• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہو گا کہ 11 ویں صدی کے آغاز میں ہندوستان پر پے در پے حملوں کے بعد یہاں اپنی حاکمیت قائم کرنے والے سلطان محمود غزنوی المعروف محمود زابلی کے والد محترم سلطان ’’ ابو منصور سبکتگین ‘‘ اس وقت کے غزنی کے حاکم سلطان ’’ الپتگین ‘‘ کے غلام تھے ۔ اپنی خوشامد کی وجہ سے سبکتگین سلطان الپتگین کے معتمد ترین ساتھی بن گئے تھے ۔ یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ خود سلطان الپتگین ’’ سامانی خاندان ‘‘ کے پانچویں حکمران عبدالملک کے دور میں غلام تھے اور درباری مسخرے کی حیثیت سے انہیں شاہی ملازمت ملی تھی ۔ اپنے مسخرے پن اور خوشامد کی وجہ سے انہوں نے عبدالملک کے معتمد خاص کی حیثیت حاصل کی اور پھر خراسان کے گورنر بنے ۔ عبدالملک کے انتقال کے بعد الپتگین غزنی فرار ہو گئے اور انہوں نے وہاں اپنے آپ کو حاکم بنا لیا ۔ غزنی میں ہی دیگر غلاموں کے ساتھ ساتھ سبکتگین بھی ایک غلام کی حیثیت سے ملا ۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ مسخرے اور خوشامدی بادشاہ الپتگین کے غلام سبکتگین کا بیٹا دنیا کا طاقتور ترین سلطان بنا اور اسے تاریخ میں ’’ یمین الدولہ ابوالقاسم محمود بن سبکتگین ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ وہی محمود غزنوی ہے ، جس نے ہندوستان پر 17 حملے کیے ۔ موجودہ پنجاب اور سندھ سمیت محمود زابلی نے سومنات کے مندر پر بھی یلغار کی اور وہاں سے سونا لوٹا ۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان سے لوٹا جانے والا مال غزنی لے جایا گیا اور غزنی دنیا کا اس وقت کا امیر ترین شہر بن گیا ۔
مسخروں ، غلاموں اور خوشامدیوں کے بادشاہ اور سلطان بننے کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ بس ایسے لوگوں کو صرف شاہی دربار تک رسائی چاہئے ہوتی ہے ۔ شاہی دربار میں بھی ایسے ہی لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے لیکن ایک دربار ایسا بھی تھا ، جہاں ایک ایسے شخص کو عزت دی گئی ، جو خوشامدی بھی نہیں تھا اور مسخرہ بھی نہیں تھا بلکہ حاکم کی ناراضی کی پروا کیے بغیر سچ بات کہہ دیتا تھا ۔ یہ دربار نواب غازی خان کا تھا ، جن کے نام پر ڈیرہ غازی خان کا شہر آباد ہے ۔ غازی خان کے دربار میں ایک ’’ گانمن سچار ‘‘ تھے ۔ گانمن نواب غازی خان کے وزیر تھے اور ان کی عادت یہ تھی کہ بھرے دربار میں جو بات کہنا ہوتی تھی ، وہ کہہ دیتے تھے ۔ ایک دفعہ دربار میں بہت سے لوگ جمع تھے ۔ مصاحبین میں سے کسی نے گانمن سے پوچھا کہ نواب غازی خان کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں تو گانمن نے نواب غازی کی موجودگی میں کہہ دیا کہ ’’ نواب صاحب خوشامدیوں اور مسخروں کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ ‘‘ نواب غازی خان گانمن سچار کی ہر بات کو برداشت کرتے تھے اور ان کی عزت بھی کرتے تھے ۔ نواب غازی خان جیسے حکمران بہت کم ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ سچ کہنے کی وجہ سے گانمن نہ تو نواب بن سکا اور نہ بادشاہ ۔ انہوں نے فقیری میں ہی زندگی گزار دی ۔ سچ بات کہنے کی وجہ سے انہیں گانمن سچار کہا جاتا ہے ۔ اوچ شریف ضلع بہاولپور میں گانمن سچار کا مزار ہے ۔ آج بھی لوگ ان کے مزار پر جا کر سات الٹے چکر ( پھیرے ) لگاتے ہیں ۔ لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ چکر ایک سچے انسان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا طریقہ ہے اور ان پھیروں سے انسان میں سچ بولنے کی طاقت اور جرات پیدا ہوتی ہے ۔
محمود غزنوی اور گانمن سچار کی باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ آج ہماری سیاست میں محمود غزنویوں کا غلبہ ہے ، جو پاکستان کے سومنات کو لوٹ کر ساری دولت آج کی جدید غزنی کی ریاستوں امریکا ، برطانیہ ، کینیڈا ، متحدہ عرب امارات وغیرہ منتقل کر رہے ہیں ۔ انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں ہے کہ یہاں لوگوں کا خون بہہ رہا ہے ۔ ایسے حالات میں کوئی گانمن سچار پیدا ہو جائے تو یہ تاریخ کا ایک اور استثنائی عمل ہو گا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جو باتیں کر رہے ہیں ، ایسی باتیں ہمیں اپنے بزرگ گانمن سچار سے منسوب کرکے سناتے تھے ۔ گانمن سچار کی باتیں سن کر بادشاہوں کا رعب اور شاہی درباروں کی رومانویت کافور ہو جاتی تھی ۔ بالکل اسی طرح ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی باتوں سے کچھ سیاسی جماعتوں اور طاقتور سیاسی و غیرسیاسی شخصیات سے رومانویت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اوچ شریف میں گانمن سچار کے مزار پر سات الٹے پھیرے لگا کر آئے ہیں یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ گانمن سچار والی باتیں کر رہے ہیں ۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کئی ’’ یمین الدولہ ‘‘ ان سے ناراض ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ وہ بہت جذباتی ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ان کا دماغی توازن درست نہیں ہے ۔ گانمن سچار کے بارے میں بھی اس وقت لوگوں کی یہی رائے تھی ۔ آج بھی اسی شخص کو گانمن سچار کہا جاتا ہے ، جو نفع نقصان کی پروا کیے بغیر ’’ غیر دانشمند ‘‘ لوگوں کی طرح سچی بات کہہ دے اور کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لائے ۔ آج بھی گانمن سچار عقل مند لوگوں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں لیکن پوری دنیا ان کا احترام کرتی ہے ۔ اگرچہ گانمن سچار سوچے سمجھے بغیر بات کرتے تھے لیکن ان کی بات لوگوں میں بہت مقبول ہوتی تھی ۔ ہم نے گانمن سچار کا عہد تو نہیں دیکھا لیکن ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں شہروں ، قصبوں ، پہاڑوں ، جنگلوں ، دریاؤں ، کھیتوں اور کھلیانوں میں جتنی تیزی سے شہرت ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ملی ، وہ کسی اور کو نہیں ملی ۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ، نہ تو ہم دہرا سکتے ہیں اور نہ ہی اس پر کچھ تبصرہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہم گانمن سچار تو نہیں ہیں اور نہ ہی ابھی تک اوچ شریف جا کر سات الٹے پھیرے لگائے ہیں ۔
تازہ ترین