• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان کی سفید پوشی ان کی سفید لمبی داڑھی سے بھی جھلک رہی تھی۔ باریش نورانی چہرے پر تفکرات کے گہرے سائے نمایاں تھے اور چشمے کے پیچھے ڈھلتی عمر کی گواہی دیتی جھریوں میں چھپی نمناک آنکھیں اپنی بے بسی کی داستان سنا رہی تھیں۔ان کا نام عابد شیخ تھا اور وہ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز میں خدمات سر انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے تھے۔ اپنی اہلیہ،بیٹے اور دو پوتے پوتیوں کے ہمراہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے پی ڈبلیو ڈی کالونی میں رہائش پذیر ان بزرگ کو ضعیف العمری میں سرکاری دفاتر کے دھکے اس لئے کھانے پڑ رہے تھے کیوں کہ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی طرف سے انہیں جولائی کا بجلی کا بل ساڑھے اڑتالیس ہزار روپے بھیج دیا گیا تھا۔ دیگر بے بس صارفین کی طرح وہ بھی دن دیہاڑے کی جانے والی اس حکومتی ڈکیتی کی داد رسی کے لئے متعلقہ سرکاری دفاتر کے درمیان رولنگ اسٹون بنے ہوئے تھے لیکن کوئی شنوائی نہ تھی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے انہیں یہی جواب مل رہا تھا کہ کبھی صاحب میٹنگ میں ہیں تو کبھی دفتر سے باہر،کبھی متعلقہ میٹر ریڈر نہیں ہے تو کبھی باس اپنے ذاتی مہمانوں کی آئو بھگت میں مصروف ہیں۔ بل پر درج ایس ڈی او اور ایکسئین کے موبائل نمبرز تو محض خانہ پری کے درج ہوتے ہیں وہ صارفین کی شکایت سننے کے لئے تھوڑی مشتہر کئے گئے ہوتے ہیں اس لئے ان نمبروں پر بھی رابطہ ندارد۔ واپڈا کی طرف سے ناجائز بل بھیجے جانے کی یہ کہانی مجھے کسی اور نے نہیں بلکہ اس ضعیف شخص نے خود سنائی جب میں نے شدید گرمی اور حبس میں انہیں سڑک کے کنارے کھڑا دیکھ کر لفٹ دی۔ بیٹا معاشرے ظلم کی بنیاد پر تو قائم رہ سکتے ہیں لیکن نا انصافی انہیں تباہ کر دیتی ہے،میں انصاف کے لئے کس کا دروازہ کھٹکھٹائوں، میرا جرم کیا یہ ہے کہ میں بجلی چوری نہیں کرتا اور ایک ذمہ دار شہری کے طور پر باقاعدگی سے اپنا بل جمع کراتا ہوں ،سرکاری بد انتظامی اور حکومتی اہلکاروں کی نا اہلی کے باعث میرے جیسا بوڑھا شخص دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھررہا ہے۔ انتہائی جذباتی انداز میں بولتے ہوئے ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔
ایک لمحے کو سانس لینے کے بعد اپنی توانائی مجتمع کرکے وہ دوبارہ گویا ہوئے کہ اب مجھ میں بجلی کا بل درست کرانے کے لیی واپڈا کے دفتروں کے مزید چکر لگانے کی ہمت نہیں ہے اس لئے میں اپنے بڑھاپے کے سہارے کے لئے جمع کی گئی پنشن سے یہ بل ادا کردوں گا لیکن اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے۔ بے بس ضعیف شخص کے منہ سے حکمرانوں کے لئے نکلنے والی اس دعا پر مجھے عام انتخابات سے صرف تین دن قبل سات مئی 2013کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران میاں نواز شریف کی طرف سے ادا کئے گئے وہ الفاظ یاد آ گئے کہ بجلی آتی نہیں اور بل دو گنا زیادہ آ جاتا ہے،حالات یہ ہیں کہ بجلی کا بل آتا ہے تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں ،بیچارے لوگ کہاں سے اتنا زیادہ بل ادا کریں گے۔ دو سال بیت چکے ہیں اس لئے عوام کی مجبوریوں اور محرومیوں کا رونا رو کر ووٹ لینے والے یقینا اپنے ادا کئے ہوئے الفاظ بھول چکے ہوں گے لیکن اگر انہیں ذراسی بھی فرصت مل جائے تو وہ حیدر آباد،کوئٹہ،ملتان یا پشاورالیکٹرک سپلائی کمپنی تو دور کی بات صرف اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی طرف سے صارفین کو بھیجے جانے والے بجلی کے حالیہ بلوں کی تفصیلات طلب کر لیں تو ان پر حکومتی اداروں کی کارکردگی عیاں ہو جائے گی۔ بجلی کے حالیہ بلوں کے بارے میں ایک دوست نے لطیفہ بھیجا جو کچھ یوں ہے۔ معزز صارف آپ کے بجلی کے موجودہ بل میں آسمانی بجلی کے یونٹس کے چارجز بھی شامل کر دئیے گئے ہیں۔ تعاون کا شکریہ، منجانب واپڈا۔ بجلی کے بلوں میں دوڑنے والے کرنٹ کی وجوہات جاننے کی کوشش کی تو انکشاف ہوا کہ سب سے بڑی وجہ میٹر ریڈرز کی طرف سے ماہانہ بنیادوں پر ریڈنگ نہ لینا اور دفتر میں بیٹھ کر اندازے سے یونٹس کا تعین کر کے بل بھیجنا ہے۔ اس سرکاری "واردات" کے تحت میٹر ریڈرزاپنے ایس ڈی او اور ایکسئین کو اعتماد میں لے کر دو تین ماہ بعد گھروں میں جا کر ریڈنگ کرتے ہیں جس سے یونٹس کی تعداد بڑھ کر اتنی ہو جاتی ہے کہ جو بل ماہانہ سینکڑوں میں ہونا چاہئے وہ ہزاروں اور لاکھوں روپے تک جا پہنچتا ہے۔ واپڈا عملے کی اس ملی بھگت کا فائدہ بل ادا کرنے والے صارفین کے خون پسینے کی کمائی پر ڈاکہ مار کر قومی خزانے کو بجلی چوروں کی طرف سے پہنچائے جانے والے نقصان کے ازالے کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ مزید تحقیقات کرنے پر یہ بھی آشکار ہوا کہ اپنے انتخابی منشور کے دوسرے باب میں عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کی دعویدار ن لیگی حکومت نے چپکے سے بجلی پر دو نئے سر چارجز عائد کر دئیے ہیں جس سے فی یونٹ بجلی کی قیمت میں دو سے ڈھائی روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ظلم اور بے حسی کی انتہاء یہ ہے کہ ان میں سے فنانشل کاسٹ کے نام پر عائد کیا گیا ایک سر چارج وہ ہے جس کی مد میں عوام سے اکھٹی کی گئی رقم بجلی کے شعبے میں لئے گئے قرضے کی ادائیگی کے لئے استعمال ہو گی۔ یعنی کرے حکومت بھرے عوام۔ اسی طرح ٹیرف ریشنلائزیشن کے نام سے عائد دوسرے نئے سر چارج کے ذریعے بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نا اہلی کی سزا بھی عوام کو ہی دی جا رہی ہے۔ بجلی کے بل پر صارفین سے نیلم جہلم اور سیلز سمیت اس وقت مجموعی طور پرتقریبا دس مختلف ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں۔ان ٹیکسوں کی مجموعی رقم استعمال کی جانے والی بجلی کے پچاس سے ساٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ انتخابات سے پہلے عوام کے غم میں ہلکان ہونے والی مسلم لیگ ن نے پہلے تو گزشتہ سال ملٹی سلیب سسٹم کو ختم کر کے ون سلیب سسٹم متعارف کرانے کا عوام دشمن فیصلہ کیا جس سے 301 سے 700 یونٹ استعمال کرنے والوں کے لئے بجلی کے فی یونٹ نرخ 16 روپے تک جا پہنچے اور700 یونٹ سے اوپر یہ نرخ 18 روپے تک کر دئیے گئے جس سے حقیقت میں عوام کی چیخیں نکل گئیں،اس ظلم پر صارفین کے تحفظ کا سلوگن استعمال کرنے والا ادارہ نیپرا بھی خاموش تماشائی بنا رہا۔اس کے بعد گزشتہ دنوں وزارت پانی و بجلی نے ایک اور واردات ڈالتے ہوئے ایندھن کی قیمتوں کے کم یا زیادہ ہونے والے میکانزم فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا300 یونٹ تک استعمال کرنے والوں پر اطلاق ختم کر دیا۔ یہ منظوری ’’خدا ترس‘‘ وفاقی وزیر خزانہ نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دی۔ بد نیتی عیاں ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان ہے جس کے باعث فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین کو ریلیف مل رہا تھا جو حکومت کو گوارا نہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ300یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریبا ساٹھ سے ستر فیصد ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض کی قسط لینے کے لئے اصلاحات کے نام پر بجلی کی مد میں دی جانے والی سبسڈی میں اربوں روپے کی کمی کر دی گئی ہے جسے مزید کم کر کے 128 ارب روپے تک محدود کرنے کا ہدف ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں کے ذمہ بقایا جات 600 ارب روپے سے زائد جبکہ گردشی قرضہ ایک بار پھر280 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس تمام بد انتظامی اورحکومتی نا اہلی کی سزا ایک بار پھر عابد شیخ جیسے کروڑوں صارفین کو بجلی کے بلوں میں ہو شربا اضافہ کر کے دی گئی ہے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ عوام دشمن پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور بجلی کے حالیہ اضافی بلوں کی تحقیقات کرا کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تازہ ترین