• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ!
آپ کے لئے ایک بے نوا پاکستانی قلمکار کا سلامِ عقیدت! پاکستان کے 68ویں یوم آزادی پر برصغیر کے مسلمانوں میں شاید واحد مدبر سیاستدان، قائداعظمؒ ستمبر 1948ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی، 8؍ ذیقعدہ 1367ھ مطابق 13؍ ستمبر 1948ءکی خصوصی اشاعت، شمارہ نمبر 145کی صورت میں میرے سامنے موجود ہے، میرے صحافتی توشہ خانے کا یہ نادر و نایاب سرمایہ قائداعظمؒ کی وفات حسرت آیات کی غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی خبر سے بے طرح اشکبار ہے، تاریخ کے حوالے سے قائداعظم کو ہم سے جدا ہوئے گویا 67واں برس ہے! 13؍ ستمبر 1948ء ’’جنگ‘‘ کراچی کے اس 145 ویں شمارے کی بینر ہیڈ لائن یہ ہے:۔ ’’بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحلت فرما گئے۔‘‘ بینر ہیڈ لائن کی کیچ لائن بہ زبان صدمہ و رقت ہمیں مطلع کرتی ہے:۔ ’’12ستمبر، آج شب کو 10بجکر 25منٹ پر بانی پاکستان، سرپرست ملت اسلامیہ ہند و پاکستان، عالم اسلام کے ممتاز ترین زعیم، اعلیٰ حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ، گورنر جنرل پاکستان کی شمع حیات بادِ فنا کے تند جھونکوں کے ہاتھوں گل ہو گئی، انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘
دوسری کیچ لائن میں، اخبار اپنی طرف سے، سکتے، یاس اور آنسووئوں میں غرق قومی ماحول کو پیغام دے رہا ہے:۔ ’’اس نازک ساعت میں جب ہمیں اس روشن دماغ مدبر کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، ہم سے ہماری سب سے عزیز دولت چھین لی، ہمارے قلوب سوگوار ہیں، ہماری آنکھیں اشکبار ہیں، بظاہر ہمارا سرمایہ حیات و قوت لٹ گیا لیکن ہمیں اللہ پر بھروسہ اوردلوں کو (اگلا لفظ پرنٹ نہیں ہو سکا، غالب خیال کے تحت یہ لفظ ’’مضبوط‘‘ ہی ہو سکتا ہے؟ مضبوط رکھنا چاہئے۔‘‘ اخبار نے، اپنی پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ، قیامت ڈھاتی ہوئی اس جاں سوز اور جاں لیوا، روتی بلکتی خبر کا متن درج ذیل جگر خراش بیانئے سے ترتیب دیا:۔ ’’آج شب کو 3بجے ایک سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے، حکومت پاکستان انتہائی حزن و ملال کے ساتھ اعلان کرتی ہے کہ ہفتہ 11؍ ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ حرکت قلب رک جانے کے باعث جہان فانی سے رحلت فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون! قائداعظم کا جنازہ اتوار کو شام کے تین بجے گورنر جنرل ہائوس سے نکالا جائیگا۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے نماز جنازہ کراچی میں نمائش کے میدان میں ادا کی جائے گی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نماز جنازہ پڑھائیں گے۔ قائداعظم کو نمائش گاہ کے قریب اس جگہ دفن کیا جائے گا جو جامع مسجد کی تعمیر کے لئے تجویز کی گئی ہے۔ حکومت اس امر پر زور دینا چاہتی ہے کہ ملت کے شفیق باپ قائداعظم کی روح کے روبرو ہدیۂ عقیدت و احترام پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ جنازہ کے جلوس میں ضبط و نظم اور سکون و احتیاط سے کام لیا جائے۔ قائداعظم کو آج ہی شام کوئٹہ سے بذریعہ طیارہ کراچی لایا گیا تھا، معلوم ہوا ہے کہ کوئٹہ سے روانہ ہونے سے قبل ہی آپ کی حالت تشویشناک ہو چکی تھی۔‘‘ قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے سانحہ ارتحال پر رئیس امروہوی کی نوحہ گری نے اپنی آبدیدگی کا چہرہ دکھایا، رئیس امروہوی نے اپنے قطعۂ الم دہائی دیدی ؎
’’چھن گئے ہم سے، ہمارے قائداعظم رئیس
کہ دیا اجل نے کتنی امیدوں کا خون‘‘
’’مضمحل کر دے زیارت حوصلوں کو قوم کے قائداعظم کی موت، انا للّٰہِ وانا الیہ راجعون‘‘
آہ و ملال کے اس دن کے بطن سے جنم لیتے ’’جنگ‘‘ کراچی کے اس پہلے صفحہ سوگ کا اختتام قائداعظمؒ کے اس فرمان پر کیا گیا:۔ ’’آپ سب کے لئے میرا پیغام امید، حوصلے اور اعتماد کا پیغام ہے، آیئے ہم باقاعدہ منظم طریقے سے اپنے تمام وسائل مجتمع کر لیں اور درپیش سنگین مسائل کا ایسے عزم اور نظم و ضبط سے مقابلہ کریں جو ایک عظیم قوم کا سرمایہ ہوتا ہے (عید الاضحی کے موقع پر قوم کے نام پیغام 24:اکتوبر 1947) ۔حسرت و اداسی سے عبارت اس خصوصی اشاعت کے پہلے صفحہ پر، اخبار نے قومی جذبات کا جاں بلب اظہار اس اداریئے کی صورت میں شائع کیا جو ’’جنگ‘‘ کی 15؍ ستمبر 1948ء کی اشاعت کا حصہ تھا۔ شکست و ریخت کے ان آزمائشی لمحوں میں اخبار نے لکھا، ’’قائداعظم مر گئے، وہ شخص مر گیا جس نے ایک نیم مردہ قوم کو زندگی بخشی تھی، وہ شخص مر گیا جو کروڑوں انسانوں کی زندگی کا سہارا تھا، وہ وجود مٹ گیا جو بجائے خود ایک قوم تھا، وہ شمع بجھ گئی جس کی شعاعوں نے اسلامی دنیا کے گوشے گوشے کو منور کر رکھا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی موت وہ سب سے بڑا سانحہ جس سے قدرت اس نازک موقع پر ہمارا امتحان لے سکتی تھی۔‘‘ اخبار نے قوم کے ساتھ مل کر وعدہ کیا، ’’آج ہم قائداعظم کی روح کے سامنے اک عہد کرتے ہیں! ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی صفوں کو منتشر نہ ہونے دیں گے، ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات بھول جائیں گے، ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم تمام صوبائی امتیازات اور فرقہ وارانہ اختلافات کو دفن کر دیں گے اور اپنے آپ کو قائداعظم کی شان دار، غیر فانی اور عدیم المثال روایات کے شایان شان بنائیں گے!‘‘ قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کو ہم سے بچھڑے، جیسا کہ عرض کیا، آج 67واں برس ہے، ہم نے اس عہد کے ایک ایک لفظ کی خلاف ورزی کی، اس کے پرخچے اڑا دیئے، اِسے بے عزت ہی نہیں کیا پوری بے ضمیری کے ساتھ بے ’’عزت‘‘ کرنے میں ’’اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا۔ اصلاح کی خاطر نہیں محض ریکارڈ کے طور پر اس وعدے کی موجودہ شقوں کی عملی بیلنس شیٹ کا یک طری تذکرہ ہو جائے:۔
(1) قائداعظم کی وفات کے اگلے روز سے ہماری صفوں میں تقسیم شروع ہو گئی، آج صفیں ہی غائب ہیں۔ (2)قائداعظم کے تصورِ ریاست، آئین کی بالادستی، قانون کی پابندی، قومی دیانتداری اور ریاستی ذمہ داریوں میں مکمل کارکردگی کی عمل پذیری، قائداعظم کے جانے کے اگلے روز سے ہی ان تمام اصولوں کی بھی تدفین شروع کر دی، آج ہم اس تدفین کو قریب قریب مکمل کر چکے ہیں! (3) مشترکہ قومی مقصد تو بہت دور کی بات ہے، ہم کسی بھی مقصد پر بحیثیت مجموعی رتی بھر اتفاق نہیں رکھتے۔ (4) صوبائی امتیازات اور فرقہ دارانہ اختلافات کو دفن کرنے کے معاملے میں ہم نے ایک صوبہ علیحدہ کر کے، باقی صوبوں میں علیحدگی و تقسیم کے احساسات کو انتہا پر پہنچا کر، اور فرقہ وارانہ اختلافات کے باب میں پاکستان کی ساری سرزمین کو انسانوں کےخون ہیں نہلا کر، اس وعدے کا جنازہ نہیں، اس کی لاش گدھوں کے نوچنے کو چھوڑ دی! (5) رہ گئی قائداعظم کی شاندار، غیر فانی اور عدیم المثال روایات کی بات، اس کا جواب شق نمبر 2 میں دے دیا گیا ہے! ان شاندار، غیر فانی اور عدیم المثال رویات کا المناک ترین انجام دیکھ کر ہمیشہ مصطفیٰ زیدی مرحوم کا یہ شعر لبوں پر آ جاتا ہے؎
اے وطن کیسے یہ دھبے درودیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ طمانچے ترے رخسار پہ ہیں
قائداعظم کے خصوصی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے ان کے ایام بیماری و رخصتی کے آخری لمحات کا بیانہ ہمیں ان الفاظ میں فراہم کیا ہے؟ ’’میں نو بج کر 15منٹ پر قائداعظم کے پاس تھا جب میں نے ان کا معائنہ کیا تو ان کی نبض نحیف تھی اور کچھ بے قاعدہ بھی، انہیں پسینہ بھی آ رہا تھا، میں نے ڈاکٹر شاہ کو نس میں ٹیکہ لگانے کو کہا، وہ ایسے ٹیکے لگانے میں ماہر ہیں لیکن یہاں ناکام رہے اس لئے کہ نسیں بالکل کام نہیں کر رہی تھیں۔ نرس انہیں متواتر آکسیجن دیئے جا رہی تھی۔ مقوی قلب دوا پھر منہ سے پلانے کی کوشش کی گئی لیکن قائداعظم اسے پی نہ سکے۔ ہم بے بس سے ہو کر رہ گئے۔ ایک اور ٹیکہ لگانے کے بعد میں نے قائداعظم کو پھر سے یقین دلایا ’’حضور! ہم نے آپ کی تقویت کے لئے ٹیکہ لگایا ہے، یہ فوراً اپنا اثر دکھائے گا، انشاء اللہ! آپ زندہ اور سلامت رہیں گے، قائداعظم نے اپنا سر ہلایا اور آہستہ سے کہا ’’اوں ہوں۔ نہیں‘‘… یہ آخری الفاظ تھے جو ان کی زبان سے نکلے۔‘‘
تازہ ترین