• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ جب آپ کا روایتی دشمن آپ پر الزامات کی بارش برسا رہا ہو۔ آپ کو اپنے ملک کے اندر مسلح دہشت گردی اور فوجی کیمپوں پر حملوں کا ذمہ دار قرار دے رہا ہو، آپ کی سرحد پر گولہ باری کر کے عام افراد اور فوجی اہلکاروں کو شہید کر رہا ہو، آپ کے دریائوں کا پانی بند کر کے آپ کو قحط کا نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہو، آپ کو للکارتے ہوئے کہہ رہا ہو کہ ’’ہم تمہیں ساری دنیا میں تنہا کر دیں گے‘‘، آپ کے خلاف عالمی قوتوں کی جتھہ بندی کر رہا ہو اور اپنے میڈیا کے ذریعے ساری دنیا کے سامنے آپ کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہا ہو تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف مکروہ عزائم رکھتا ہے۔ حالت جنگ اور کسے کہتے ہیں؟
پاکستان کو اس صورت حال کا پورا پورا ادراک ہے۔ پوری قوم اچھی طرح سمجھتی ہے کہ انتہا پسند بھارتی سوچ نے آج تک قیام پاکستان کو خلوص دل کے ساتھ تسلیم نہیں کیا۔ وزیراعظم مودی کی تو سیاسی پرورش ہی انتہا پسندی، مسلم کُشی اور پاکستان دشمنی سے ہوئی۔ اس کا انتہائی شرمناک مظاہرہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے گجرات میں مسلم کش فسادات کے ذریعے کیا تھا۔ پاکستان ماضی میں بھارتی جارحیت کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اس لئے بھارت کے رویے اور جارحانہ طرز عمل کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران دنیا کو بھارتی عزائم سے آگاہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے عالمی برادری کو بتایا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کس سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے سیکرٹری جنرل کے علاوہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کو خطوط لکھ کر بھی بتایا کہ بھارت کس طرح کشمیری نوجوانوں کو بینائی سے محروم کر رہا ہے۔ کس طرح گزشتہ تین ماہ کے اندر ایک سو سے زائد افراد شہید کر دیئے گئے ہیںاورکئی ماہ سے کرفیو لگا ہوا ہے۔ کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور پھلوں سے لدے باغات گل سڑ کر برباد ہو رہے ہیں۔پاکستان اللہ کے فضل سے ایٹمی ملک ہے۔ اس کی فوج دنیا کی صف اول کی افواج میں شمار ہوتی ہے۔ ہمارا ہر سپاہی اور افسر جذبہ شہادت کے ساتھ میدان جنگ میں اترتا ہے۔ یہی جذبہ اُسے بے مثال شجاعت و بہادری عطا کرتا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ صرف اسلحے اور ساز و سامان ِ جنگ سے جنگیں نہیں لڑی جاتیں۔ بری ّ ، بحری اور فضائی قوت کی اہمیت اپنی جگہ، مسلح افواج کی شجاعت و بہادری بھی بجا، لیکن جنگیں اس وقت تک پورے اعتماد و یقین کے ساتھ نہیں لڑی جا سکتیں جب تک پوری قوم متحد اور یکجان نہ ہو۔ 1965کی جنگ میں پورا پاکستان یکسو تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام ایک ہی جذبہ سے سرشار ہو کر بھارت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے تھے۔ ہمارے محدود میڈیا نے تاریخی کردار ادا کیا۔ ایسے نغمے تخلیق ہوئے جنہیں سن کر آج بھی جذبات کا طوفان بپا ہو جاتا ہے۔ اس قومی اتحاد و اتفاق نے جانباز مسلح افواج کو حوصلہ دیا اور انہوں نے جنگ میں پہل کرنے والے بھارت کے دانت کھٹے کر دیئے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان میں ہماری افواج نے اسی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا لیکن فرق یہ تھا کہ اس جنگ میں افواج کو مشرقی پاکستان کے عوام کی تائید و حمایت نہ ملی۔ قوم بٹ گئی تو افواج مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکیں اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔
آج بھی لازم ہے کہ قومی سطح پر کامل اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کی جائے۔ہم ایک جمہوری ملک ہیں۔ ہر جمہوری ملک میں اختلاف رائے بھی ہوتا ہے۔ اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہے لیکن جب سوال ملک کی سلامتی کا پیدا ہو جائے، جب دشمن لائو لشکر سمیت سرحد پر آ کھڑا ہو، جب ملکی دفاع پر خدشات کے بادل منڈلانے لگیں اور جب اپنی بقا ہی سب سے بڑی ترجیح بن جائے تو اپوزیشن اور حکومت کی لکیر ختم ہو جاتی ہے۔ ہم نے ماضی میں اس کی مثالیں دیکھی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ایوب خان کی آمریت سے شدید اختلافات تھے۔ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے شکست دینے کی وجہ سے تلخیاں بہت بڑھ گئی تھیں لیکن 6 ستمبر 1965نے ان ساری تلخیوں کو ختم کر دیا اور قوم یک زبان ہو گئی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بچے کچھے پاکستان کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالی۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بھٹو کی شدید مخالف تھیں۔ انہیں پاکستان کے دو لخت ہونے کا ذمہ دار قرار دے رہی تھیں لیکن جب وہ اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لئے بھارت جانے لگے تو تمام اپوزیشن جماعتوں نے ہوائی اڈے پر انہیں رخصت کر کے پیغام دیا کہ ہم ایک ہیں اور بھارت بھٹو کو تنہا نہ سمجھے۔3 اکتوبر کو وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز پارلیمانی کانفرنس بھی ایسا ہی خوشگوار مظاہرہ تھی۔ اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں یا قائدین نے شرکت کی۔ ایک زور دار اعلامیے کے ذریعے کشمیری عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور بھارت کو دو ٹوک پیغام دیا گیا کہ دفاع وطن کے عظیم مقصد کے لئے ہم سب متحد ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم سیاست دان، عمران خان کو بھی اس کانفرنس میں ضرور جانا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں گئے۔ چلئے تحریک انصاف کی طرف سے شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری نے شرکت کی۔ انہوں نے اعلامیے کی تیاری میں بھی اہم کردار ادا کیا اور کھل کر کہا کہ اس معاملے میں ہم وزیراعظم کی قیادت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ ابھی اس اعلامیے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اگلے ہی دن یعنی 4 اکتوبر کو عمران خان نے اعلان کر دیا کہ وہ کشمیر اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے، ان کی جماعت کے ارکان بھی اس اجلاس میں نہیں جائیں گے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جانے سے وزیراعظم نواز شریف کی ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کو ’’جواز‘‘ مل جائے گا۔ یہ دلیل سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک دن وزیراعظم کی طرف سے بلائے گئے اجلاس میں شرکت درست تھی لیکن چوبیس گھنٹوں بعد معیار تبدیل ہو گیا حالانکہ پارلیمنٹ نواز شریف کی نہیں 20 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔
پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے عمران خان صاحب کے موقف کو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ باقی اپوزیشن جماعتیں بھی یہ مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں حکومت کی پالیسی ہرگز درست نہیں۔ اسے ضروری قانون سازی کر کے معاملے کی تحقیق کا آغاز کرا دینا چاہئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ملک حالت جنگ میں ہے (جیسا کہ ہے) تو پھر کیا ان داخلی معاملات کو کچھ دنوں کے لئے پس منظر میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یوں بھی پاناما کے حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس کا تعلق نوے کی دہائی سے ہے۔ 25 سالہ پرانے قضیے کی تحقیقات کے لئے کچھ اور انتظار کرنا بہتر ہے یا عین حالت جنگ میں، ملکی دفاع کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے، قومی اتحاد و اتفاق میں تقسیم کی لکیر ڈالنا؟ اس کا جواب عمران خان ہی دے سکتے ہیں اور اس سوال کا بھی کہ کشمیر اور بھارتی رویے کی مذمت کے لئے بلائے گئے اجلاس سے خان صاحب کا بائیکاٹ کس کے لئے خوشی کا باعث ہو گا؟


.
تازہ ترین