• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پٹھانکوٹ کے بعد اُڑی کے واقعہ کی وجہ سے بھارتی عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور بھارتی عوام اپنی فوج کو یہ دوش دے رہے تھے کہ وہ سست اور کابل ہے، وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہی ، اس لئے اِس تاثر کو دور کرنے کی کوشش میں سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا گیاجبکہ اقوامِ متحدہ کے مبصرین جو سرحد پر تعینات ہیں انہوں نے کسی قسم کی سرجیکل اسٹرائیک سے لاعلمی کا اظہار کیا، امریکہ جو بھارت کے قریب ہے اس نے بھی سرجیکل اسٹرائیک کے بارے میں ایک لفظ تک ادا نہیں کیا۔ جب بھارتی وزیر دفاع پاریکرسے پوچھا گیا کہ سرجیکل اسٹرائیک کے کیا ثبوت آپ کے پاس ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ ہنومان تھے کسی کو نظر نہ آئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کا واقعہ گھڑا گیا ہے، اسکی تصدیق جاپان کے ایک جریدے ڈپلومیٹ نے کی کہ بھارت کے پاس سرجیکل اسٹرائیک کی صلاحیت نہیں ہے، کیونکہ سرجیکل اسٹرائیک یا تو ڈرون حملوں سے ہوسکتی ہے یا پھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے اور تیسرے ہیلی کاپٹر کیلئے کوئی انٹیلی جنس مددہونا ضروری ہےتاکہ وہ لینڈ کرنے کی جگہ کا تعین کرنے کیلئے فاسفورس سے روشنی کرے اوراُسکو لینڈ کرنے میں مدد دے، جبکہ بھارتیوں کا کہنا ہے کہ اس سرجیکل اسٹرائیک میں ہیلی کاپٹر استعمال ہی نہیں کیا گیا، پھر سرجیکل اسٹرائیک کیسے ممکن ہے۔ دوسری طرف بھارت کے ڈرون طیارے رستم 1 اور رستم 2 ابھی تک سرجیکل اسٹرائیک کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکے، وہ آتے تو گرا لئے جاتے، اِسکے علاوہ بھارت ہو ورڈز سسٹم کے M-777 گائیڈڈ شیل پر کام کرر ہا ہے وہ ابھی استعمال کے قابل نہیں ہوئے اور روس سے حاصل کردہ ہیلینا میزائل ہے جو دراصل ٹینک کو تباہ کرنے کیلئے ہے مگر وہ ہیلی کاپٹر سے بھی چلایا جاسکتا ہے، ابھی وہ تجرباتی مرحلے میں ہے، تاہم بھارت نے دُنیا بھر میں جو شور مچایا، اس پر دُنیا بھر کے لوگ ثبوت مانگ رہے ہیں، جواباً وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر نے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی تھی، اس سے لگتا ہے کہ یہ پاگل پن کی بات کررہے ہیں اور ابہام پیدا کررہے ہیں یا پھر کوئی ہیلی کاپٹر ایسا جدید ایجاد کرلیا گیا ہے جو بے آواز ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اسکا ہی دعویٰ نہ کر بیٹھے، تو پھر یہ پتہ چلانا پڑے گا کہ کس ملک نے اُسکو یہ صلاحیت دی۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ سپاہی چندو لال چوہان وہاں کیا کررہا تھا، اگر وہ گھسنے کی کوشش کررہا تھا اور پکڑا گیا یا وہ اس ڈرامہ کا حصہ ہے، کسی ایک سپاہی کو وہاں سے پکڑوا دیا جائے جو اُن کے ڈرامہ کو تقویت پہنچائے، جواباً پاکستانی فوج کے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے 40 صحافیوں کے ساتھ جن میں غیرملکی صحافی بھی موجود تھے کو لائن آف کنٹرول کا دورہ کرایا اور اُنہیں دکھایا کہ سرجیکل اسٹرائیک کے شواہد موجود ہیں تو وہ دیکھ لیں، سب کی متفقہ رائے یہی تھی کہ شواہد سرے سے موجود نہیں ہیں، اس پر بھارت میں وزیر دفاع سے بار بار سوال کیا جارہا ہے کہ آپ اپنے شواہد پیش کریں، وہاں کورا سا جواب ’’ہنومان‘‘ کا نام لے کربہلانے کی کوشش کی جارہی ہے، مگر عالمی صحافیوں اور ممالک کو کس طرح مطمئن کیا جائے گا اور بھارت کی سیاسی جماعتوںکو کس طرح مطمئن کیا جائے گا جو بادل نخواستہ نریندر مودی کی حمایت کرنے پر مجبور ہوئے یا محتاط حمایت کی اور یوں مودی نے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے منہ پر تالے ڈالے اور اپنے آپ کو آہنی حکمراں ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم پاکستان کے خلاف ایسی کارروائیاں کرنا بعید از قیاس ہے کیونکہ پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردی کے سدباب یا کسی قسم کی دہشت گردی جسکو بھارت سرجیکل اسٹرائیک کہہ رہا ہے کو کامیابی سے روکنے کا تجربہ رکھتی ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے جو کامیابیاں حاصل کیں انکو ساری دُنیا نے تسلیم کیا، جیسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کو محدود کردیا، افغانستان سے مداخلت کو روکا۔ یہ بھی سوال کیا جارہاہے کہ بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ کا یہ کہنا کہ بھارت نے 7 مختلف لانچر ہیڈ پر حملہ کیا، اُن کے مطابق جہاں سے مسلح افراد بھارت میں داخل ہوتے تھے، اگر ایسا تھا تو اُسکی فلم دکھائی جانا چاہئے تھی۔بھارت کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہوا کہ چین نے اُس کا پانی بند کردیا ہے، چین نےواضح اعلان کیا کہ اُس نے ایسا نہیں کیا، چین کے حوالے سے پروپیگنڈا کرکے وہ پاکستان کا پانی بند کرنے کا جواز پیدا کرنا چاہتا تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ بھارتی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن نے پاکستانی ڈی جی ملٹری آپریشن کو کیوں فون کیا ، کہاجارہا ہے کہ انہوں نے پاکستان سے فائر بندی کی اپیل کی تاکہ سرحد سے بھارتی ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں اٹھائی جاسکیں اوردوسرے انہوں نے گرفتار شدہ فوجی کی حفاظت کی درخواست کی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر سپر پاور بننے کا خبط سوار ہے اور کسی نہ کسی طور پر اپنے عوام کو یہ جتانا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان کو سخت جواب دے رہے ہیں، مگر جو ظلم و ستم بھارتی افواج نے کشمیریوں پر روا رکھاہوا ہے، اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اب کشمیر اُن کے ہاتھ سے نکل گیا، اسپر کئی بھارتی قلمکاروں نے لکھا ہے کہ کشمیر کی تحریک روز بہ روز تیز ہوتی جارہی ہے، اب تک سو سے زیادہ کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جا چکا ہے کوئی گیارہ ہزار کے قریب زخمی ہیں، اُن میں کوئی پانچ ہزار آنکھوں، ٹانگوں، کمر اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے معذور ہوگئے ہیں، گھر گھر تلاشی لی جارہی ہے، گھنٹوں گھنٹوں لوگوں کو کھڑا رکھا جاتا ہے، اس کے بعد بھارتی حکمراں کیا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کشمیر کو اپنے ساتھ رکھ سکیں گے اور اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیری خود اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ اِس پُرامن جدوجہد کو گوریلا جنگ میں تبدیل کردیں تو بھارت کا کیا بنے گا۔ پھر یہ بھی کہ اگر آپ نے سرجیکل اسٹرائیک کردی یا ایسا کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا اس سے پاکستان کیلئے سرجیکل اسٹرائیک کا دروازہ کھل گیا ہے، اِسکے علاوہ نریندر مودی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا اور وہ کسی کی زمین ہتھیانا نہیںچاہتے ہیں تو کوئی ان سے یہ سوال ضرور پوچھے گا کہ اگر ایسا ہے تو مشرقی پاکستان میں کیا کیا تھا،دوسرے سرجیکل اسٹرائیک کی روشنی میں مودی کے بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کرلیاہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف میڈیا جنگ بھی لڑ رہا ہے اگر ایسا ہے تو وقت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے صحافی میڈیا جنگ لڑنے کیلئے اپنی مہارت قوم کیلئے پیش کریں جیسے 65کی جنگ میں زیڈ اے سلہری اور دیگر صحافیوں نے بھارت سے میڈیا وار لڑی تھی۔ اسوقت میڈیا ریڈیو اور اخبارات پر مشتمل تھا، اب میڈیا کافی پھیل چکا ہے اسطرح میڈیا وار بھی مشکل ہوچکی ہے تاہم اسکے باوجود ہمیں یہ جنگ فوج کے ساتھ مل کر لڑنا ہوگی۔


.
تازہ ترین