• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ سطور پرنس محی الدین بلوچ کی پریس کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس آ کر اپنے دفتر میں لکھ رہا ہوں ۔ اس پریس کانفرنس میں پرنس محی الدین بلوچ نے الٹی میٹم دیا ہے کہ 31 دسمبر 2015ء تک اگر بلوچستان کا مسئلہ بلوچ عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہ کیا گیا تو پھر بلوچستان میں جنگ ہو گی ۔ انتہائی دھیمے لہجے والے قلات کے پرنس محی الدین بلوچ جب یہ بات کر رہے تھے تو ان کی وضع دار شخصیت سے یہ بات میل نہیں کھا رہی تھی لیکن انہوں نے بار بار یہ بات کہی تاکہ صحافیوں کو یقین آ جائے کہ وہ ہی جنگ کی بات کر رہے ہیں ۔ ان کا تعلق بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کے اس قبیلے سے ہے ، جو بلوچستان کو پاکستان سے جوڑے رکھنے کے لیے زنجیر کا کام کرتے رہے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھی وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور بلوچستان کے مزاحمت کاروں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے جب اعلان جنگ کیا تو ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ آیا کہ کیا پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں ؟ پرنس محی الدین بلوچ کے والد محترم خان آف قلات میر احمد یار خان نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے کہنے پر ریاست قلات کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا تھا ۔ انہوں نے بلوچستان کی دیگر ریاستوں اور علاقوں کے پاکستان میں انضمام یا الحاق کے لیے بھی کوششیں کیںلیکن بلوچوں کے ساتھ جو کچھ طے کیا گیا ، اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اس پر بلوچوں نے احتجاج کیا تو اس احتجاج کو بغاوت سے تعبیر کرکے بلوچوں کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ قلات کے شہریوں نے 6 اکتوبر 1958ء کو یہ منظر بھی دیکھا کہ خان آف قلات کے محل میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے جوان دروازے توڑ کر داخل ہوئے اور میر احمد یار خان کو گرفتار کر لیا ۔ صرف یہی نہیں، 15 جولائی 1960ء کو حیدر آباد جیل میں بلوچوں کے حقوق کے لیے مزاحمت کرنے والے ایک بوڑھے رہنما نواب نوروز خان کو پھانسی گھاٹ میں کھڑا کرکے ان کے سامنے ان کے جوان بیٹوں اور دیگر ساتھیوں کو پھانسی دی گئی ۔ بلوچوں کو شکوہ صرف یہ تھا کہ ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی ۔ اس کے باوجود 1970ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان میں جب جمہوریت بحال ہوئی تو بلوچوں نے اس وقت ریاست پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ، جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی تھی ۔ اگرچہ 1972ء میں بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا گیا تھا ، پھر بھی اکبر بگٹی اور میر احمد یار خان جیسے لوگ گورنر ہاؤس میں براجمان رہے اور وفاق پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ۔ پرنس محی الدین نے بھی اپنے والد کے ساتھ 2 جنوری 1974ء سے 5 جولائی 1977ء تک گورنر ہاؤس میں گذارے ۔ میر احمد یار خان نے بھی 1955ء میں مزاحمتی تحریک شروع کی تھی ۔ اس کے بعد بھی انہوںنے پاکستان سے دوبارہ رشتہ جوڑا ۔ پرنس محی الدین نے اپنے والد کی گورنر شپ کے دوران بھی بلوچستان آپریشن میں بلوچوں کے خلاف ہونے والی کارروائیاں اور بلوچوں کی مزاحمت بھی دیکھی ۔ اس عرصے میں وہ بلوچ مزاحمت کاروں اور پاکستان کے درمیان ایک زنجیر کا کردار ادا کرتے رہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی وہ خود 9 سال تک وفاقی وزیر رہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک مسلسل یہی کہتے رہے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے وہ ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں حالانکہ 1999ء سے بلوچستان میں بلا جواز شروع ہونے والے آپریشن کے خلاف بھی وہ باتیں کرتے رہے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 5 ہزار سے زائد بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو قتل کیا گیا ہے ۔ 10 ہزار سے زائد بلوچ لاپتہ ہیں ۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ 26 اگست 2006ء کو ایک عظیم سانحہ رونما ہوا ، جب کوہلو کے قریب ایک غار میں پناہ لینے والے نواب اکبر بگٹی کو شہید کر دیا گیا ۔ اس کے باوجود وہ یہ کہتے رہے کہ بلوچوں سے بات کی جائے ۔اب انہوں نے جو وارننگ دی ہے ، اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ بلوچستان کے جو لوگ پاکستان اور بلوچستان کے درمیان زنجیر کا کام کرتے ہیں ، پرنس محی الدین بلوچ اس زنجیر کی اہم کڑی ہیں ۔ ویسے بھی قلات کا حکمران خاندان اس زنجیر کو مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا رہا ہے ۔ یہ سونے کی زنجیر ہے ، جسے عربی میں ’’ سلسلۃ الزہبیہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اس زنجیر کا ٹوٹنا قیامت سے کم نہیں ہو گا ۔ اس زنجیر کی صرف چند کڑیاں رہ گئی ہیں ۔ پرنس محی الدین بلوچ ان لوگوں میں سے ہیں جو تشدد کا راستہ اختیار کیے بغیر مسئلے کا حل چاہتے ہیں ۔ اگر ان جیسا شخص ’’ جنگ ‘‘ کی آواز لگا رہا ہے تو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ۔ یہ لق و دق ریگستان میں پیاس سے دم توڑتے ہوئے شخص کی آخری آواز ہے ۔ یہ صرف ’’ صدا بہ صحرا ‘‘ نہ رہے ۔اس آواز پر کان دھرنا ہوں گے ۔ وہ جنگ کی بات نہیں کر رہے ہیں ۔ ان کی بات کو دھمکی بھی نہ سمجھا جائے ۔ یہ ایک پیاسے شخص کی پکار ہے ، جس کا جواب دینا ہو گا ۔ اگر ہم نے اس کا جواب نہیں دیا تو نقصان ہمارا ہو گا ۔ یہ 1960ء کا عشرہ نہیں ہے ، جب بلوچستان میں پہلی شورش برپا ہوئی تھی یا برپا کی گئی تھی ۔ یہ 1970ء کا عشرہ بھی نہیں ہے ، جب بلوچستان میں دوسری شورش کو ہوا دی گئی تھی ۔ یہ مشرف کا دور بھی نہیں ہے ، جب بلا جواز بلوچوں کے خلاف آپریشن کر کے ان چنگاریوں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت دوبارہ بھڑکایا گیا ، جو 1978ء میں بجھ چکی تھیں ۔ ہم 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہیں ۔ آج ویران ریگستانوں اور پہاڑوں میں بلند ہونے والی ایک معمولی چیخ بھی پوری دنیا کو سنائی دیتی ہے ۔ آج دنیا کے کان بہت بڑے ہو چکے ہیں اور اس کی آنکھیں ہمارے ذہنوں کے اندر بھی جھانک رہی ہیں ۔ آج کسی حادثے ، سانحہ اور وقوعہ کو چھپایا نہیں جا سکتا ۔ پریس کانفرنس کے بعد میں کافی دیر پرنس محی الدین بلوچ کے ساتھ بیٹھ کر بلوچستان سمیت پورے پاکستان ، جنوبی ایشیاء اور دنیا کے حالات پر ان کے خیالات سے استفادہ کرتا رہا ۔ میں نے ان سے کئی سوالات کیے ۔ مثلاً کیا اس سے بلوچوں کو نقصان نہیں ہو گا ۔ کیا بلوچ پاکستان کی دیگر مظلوم قوموں سے جدوجہد کا اپنا رشتہ توڑ دیں گے اور کیا پاکستان اور عالمی اسٹیبلشمنٹ بلوچوں کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے دے گی ؟ ان سوالوں کے جواب میں پرنس محی الدین نے جو سوالات اٹھائے ، ان کا میرے پاس جواب نہیں تھا ۔ بس میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ جو بات کر رہے ہیں ، اسے سننا چاہئے ۔ پاکستان اور بلوچستان کے درمیان ’’ گولڈن چین ‘‘ کی آخری کڑیوں کو ٹوٹنے سے بچانا چاہئے۔
تازہ ترین