• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینئر صحافی اشتیاق علی خان سے ہر ہفتے فون پر بات ہوتی تھی۔ میں اپنا کالم ان کے ایڈریس پر ای ۔میل کرنے کے بعد پوچھا کرتا تھا کہ کیا صحیح سالم موصول ہو گیا اور وہ تصدیق فرما دیتے۔ افسوس کہ 6فروری کو یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے منقطع ہوگیا۔ مختصر سی علالت کے بعد موصوف خالق حقیقی سے جاملے ۔ پچھلے دنوں راقم کا مولانا حسرت موہانی پر کالم چھپا، تو ان کے اندر چھپے ایک بڑے صحافی کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے حسب معمول فون کیا۔ تو مذکورہ کالم کی تحسین کرتے ہوئے کہا کہ حسرت موہانی جیسی شخصیت کو ایک کالم میں سمویا نہیں جا سکتا۔ ان کی داستان دلپذیر کیلئے تو شاید کئی دفاتر درکار ہوں اور پھر ایک سینئر ساتھی (غالباً نیاز صاحب) کے حوالے سے مولانا کا ایک مزیدار قصہ کہہ سنایا۔ اور فرمایا کہ موہانی صاحب پر آئندہ کچھ لکھو، تو اسے شامل ضرور کرنا۔ میں شاید رئیس المتغزلین پر اتنی جلد قلم اٹھانے کی جسارت نہ کرتا ، مگر اس لئے اٹھا رہا ہوں، کہ مرحوم اشتیاق علی خان کا مجھ پر ایک طرح کا قرض ہے جس کی ادائیگی کے لئے مرحوم کی بیان کردہ دلچسپ کہانی قارئین سے شیئر کر رہا ہوں۔ فرمایا :
ایک بار مولانا حسرت موہانی کراچی تشریف لائے ،طے پایا کہ عبداللہ ہارون کے ہاں قیام کریں گے۔ البتہ شرط یہ رکھی کہ پیشوائی کیلئے اسٹیشن پر کوئی نہیں آئے گا۔ کیونکہ جنگ کا زمانہ ہے۔ ایک تو گاڑیاں لیٹ ہو رہی ہیں۔ اوپر سے بلیک آئوٹ بھی ہے، خوامخواہ کی زحمت ہو گی۔فقیر خود ہی پہنچ جائے گا۔ ٹرین واقعی بے وقت پہنچی۔ اسٹیشن سے باہر آئے اور ٹم ٹم والے سے ہارون صاحب کے گھر تک کا کرایہ پوچھا، جو کچھ زیادہ لگا۔ سوچا کہ سامان مختصر، سفر بھی زیادہ نہیں اور پھر رات بھی تو اپنی ہے۔ چلو پیدل ہی چلتے ہیں ،گھنٹہ بھر میں منزل مقصود پر پہنچے۔ چوکیدار نے اس عجیب و غریب حلیہ کے مہمان کو اوپر سے نیچے تک دیکھا تو بولے، میاں کیا دیکھ رہے ہو؟ فقیر نے شب بسری کرنا ہے۔ اللہ کے بندے نے واقعی فقیر جانا اور ازراہ خدا ترسی گیراج کے ایک کونے میں بستر بچھانے کی اجازت دے دی۔ ادھر میزبان کی جان پر بنی ہوئی تھی، عظیم المرتبت مہمان کے لئے سب تیاریاں مکمل اور موصوف مفقود الخبر ۔ رات آنکھوں میں کئی، سورج طلوع بھی نہیں ہوا تھا کہ چوکیدار کو طلب کر کے خود کلامی کے انداز میں دریافت کیا کہ رات ایک مہمان نے آنا تھا ،نہ جانے کہاں رہ گئے چوکیدار بولا جناب، مہمان تو تشریف نہیں لائے۔ البتہ ایک فقیر کو آپ کی اجازت کے بغیر گیراج میں شب بسری کی اجازت دے دی تھی۔ معافی کا خواستگار ہوں، سر اسیمگی کے عالم میں سرہارون گیراج کی طرف لپکے، تو دیکھا کہ دو شالے کی بکل مارے حسرت موہانی نماز سے فارغ ہو کر اطمینان سے بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں، اب عالم یہ کہ ادھر میزبان پشیمانی میں بے حال، زبان صدمے سے گنگ اور معذرت کے الفاظ بھی ادا نہیں کر پا رہی۔ادھر مہمان فرما رہے ہیں، جناب پریشانی کس بات کی ؟ اس سے زیادہ اطمینان کی نیند تو میں زندگی بھر نہیں سویا۔
مولانا حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ 1875ء میں یو پی کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے ،بے پناہ ذہانت کو مسلسل محنت کے ساتھ صیقل کیا اور 1903میں پاس آئوٹ ہونے والے علی گڑھ کے ابتدائی گریجویٹس میں شامل تھے۔ اگلے ہی برس علی گڑھ سے ایک اعلیٰ پائے کا ادبی اور سیاسی ہفت روزہ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ جاری کیا جو جلد ہی قبول عام پا گیا اور ہندوستان بھر کے نامی گرامی لکھنے والوں کی تحریریں اس میں چھپنے لگیں۔ اور پھر1908میں ایک حادثہ ہو گیا۔اردوئے معلیٰ میں چھپنے والا ایک مضمون باغیانہ ٹھہرا۔ مولانا سے اسکے مصنف کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب ملا کہ میرے رسالہ میں چھپا ہے۔ تو میرا ہی سمجھئے اور پھر سرسری سماعت کے بعد فیصلہ آیا کہ رسالہ بند اور مدیر کو دو برس کی قید بامشقت مع پانچ سو روپے جرمانہ، سزا سخت تھی اور مجسٹریٹ نے اعتراف کیا کہ اس سے زیادہ کی سزا اس کے اختیار میں نہیں تھی۔ مولانا شاید پہلے صحافی تھے جنہوں نےآزادی صحافت کی خاطر آواز اٹھائی اور پریس قوانین کے تحت سزا یاب ہوئے۔ عدم ادائیگی جرمانے کی پاداش میں ان کی کتابیں بحق سرکار ضبط ہوئیں اور کوڑیوں کے بھائو بک گئیں۔ جیل میں سلوک بدترین تھا،تیسرے درجے کا قیدی، جسے مشقت میں من بھر گندم ہر روز لینا پڑتی تھی۔ ٹارگٹ پورا نہ ہوتا تو مزید اذیت۔ آپ کا معروف زمانہ یہ شعر انہیں دنوں کی یاد ہے۔
ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت کی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت میں
دوسری بار یہ افتاد 1916میں آئی۔ یورپی اشیاء کے بائیکاٹ کی تحریک کے مجرم ٹھہرے اور سیفٹی ایکٹ کے تحت پھر سے دو برس تک جیل ہو گئی، تو فرمایا، کچھ نیا نہیں، یہ تماشا تو پہلے بھی بھگتا چکا ہوں،
مولانا کو بجا طور پر ایک حقیقی انقلابی اور باغی سیاست دان کہا جاتا ہے۔ جو تحریک خلافت سے لیکر ریشمی رومال اور عدم تعاون تک کی تحریکوں میں سرگرم رہے گو سیاست کا آغاز کانگریس سے کیا، مگر باقی پلیٹ فارمز سے بھی لاتعلق نہ تھے ،مسلم لیگ ،جمعیت علمائے اسلام، مجلس احرار اور کمیونسٹ پارٹی تک کے معاملات میں دلچسپی لیتے رہے۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق مسلم لیگ اور کانگریس میں بیک وقت بھی شامل رہے۔ آپ کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ کہ 1921ءمیں کانگریس کے احمد آباد والے اجلاس میں تاج برطانیہ سے مکمل آزادی کی آوا ز اٹھائی جبکہ اسی اجلاس میں گاندھی جی نے اسکی مخالفت کی تھی۔ کانگریس سے مکمل مایوسی اس وقت ہوئی، جب1929میں نہرو رپورٹ سامنے آئی۔ جس پر آپ نے برملا کہا تھا کہ کانگریس مہا سبھائی ذہنیت کی کٹر ہندو جماعت ہے۔ اس سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔چنانچہ دیگر کئی سرکردہ مسلمانوں کے ہمراہ آپ نے بھی کانگریس سے قطع تعلق کر لیا ۔اور پھر قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کی تنظیم نو اور اسلامیان ہند کی فلاح و بہبود اور آزادی کے لئے بے پناہ خدمات انجام دیں۔آزادی ملی ،تو آپ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے رکن تھے۔ مگر پاکستان آنے کی بجائے وہیں رک گئے اور برملا کہا کہ یہاں بھی تو کروڑوں کلمہ گو موجود ہیں۔ اگر سبھی چلے گئے تو ان کے مفادات کا تحفظ کون کرے گا؟ اور پھر اپنے اس عزم اور مشن کا پالن بھی کیا۔ وزیر داخلہ اور بھارت کے مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کوئی ڈھیلی بات کی، تو اسمبلی کے فلور پر اسے یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ تم کیا سمجھتےہو کہ (بھارتی ) مسلمان لاوارث ہیں ،ان کے حقوق کی جنگ کے لئے میں اکیلا ہی کافی ہوں، اور خواہ کچھ بھی ہو جائے مرتے دم تک یہ جنگ لڑتا رہوں گا۔
مولانا چاہتے تو اپنے لئے دنیا جہان کی راحتیں سمیٹ سکتے تھے مگر درویشی ،فقر اور فاقے کو ترجیح دی ،جو کچھ گھر میں آتا، اٹھا کر حاجت مندوں کو دے دیتے۔ اور خود اہل خانہ سمیت فقر و فاقہ کرتے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ گھر میں چولہا نہیں جلا۔مگر مجال ہے کہ پائے استقلال میں ذرا سی بھی لغزش آئی ہو ،حج کے لئے گئے تو شپنگ کمپنی نے فرسٹ کلاس میں سفر کی پیشکش کی ،انکار کر دیا۔ ارض مقدس میں بادشاہ نے خصوصی انتظام کرنا چاہا۔ ان سے بھی معذرت کر دی۔ رام پور کے نواب صاحب کے ساتھ بے تکلفی تھی۔ موصوف نے پوچھا کہ استحقاق کے باوجود ریل کے تیسرے درجے میں سفر کیوں کرتے ہو، ؟فرمایا کیوں کیا چوتھا درجہ نہیں ہوتا۔ شاعر ی بالخصوص غزل میں آپ کے مقام کو شاید ہی کوئی پہنچ پایا ہو۔ اسی لئے تو رئیس المتغزلین کہلائے۔ غلام علی کی گائی ہوئی آپ کی یہ بے مثل غزل تو قارئین کے حافظہ میں بھی محفوظ ہو گی۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
تازہ ترین