• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹریفک سگنل پر گاڑی رکتے ہی فقیر نے کا ر کا شیشہ کھٹکا کر پیسے مانگے تو خاتون نے اُسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا ’’ ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے ‘‘فقیر مسکرا کر بولا ’’میڈم آپ نے پہچانا نہیں میں فیس بک پر آپ کا فرینڈ ہوں‘‘۔ایک پٹھان نے ٹوئٹ کیا کہ ’’میرے علاقے کا لائٹ فوراً بند کر دیا جائے ‘‘ کسی نے پوچھا کیوں تو پٹھان نے جواب دیا ’’وہ ہمارے دماغ میں ایک نیا گالی آیا ہے وہ ہم نے بجلی والوں کو دینا ہے ‘‘۔ پچھلے ہفتے WhatsApp پر عمران خان کیلئے یہ میسج دیکھا ’’خان صاحب اگر رونے دھونے سے کوئی وزیراعظم بن سکتا تو پھر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی تاحیات وزیراعظم ہوتا ‘‘۔دو دن پہلے ایک اور WhatsAppآیا کہ ایک لڑکے نے بابا جی سے پوچھا ’’ بابا جی اگر بیوی خوبصورت ہو ،گوری چٹی ہو ،دراز قد ہو ،شوہر کی فرمانبردار ہو ،شوہر کے سامنے کبھی زبان نہ چلائے،شوہر اگر کہے دن تو یہ دن مانے اور اگر وہ کہے رات تو یہ رات جانے ،بابا جی ایسی بیوی کو کیا کہا جائے گا، بابا جی بولے ’’ بیٹا اسے وہم کہتے ہیں وہم ‘‘ ۔ گزشتہ شام ایک دوست کے فیس بک پیج پر یہ اشعار نظر آئے :۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز
دوسری صف میں کھڑا ہو گیا خود کش بمبار
ہو اپھر وہی جو اقبال نے فرمایا تھا
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اس تمہید سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ آج ہمارا موضوع ہے سوشل میڈیا ،وہی سوشل میڈیا جس کی لپیٹ میں پورا جہان ، جو بات کہیں بھی نہ کی جاسکے اور جو طعنہ اور الزام کسی فورم پر بھی نہ دیا جاسکے سوشل میڈیا پر یہ سب اک روٹین اور یہاں یہ سب روز ہو۔ ایک سروے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 3ارب کے قریب جبکہ فیس بک جس کے بانی مارک زیوکر برگ اور جس کا آغاز 4فروری 2004میں ہوا، اسکے ڈیڑھ ارب یوزرز، اسی طرح برائن ایکٹن اور جان کوم کے 2009میں ایجاد کردہ WhatsAppکے استعمال کرنیوالے 800ملین ، ٹوئٹرکا آغاز 2006میں ہوا ، اس کے بانی جیک دورسی ،ایوان ویلمز ،بزسٹون اور نوح گلاس اوریہ 304ملین لوگوں کے استعمال میں اور پھر 2010میں منظر عام پر آنے والا انسٹا گرام جس کے بانی کیون اسٹروم اور مائیک کریگر اسکے استعمال کرنے والوں کی تعداد 300ملین ۔
قربِ قیامت کی نشانی دیکھئے کہ اب تو شیخو بھی WhatsAppاستعمال کرنے لگا۔ گزشتہ ماہ جب شیخو کا پہلا WhatsApp آیا تو سب دوستوں کی حالت ایسی تھی کہ ’’ٹک ٹکدیدم ۔دم نہ کشیدم ‘‘۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ سوشل میڈیا اتنا رُل جائے گا اور پھر بات یہیں نہیں رکی بلکہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال یہ ہوگئی کہ اب تو اتنا وقت آپا زبیدہ کا کچن میں نہیں گزرتا ہو گا کہ جتنا شیخو کا واٹس ایپ پر ،ایک ایک گھنٹے میں یہ بیسیوؤں میسجز بھیجے اور گو کہ زیادہ تر میسجز تو ایسے کہ جو پڑھائے اور نہ سنائے جاسکیں ، لیکن پھر بھی ایک لمبی چھانٹی کے بعد شیخو کے چند میسجز آپ کیلئے نکالے ہیں،ملاحظہ کریں ۔ *دنیا میں دو ہی نیٹ ورک فاسٹ ای میل اور فی میل ،دونوں پر ایک منٹ میں بات مشرق سے مغرب پہنچ جائے *تالاب میں بیٹھی بھینس اور شاپنگ مال میں گھسی عورت کبھی جلدی باہر نہیں آتی *جو قوم دومنٹ سگنل پرکھڑی نہیں ہو سکتی وہ اپنے قدموں پر کیا کھڑی ہوگی *اگر تم چاہتے ہو کہ مرنے کے بعد بھی یاد رکھے جاؤ تو جس جس سے ادھار لے سکتے ہو لے لو *ٹیکسوں کی یہی صورتحال رہی تو ایک دن سور وپے کا کارڈ لوڈ کرنے کے بعداسحق ڈار کی تصویر آئے گی اور نیچے لکھا ہوگا ۔۔۔ جزاک اللہ *آج کے مسلمان پڑھنا برطانیہ اور نوکری امریکہ میں کرنا چاہتے ہیں ،انہیں انگریزی بولنا پسند اور یہ چائنیز فوڈ،اٹالین پیزااور رشین سلاد کے شوقین ، چیزیں انہیں سب ’’میڈ اِن جاپان‘‘ چاہئیں ، چھٹیاں یہ یورپ میں گزارنا چاہیں ، فلمیں انگریزی اور میوزک انہیں ہندی اچھا لگے ، لیکن خواہش سب کی یہی کہ مکہ میں فوت اور مدینہ میں دفن ہو کرجائیں سیدھا جنت میں *بچپن میں ہم وہاں سوتے تھے جہاں پنکھے کی ہوا آسانی سے ہم تک پہنچ سکے مگر اب وہاں سوتے ہیں کہ جہاں وائی فائی کنکشن کے سگنل آتے ہوں اور جہاں سے چارجر کی پن آسانی سے موبائل تک پہنچ سکے *گاؤں کی سب سے حسین لڑکی جب ہماری گلی سے گزری تو ہم نے اُس کے قدموں کی خاک چوم لی ،اس پاگل نے میرے گھر جا کر میری ماں سے کہا ’’ نی ماسی تیرا منڈا مٹی کھانداے‘‘*ایک پٹھان جو اخبار میں سب ایڈیٹر تھا اس نے ایک خبر کی سرخی نکالی ’’بیوی میں دھماکہ ‘‘ چیف ایڈیٹر نے پوچھا کہ خان صاحب یہ کیا تو پٹھان نے کہا بہت آسان سرخی نکالی ہے ورنہ خبر تو یہ تھی کہ ’’ میاں والی میں دھماکہ ‘‘*ایک بیوی پورے 15منٹ تک اپنے خاموش بیٹھے شوہر پر گرجنے برسنے کے بعد بولی ’’ تمہاری اسی گونگی بدمعاشی کی وجہ سے گھر جہنم بنا ہوا ہے *چائے کی پتی اور پتی(خاوند ) دونوں کے نصیب میں جلنا اور ابلنا لکھا اور وہ بھی عورت کے ہاتھوں۔ *ایک بار ملکہ ترنم نور جہاں بڑے فخر سے بتا رہی تھیں کہ جب میرا پہلا بیٹا پیدا ہونے والا تھا تو میں نے فلاں گانا گایا اور وہ ہٹ ہو گیا،جب میرا دوسرا بیٹا پیدا ہونے کے قریب تھا تو فلاں گانا گایا اور وہ بھی ہٹ ہو گیا ، جب میری بیٹی پیدا ہونے والی تھی تو اس وقت میں نے فلاں ہٹ گانا گایا ، یہ سب کچھ بڑے غور سے سنتے ہوئے پاس بیٹھے اداکار منور ظریف نے اچانک کہا ’’ میڈم تسی کدی خالی پیٹ نیٔں گایا ‘‘۔* چنگیز خان سے کسی نے پوچھا کیا آپ کو کبھی کسی پر رحم آیا تو اس نے جواب دیا ’’ہاں ایک بار سندھ میں ایک شخص قائم علی شاہ کو میں نے بزرگ جان کر چھوڑ دیا تھا‘‘۔ * ایک کالے کلوٹے خاوند نے جب اپنی بیوی سے کہا ’’ ہمارا بچہ پیارا ہونا چاہئے‘‘ تو بیوی بولی ’’ دیکھو جی چوائس آپ کی ہے پیارا چاہئے یا ہمارا چاہئے‘‘ پھر شیخو کاSendکیا ہوا یہ شعر :
یہ کہہ کر ہر شے مہنگی کر دی حکومت نے
’’تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر ‘‘
بلاشبہ سوشل میڈیا پر کردار کشی ہوتی ہے ،گالم گلوچ دی جاتی ہے ،ذاتیات پر حملے ہوتے ہیں ، افواہیں اور جھوٹ پھیلایا جاتا ہے، بے شک سوشل میڈیا پر وہ بھی دانشور بنے بیٹھے کہ جن کو اپنے گھر میں ضروری بات کرتے وقت کمرے سے نکال دیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا ان بونوں کے کنٹرول میں کہ جن کو سنسنی خیزی کا ہیضہ یا پڑھی لکھی جہالت کا ڈائریا ہو چکا مگر پھر بھی سارا قصور ان کا نہیں،کیونکہ ذرا سوچئے کہ ایسا ملک کہ جہاں شرح خواندگی 17فیصد سے بھی کم ہو، جہاں 2فیصد ایلیٹ گزشتہ 68سالوں سے 98فیصد وسائل پر قابض ہو ، جہاں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ، جہاں کی جمہوریت کے ڈاکٹر وہ مولانا فضل الرحمن جوتحریک انصاف کو گریبان سے پکڑ کر جمہوریت کو طاقت کے ٹیکے لگائیں اور ایم کیو ایم کے پاؤں پڑکر جمہوریت کو آکسیجن فراہم کریں اور جہاں لیڈروں کے لارے لپوں کا یہ عالم کہ 1970میں بھٹو صاحب ’’روٹی ،کپڑا اور مکان ‘‘دے رہے تھے اور 2015میں بلاول بھی ’’روٹی ،کپڑا اور مکان ‘‘ ہی دے رہاہو ،ایک ایسا دیس کہ جہاں کوئی متفقہ ہیرو یا رول ماڈل ہی نہ ہو ،جہاں چند مرلوں کیلئے بچے ماں باپ مار کو دیں ، پیسوں کی خاطر بھائی بھائیوں کو اغوا کروادے، گھر کی جائیداد گھر میں ہی رکھنے کیلئے بہنوں،بیٹیوں کی شادیاں قرآن سے کردی جائیں اور جہاں اگر سفارش اور پیسہ نہ ہو تو5 پانچ سال تک قیدیوں کی پہلی پیشی ہی نہ ہو پائے اور ایک ایسی دھرتی کہ جہاں کڑاہیوں اور کبابوں پرتو رش ہی رش اور خرچے ہی خرچے مگر لائبریریاں اجڑ گئیں اور نایاب کتابیں فٹ پاتھوں پر ، جہاں منیر نیازی ،اے حمید اور حبیب جالب کو غربت ماردے ،جہاں ساغر صدیقی سڑکوں پر رُل جائے اور جہاں وہ جوش ملیح آبادی کہ جس کے استقبال کیلئے نہرو ننگے پاؤں بھاگا وہی جوش ملیح ایک تنگ وتاریک فلیٹ میں ایسے مرے کہ آخری لمحوں میں نہ علاج کیلئے پیسے اور نہ روٹی کیلئے آٹا وہاں اس ملک ،اس دیس اوراس دھرتی پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیایہ سب اسی طرح مِس یوزہوتے رہیں گے کیونکہ
It is not the gun,it is the man behind the gun
اور جب تک man behind the gun کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور جب تک یہ مطمئن نہیں ہوگا تب تک اس کی gun سب کو ایسے ہی گھائل کرتی رہے گی۔
تازہ ترین