• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماضی میں جمہوری یا غیر جمہوری حکومتوں نے احتساب کرنے والے ادارے کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا جس سے احتساب بیورو کی افادیت کے ساتھ ساتھ اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔لیکن شائد پہلی بار احتساب بیورو کرپشن کے خاتمے کیلئے متحرک اور سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں حق سمجھ کر قومی خزانے کو لوٹنے اور جرم اور ظلم کرنے والا طاقتور طبقہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہے۔اقتدار کے ایوانوں پر کسی نہ کسی انداز میں قابض ، معاشی بدعنوانیوں میں ملوث طبقہ گرفت میں آنے کیلئے اپنی باری کے انتظار میں ہے اور لوٹی ہوئی دولت چھپانے کی تدبیر کر رہا ہے۔معاشی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سند ھ پولیس کے اعلیٰ ترین حکام کے خلاف تحقیقات شروع کرنے والے اقدام نے وفاقی محتسب بیورو کی طاقت میں اضافہ کر دیا ہے۔توقع ہے کہ احتساب بیوروصرف سندھ میں ہی کالی بھیڑوں کو تلاش نہیں کرے گا بلکہ اپنی غیر جانبداری ثابت کرتے ہوئے پنجاب پولیس میں کرپشن کے خاتمے کے لئے بھی موثر کردار ادا کرے گا۔جہاں تھانے کاروباری مراکز کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ہر جرم کی قیمت مقرر ہے۔ قیمت ادا کر کے جو چاہے،جس کے خلاف چاہے جھوٹے مقدمات قائم کرکے کاروباری یا ذاتی دشمنی کا انتقام لے سکتا ہے۔
پولیس اور عدالتی نظام کی اصلاح کے لئے وزیراعظم لیگل ریفارمز کمیٹی نے تجاویز پیش کی ہیں۔اگرچہ ان تجاویز میں بیشتر کسی نہ کسی صورت میں قانون میں موجودہیں جو ہماری روایات کے مطابق حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ ہی غیر موثر ہو گئیں۔ پولیس نظام کو بہتر بنانے کے لئے پولیس آرڈر 2002میں چیک اینڈ بیلنس اور احتساب کا جو نظام دیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی البتہ وزیر اعظم لیگل ریفارمز کمیٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز میں بعض واقعتاًنظام عدل کی اصلاح کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔فوجداری اور دیوانی مقدمات کی سماعت اور مقررہ وقت میں فیصلوں کو یقینی بنانے کے حوالے سے تجویز کیا گیا ہے کہ ہر جج کو پابند بنایا جائے کہ وہ پہلی تاریخ سماعت پر مقدمے کی قابل سماعت ہونے کی بابت تفصیلی حکم جاری کرے۔مقدمات کے فیصلوں کے لئے مدت کے تعین کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تجویز کیا گیا ہے کہ مقدمات کے حتمی فیصلوں کے لئے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کرتے ہوئے عدلیہ کو پابند بنایا جائے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر فیصلوں کو یقینی بنائیں۔معمولی مقدمات کے فیصلے 6ماہ اور اہم دیوانی مقدمات کے فیصلے ایک سال کی مدت میں کر دیے جائیں۔فوری انصاف کے لئے مقدمات کی تعداد کے حوالے سے ججوں کی تقرریاں کی جانی چاہییں۔کمیٹی نے نظام عدل اور پولیس کی اصلاح اور جھوٹے مقدمات کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے تجویز کیا ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج کے لئے دی جانے والی درخواست کے مدعی سے یہ اقرارنامہ دستخط کرایا جانا چاہیے کہ اطلاع اور شکایت من گھڑت ثابت ہونے پر دفعہ 182کے تحت مدعی کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی ہے۔جھوٹے اور من گھڑت مقدمات کے اندراج کو روکنے کے لئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 182میں ترمیم کرتے ہوئے مقدمہ جھوٹا ثابت ہونے کی صورت میں مدعی کو 7سال تک کی سزا تجویز کی گئی ہے۔سفارشات میں تجویز کیا گیا ہے کہ تفتیش میں بددیانتی اور غفلت کے مرتکب پولیس افسر کو 3سال سزا دینے کے لئے تعزیرات پاکستان میں ایک نئی دفعہ شامل کی جانی چاہیے اور غیر ضروری تاخیر کے مرتکب فریق پر جرمانہ عائد کیا جانا چاہیے۔وزیر اعظم لیگل کمیٹی نے اپنی سفارش میں اہم ترین نکتہ وکلاء کے مثبت رویے کے لئے پیشہ ورانہ اخلاقیات کی تعلیم و تربیت کی ضرورت پرزوردیا ہے۔وکلاء کی بنیادی تربیت کو موثر بنانے اور مستحکم پیشہ ورانہ بنیادوں کے لئے وکالت کے لائنسسوں کے اجراء کے لئے وکلاء کے انٹرویوز میں اخلاقیات کے موضوع کو خصوصی اہمیت دینے پر زور دیا گیا ہے۔بار کونسل ایکٹ کی دفعہ 41میں ترمیم کی جانی چاہیے اور مس کنڈکٹ کے مرتکب وکیل کو جرمانے کی حد کم سے کم 50ہزار مقرر کی جانی چاہیے۔وکلاء کی جانب سے ہڑتالوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے سدباب کے لئے کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں۔جن میں بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کر کے بار کونسلز یا بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے ہڑتالوں پر پابندی عائد کرنے کی تجویز کے ساتھ کہا گیا ہے کہ روزمرہ عدالتی فرائض کی ادائیگی ہڑتالوںکی وجہ سے متاثر نہیں ہونی چاہیے۔کمیٹی کی سفارشات میں وکلاء کی جانب سے ججوں کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے رجحان کے سدباب کے لئے تجویز کیا گیا ہے کہ بار کونسل ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے ججوں کو زیر اثر کرنے، دھمکیاں دینے اور ہراساں کرنے کے عمل کو پیشہ ورانہ اخلاقیات کی سنگین خلاف ورزی تصور کیا جائے۔ایسی صورت میں متعلقہ جج اپنے حکم میں مذکورہ وکیل کے بارے میں شکایت اور سخت کاروائی کے لئے بار کونسل کو بھیج سکے گا۔جس کے نتیجے میں متعلقہ وکیل کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا۔بلاشبہ پولیس اور عدالتی نظام کی اصلاح کے لئے لیگل ریفارمز کمیٹی کی جانب سے بعض ایسی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن پر عمل درآمد سے نظام میں بہتری آسکتی ہے۔ لیکن کیا ان تجاویز کا حشر بھی ماضی میں پیش کی جانے والی سفارشات جیسا ہوگا یا ان سے استفادہ کیا جائے گا۔کیا حکومت واقعتاً اصلاح احوال چاہتی ہے اور یکسانیت اور سکوت کو توڑ کر عوام کی آسودگی کے لئے کوئی نظام وضع کرنا چاہتی یا ماضی کی یکسانیت اس کا بھی مقدر ہوگا؟
تازہ ترین