈے پر نہیں آسکتا۔
ویسے تو یہ پورا ادارہ ہی طاقتور ملکوں اور خصوصاً سپرپاور کی زیرنگرانی ہی چلتا ہے۔ بھارت کے خلاف رائے شماری کی قرارداد جو کشمیر کے متعلق ہے اس پر بھارت نے کبھی عمل نہیں کیا۔ اب ہماری سفارتی مشینری کو بہت زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ وہ دنیا کو بتائیں کہ امریکہ کی خواہش کے باوجود بھارت کبھی بھی چین سے ٹکرانے کی پوزیشن میں نہیں آئے گا کیونکہ 1962میں وہ اس کا تجربہ کرچکا ہے اس میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مغربی ملکوں نے چین کا خطرہ دیکھ کر ہندوستان کو بے پناہ مالی اور دفاعی امداد دی، اسلحہ کے ڈھیر لگادیئے گئے مگر چین سے کیا لڑنا تھا طاقت کے نشے میں چور ہوکر 1965میں پاکستان پر حملہ کردیا اس میں اسے بری طرح پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس صورتحال سے تنگ آکر انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹر سوئیکارنو نے نئی اقوام متحدہ بنانے کا اعلان کردیا جس سے مغربی ملکوں کی اقتصادیات کا بھٹہ بیٹھ گیا اس وقت دنیا میں بڑے بڑے قدآور رہنما موجود تھے مگر آج ان کے قدکاٹھ کا کوئی لیڈر ایشیا اور یورپ میں موجود نہیں۔ اب ہمیں خارجہ سطح پر سفارتی مشینری کو متحرک کرکے یہ بتانا چاہئے کہ ہندوستان کو جس کے خلاف اپنے پڑوسیوں کی بے پناہ شکایات موجود ہیں اور جن میں کشمیر کا مسئلہ اہم ہے جہاں ہندوستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی ملک کے خلاف کوئی شکایت درج ہوتو سلامتی کونسل کا ممبر نہیں بن سکتا،اب ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کیوں کرنا چاہئے اس کا فیصلہ ہمارے ارباب اقتدار ہی کرسکتے ہیں مگر عوام کی خواہش ہے کہ اس ملک کی قیادت سینہ تان کر کھڑی ہوجائے اور بین الاقوامی طور پر دنیا کو بتائے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۔ اگر سلامتی کونسل کی مستقل نشست بھارت کو مل گئی تو مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا اور ہندوستان کے پڑوسی ملک ہمیشہ کے لئے اقوام متحدہ سے مایوس ہوجائیں گے جو دنیا کے امن کے لئے شدید خطرہ ہوگا۔
تازہ ترین