• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں پنجاب کے ضلع چنیوٹ کے جنوب میں 3 کلومیٹر کے فاصلے پر رجوعہ نامی علاقے میں تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہوئے۔ ماہرین کے مطابق یہ ذخائر معیار میں برازیل، روس اور بھارت کے ذخائر کے برابر ہیں جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ واضح رہے کہ 2007ء میں پنجاب حکومت نے ارتھ ریسورسز پرائیویٹ لمیٹڈ نامی ایک غیر ملکی کمپنی کے ساتھ رجوعہ ضلع چنیوٹ میں اربوں روپے مالیت کی معدنیات نکالنے کیلئے معاہدہ کیا تھا جس کے بعد 2008ء میں پنجاب کی نگران حکومت نے مذکورہ کمپنی کو ٹھیکہ دینے کی منظوری دی۔ معاہدے کی رو سے معدنیات کے ذخیرے کے 75% شیئرز اس کمپنی کو منتقل ہوتے جبکہ پنجاب حکومت کو صرف 25% شیئرز اور رائلٹی کے حقوق ملتے تاہم 2010ء میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے یہ ٹھیکہ منسوخ کردیا جسے مذکورہ کمپنی کے امریکی نژاد مالک ارشد وحید نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا لیکن ہائیکورٹ نے نہ صرف ٹھیکے کی منسوخی کو جائز قرار دیا بلکہ ڈیل میں ملوث افرادکے خلاف کارروائی کیلئے معاملہ نیب کو ریفر کردیا۔ بعد ازاں پروجیکٹ پر عملدرآمد کیلئے موجودہ حکومت نے ملک کے ممتاز سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک کی سربراہی میں پنجاب منرل ڈویلپمنٹ کمپنی قائم کی جس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز پرائیویٹ سیکٹر پر مشتمل ہے جن میں ایک نجی بینک کے چیئرمین نور الدین فرشتہ، انجم نثار، لمز بزنس اسکول اور پنجاب یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے جیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ 18 اکتوبر 2013ء کو پروجیکٹ کیلئے غیر ملکی اخبار کے ذریعے درخواستیں طلب کی گئیں جس میں 12 بین الاقوامی کنسوریشم کی 33 عالمی کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی اور نیلامی کے ذریعے چینی کنسوریشم میٹالرجیکل کوآپریشن آف چائنا کو کنٹریکٹ دے دیا کیا گیا۔ چین کی یہ کمپنی انٹرنیشنل اسٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ ہے اور دنیا کی فارچون 500کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کا سالانہ ٹرن اوور 34 ارب ڈالر ہے۔ پروجیکٹ کی نگرانی کیلئے عالمی مقابلے کے ذریعے جرمن کنسلٹنٹ کا انتخاب کیا گیا اور 9 ماہ کی کوششوں کے بعد زمین سے حاصل کئے گئے معدنی نمونوں کی بین الاقوامی لیبارٹری SGS سے تصدیق کروائی گئی جس کے بعد حال ہی میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے قوم کو 500 ملین ٹن خام لوہے اور دیگر معدنیات کے ذخائر دریافت ہونے کی خوشخبری سنائی۔
اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں معدنی ذخائر کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ معدنیات کے ذخائر میں پاکستان کی رینکنگ دنیا کے دس بڑے ممالک میں ہوتی ہے۔ ان معدنیات میں کوئلہ، تیل، قدرتی گیس، لوہا، نمک، کرومائیٹ، جپسم، چونے کا پتھر، سنگ مرمر اور گندھک شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے علاقے تھر میں کوئلے کے 175 بلین ٹن کے دنیا کے چوتھے بڑے ذخائر عطا کئے ہیں جو سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر کے برابر ہیں اور ان کی مالیت 25کھرب ڈالر بتائی جاتی ہے جن سے 200 سال تک مسلسل ایک لاکھ میگاواٹ سالانہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سونے اور تانبے کے ذخائر میں پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جن کی مالیت کا تخمینہ 2500 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ کچھ سال قبل بلوچستان حکومت نے چاغی کے علاقے میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر کے منصوبے ریکوڈیک کا ٹھیکہ غیر ملکی کمپنی ٹیھتیان کاپر کمپنی (TCC) کو دیا تھا مگر اب صوبائی حکومت نے ٹھیکہ منسوخ کرتے ہوئے اسے خود پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن ریکوڈیک منصوبے کی مالی ضروریات اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت منصوبے پر پیشرفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ واضح رہے کہ ریکوڈک کے معدنی ذخائر کی مقدار 5.9 ارب ٹن ہے جس میں سونا 0.3 فیصد اور تانبا 0.5 فیصد فی ٹن ملنے کی توقع ہے، اس طرح ان ذخائر سے 56 سالوں میں 22.10 ملین پائونڈ تانبا اور 13 ملین اونس سونا حاصل کیا جاسکتا ہے مگر کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ نے اس کی مقدار کہیں زیادہ بتائی ہے جبکہ ماہرین نے چاغی میں 300 کلومیٹر تک کی اس بیلٹ میں ایسے 48 ذخائر کی نشاندہی کی ہے۔ ذرائع کے مطابق ریکوڈک منصوبہ جس میں چلی کا حصہ 37.5%، کینیڈا کا 37.5% اور پاکستان کا حصہ صرف 25% تھا، پر کام کرنے والی کمپنی TCC بلوچستان سے سونا اور تانبا پروسیس کے بغیر بیرون ملک لے جانا چاہتی تھی تاہم غیر ملکی کمپنی کے ان مذموم عزائم کو دیکھتے ہوئے منصوبے پر عملدرآمد روکنے کیلئے 24 نومبر 2010ء کو سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی جس کی وجہ سے ملکی مفاد کا یہ منصوبہ فی الحال تعطل کا شکار ہے جبکہ غیر ملکی کمپنی TCC نے بین الاقوامی عدالت میں حکومت پر ہرجانے کا کیس دائر کر رکھا ہے، اس کے علاوہ کمپنی نے بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کو تعاون اور مدد کے بدلے پرکشش معاوضے کی پیشکش کی ہے۔ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے علاوہ دیگر قیمتی معدنی ذخائر بھی پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے غیر ملکی طاقتیں علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں۔ امریکہ کی علاقے میں دلچسپی کی اہم وجہ بین الاقوامی بحری راستے کیلئے اہمیت کی حامل بندرگاہ گوادر پورٹ ہے جس کی تعمیر کے بعد چین، روس، مشرق وسطیٰ اور یورپ کی باہمی تجارت انتہائی آسان ہوجائے گی۔ حکومت گوادر پورٹ کا انتظام سنگاپور سے لے کر چین کے حوالے کرچکی ہے جو امریکہ کیلئے تکلیف دہ امر ہے جبکہ خطے میں ایران کی موجودگی کے پیش نظر امریکہ، گوادر میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر امریکہ نے کوئٹہ میں اپنا قونصل خانہ کھولنے کی اجازت مانگی تھی جسے وزرات دفاع اور خارجہ نے مستردکردیا۔ گوادر پورٹ، پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے علاوہ وسط ایشیاء سے اقتصادی تعلقات اور خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے اہم ملک بنادے گی جو امریکہ اور بھارت کو کسی صورت قبول نہیں، اس لئے بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں کرواکے پاکستان کے حالات خراب کرنا چاہتا ہے جس کا واضح ثبوت بلوچستان میں چینی انجینئروں کی ہلاکت اور دیگر مذموم کارروائیوں سے ملتا ہے۔ پاکستان دشمن قوتوں نے اپنی نظریں مستقبل میں چین کیلئے گرم پانی تک رسائی کا سبب بننے والی گوادر پورٹ پر مرکوز کررکھی ہیں جو بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرکے افغانستان اور ایران کے کچھ علاقے اس میں شامل کرنے کے بعد اسے ’’گریٹر بلوچستان‘‘ کا نام دے کر اپنی ریاست بنانا چاہتی ہیں لیکن ملک دشمن قوتوں کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو قیمتی معدنی وسائل سے نوازا ہے جنہیں استعمال کرکے ہم ملک کی قسمت بدل سکتے ہیں مگر افسوس کہ ہم 67 سالوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس زیر زمین دولت کو زمین سے نکال کر ملک کی خوشحالی کیلئے استعمال نہیں کرسکے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ملکی مفاد کے ان اہم منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ میں چنیوٹ میں لوہے، تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہونے پر حکومت اور عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ حکومت ان ذخائر سے صحیح معنوں میں استفادہ کرکے عوام کو خوشحال اور ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرے گی جو ہمارا حق بھی ہے اور منصب بھی۔
تازہ ترین