ریاست اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ علم سیاست کی اصطلاح میں ریاست معاشرے کی سیاسی تنظیم ہے اور حکومت کا لفظ اُن ارباب حل و عقد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اُس میں نظم و نسق قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں۔ پہلے ریاست کو لیجیے۔ اِ س کی جو اقسام اب تک دنیا میں نمایاں ہوئی ہیں، وہ اصلاً تین ہی ہیں:
ایک، جزیرہ نمائے عرب کی ریاست جس کی حدود خود خالق کائنات نے متعین کر کے اُس کو اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ چنانچہ اُسی کے حکم پر اُس کی دعوت اور عبادت کا عالمی مرکز اُس میں قائم کیا گیا اور ساتویں صدی عیسوی میں آخری رسول کی وساطت سے اعلان کر دیا گیا کہ ’لا یجتمع فیھا دینان‘ ’’اب قیامت تک کوئی غیر مسلم اِس کا شہری نہیں بن سکتا۔‘‘ اِس سے پہلے کئی صدیوں تک یہی حیثیت ریاست فلسطین کی تھی۔ اسلام اور اسلامی شریعت کے مخاطب یہاں بھی اپنی مختلف حیثیتوں میں افراد ہی ہوں گے، تاہم اِس طرح کی ریاست کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اِس کا مذہب اسلام ہے اور اِس میں حکومت بھی اسلام ہی کی ہو گی تو یہ تعبیر ہر لحاظ سے قابل فہم ہے۔ اِس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری، وہ ریاستیں جن کی حدود فاتحین اپنی فتوحات سے متعین کرتے اور اُن کے باشندوں کو محکوم بنا کر اُن پر حکومت کرتے ہیں۔ اِس طرح کی ریاستوں میں شاہی خاندان یا حکمران گروہ کا مذہب اور نظریہ ہی ریاست کا مذہب یا نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ اِن کا وجود جائز ہے یا ناجائز، اِن کے متعلق بھی اگر یہ کہا جائے کہ یہ مسلمان یا مسیحی یا کمیونسٹ ریاستیں ہیں تو اِسے ناقابل فہم قرار نہیں دے سکتے۔
تیسری، دور حاضر کی قومی ریاستیں جن کی حدود بین الاقوامی معاہدات سے متعین ہوتی اور جو وجود میں آتے ہی اپنے باشندوں کے لیے بنائے قومیت بن جاتی ہیں۔ لہٰذا رنگ، نسل، زبان، مذہب اور تہذیب و ثقافت کے اشتراک و اختلاف سے قطع نظر وہ اپنے آپ کو ہندی، مصری، امریکی، افغانی اور پاکستانی کہتے اور اپنی قومیت کا اظہار اِسی حوالے سے کرتے ہیں۔ اُن میں سے کوئی کسی کا حاکم یا محکوم نہیں ہوتا، بلکہ سب ہر لحاظ سے برابر کے شہری سمجھے جاتے ہیں اور اِسی حیثیت سے کاروبار حکومت میں شریک ہوتے ہیں۔
دور حاضر کی یہی ریاستیں ہیں جن کے بارے میں میں نے لکھا ہے کہ اِن کا کوئی مذہب نہیں ہو سکتا۔ ریاست پاکستان اِسی نوعیت کی ایک ریاست ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اِس کے لیے نہ کوئی فرمان آسمان سے نازل ہوا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کی طرح یہ صرف مسلمانوں کا ملک ہے، نہ مسلمانوں نے اِس کو فتح کر کے اِس میں رہنے والے غیرمسلموں کو اپنا محکوم بنا لیا ہے اور نہ وہ اُن کے ساتھ کسی معاہدے کے نتیجے میں اِس ریاست کے شہری بنے ہیں۔ وہ صدیوں سے اِسی سرزمین کے باشندے ہیں، جس طرح مسلمان اِس کے باشندے ہیں اور ریاست جس طرح مسلمانوں کی ہے، اُسی طرح اُن کی بھی ہے۔ ہندوستان کی تقسیم اِس اصول پر نہیں ہوئی تھی کہ ایک حصے کے مالک مسلمان اور دوسرے کے ہندو ہیں اور دوسرے مذاہب کے لوگ اُن کے محکوم بنا دئیے گئے ہیں، بلکہ اِس اصول پر ہوئی تھی کہ برطانوی ہند کے جن حصوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اُنھیں الگ ملک بنا دیا جائے گا اور ہندوستان کی ریاستوں کے حکمران آزاد ہوں گے کہ چاہیں تو اپنی آزادی برقرار رکھیں اور چاہیں تو ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں، اِس سے قطع نظر کہ اُن کی رعایا میں اکثریت مسلمانوں کی ہے یا ہندوؤں کی یا کسی دوسرے مذہبی فرقے کی۔ اِس طرح کی ریاست کو اگر اکثریت کے زور پر مسلمان یا مسیحی یا ہندو بنانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ محض تحکم اور استبداد ہو گا، جس کی تائید کوئی ایسا شخص نہیں کر سکتا جس کو اُس کے پروردگار نے حکم دیا ہو کہ وہ ہر حال میں قائم بالقسط رہے گا اور حق کی گواہی دے گا، اگرچہ یہ گواہی اُس کے اپنوں کے خلاف ہی پڑ رہی ہو۔ ریاست پاکستان میں رہنے والے غیرمسلموں کے حق میں یہ گواہی اب ضروری ہے کہ تاریخ کے صفحات پر ثبت کر دی جائے۔ یہ اُسی حقیقت کی گواہی ہے جو اِس ریاست کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو مجلس دستورساز سے خطاب کرتے ہوئے پوری صراحت کے ساتھ واضح فرمائی تھی۔ اُنھوں نے کہا تھا:
’’اب آپ آزاد ہیں۔ اِس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، آپ مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار ریاست کا اِس سے کوئی واسطہ نہیں ۔۔۔ ہم اِس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ انگلستان کے باشندوں کو وقت کے ساتھ ساتھ آنے والے حقائق کا احساس کرنا پڑا اور اُن ذمہ داریوں اور اُس بارگراں سے سبک دوش ہونا پڑا جو اُن کی حکومت نے اُن پر ڈال دیا تھا اور وہ آگ کے اُس مرحلے سے بتدریج گزر گئے۔ آپ بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وہاں رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ۔ اب جو چیز موجود ہے، وہ یہ کہ ہر فرد ایک شہری ہے اور سب برطانیہ عظمیٰ کے یکساں شہری ہیں۔ سب کے سب ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اِس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا، نہ مسلمان مسلمان۔ مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور ایک مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘
(قائد اعظم: تقاریر و بیانات 3594)
اِس پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا اسلام اِس طرح کی ریاست کو قبول کرتا ہے؟ اِس کے جواب میں میں نے یہ عرض کرنے کی جسارت کی ہے کہ اسلام کی دعوت معاشرے کے ارباب حل و عقد کے لیے ہے اور وہ اگر مسلمان ہوں تو نظم اجتماعی سے متعلق اُس کے احکام کے مخاطب بھی وہی ہیں۔ وہ ریاست کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے ہرگز کوئی حکم نہیں دیتا۔ چنانچہ اُس کے ماننے والے اِس طرح کی قومی ریاستوں میں بھی شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم بن کر رہ سکتے ہیں، جس طرح کہ اِس وقت دنیا کی بیش تر ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ اِس میں کوئی چیز اسلام اور اسلامی شریعت سے متصادم نہیںہے۔
دورحاضر کی قومی ریاستوں کے بارے میں یہ میرا موقف ہے۔ اِس کے بعد اب حکومت کو لیجیے۔ علم و عقل کی رو سے اِس کے متعلق دو ہی باتیں کہی جا سکتی ہیں: ایک یہ کہ ریاست کے لیے حکمران اور ارباب حل و عقد کا تقرر انسان کا خالق کرے گا۔ دوسرے یہ کہ ریاست کے باشندے کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم نبوت کے بعد پہلی بات کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ اب دوسری ہی باقی ہے جس کا لازمی نتیجہ اکثریت کی حکومت ہے۔ یہ اکثریت اگر مسلمانوں کی ہے اور اِس کی بنیاد پر اُنھیں کسی ریاست میں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو اُن کا جمہوری اور انسانی حق ہے کہ اُن کے دین نے اگر کوئی حکم اجتماعی زندگی سے متعلق دیا ہے تو وہ خود بھی اُس پر عمل پیرا ہوں اور اُس کے ماننے والوں کے تمام معاملات کا فیصلہ بھی اُسی شریعت کے مطابق کریں جو اُن کے پروردگار نے اپنے آخری پیغمبر کی وساطت سے نازل فرمائی ہے۔ قائداعظم جب پاکستان کے حوالے سے اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی شریعت کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کی مراد بھی یہی ہوتی ہے۔
دور حاضر کی قومی ریاستوں کے ساتھ شریعت کا تعلق اِس مقام پر پہنچ کر اور اِس طریقے سے قائم ہوتا ہے۔ میں نے یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اِسی کے پیش نظر اجتماعی زندگی سے متعلق اِس شریعت کے احکام کی ایک جامع فہرست بھی مرتب کر کے پیش کر دی ہے اور لکھا ہے کہ مسلمانوں کو یہ احکام اِس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دئیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔ اہل علم میری مرتب کردہ اِس فہرست سے دلائل کے ساتھ اختلاف کر سکتے اور اِس میں ترمیم و اضافہ بھی کر سکتے ہیں، لیکن ریاست اور حکومت کے اِس فرق کو سمجھنے اور اِس فہرست کو دیکھنے کے بعد بھی اگر وہ کہتے ہیں کہ میں نے شریعت کو فرد کی انفرادی زندگی تک محدود کر دیا ہے یا سیاست، معیشت، معاشرت اور نظم اجتماعی سے متعلق اُس کے احکام کی نفی کر دی ہے اور اُن کا یہ تجاہل عارفانہ نہیں ہے تو اُن کی خدمت میں پھر اِس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ:
سخن شناس نہ ای دلبرا خطا ایں جاست