کراچی ( ٹی وی رپورٹ) سلیم صافی نے قومی سلامتی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی باتوں سے قومی مفاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن نقصان پہنچتا ہے تو صحافی کی ایک خبر سے پہنچتا ہے جس کے بارے میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے ممبران میں سے کسی ایک نے اس خبر کو فیڈ کیا ہے کیونکہ یہ گواہی کور کمانڈر میٹنگ کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے ملتی ہے ، کیا صرف صحافی کی خبر سے دشمن کو پروپیگنڈے کا موقع ملا۔ سی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سوا سال تک سی پیک منصوبے کا ذکر نہیں کیا اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے وفاق سے کوئی خط و کتابت بھی نہیں کی ۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں بطور میزبان ملکی و بین الاقوامی امور پر اپنا تجزیہ پیش کررہے تھے۔ سلیم صافی نے مزید کہا کہ دشمن ملک کو پروپیگنڈے کا موقع ملا تو انگریزی اخبار کی ایک خبر سے ملا اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سارا زور سرل المیڈا کو ای سی ایل میں ڈالنے میں لگا یا۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی عدالتیں روزانہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو پیش کرنے کے لیے احکامات جاری کرتی ہیں اور وہ بیرون ملک بیٹھ کر انٹرویوز دیتے ہیں ، پرویز مشر ف کے ان اقدامات سے شاید دشمن ملک کو پروپیگنڈا کا کوئی موقع نہیں ملا کیونکہ انہیں نہ تو بلایا جارہاہے اور نہ ہی ان سے پوچھا جارہا ہے۔عمران خان کے حکومت کے خلاف بیانات سے دشمن ملک کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا کوئی موقع نہیں ملا کیونکہ عمران خان کے خلاف اس جرم کی بنیاد پر کوئی مقدمہ ہی نہیں بنا اور آج بھی وہ لاکھوں لوگوں کے ہیرو ہیں۔ سلیم صافی نے کہا کہ پاکستان کے سیاسی لیڈر ایک دوسرے کو غدار اور مودی کا یار کہتے ہیں ، صحافی ایک دوسرے کو بیرونی ایجنٹ قرار دیتے ہیں ،یہاں کفر کے فتوے لگانے والے مذہب فروش دندناتے پھر رہے ہیں لیکن شاید اس سے بھی دشمن ملک کو پروپیگنڈے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی، دشمن ملک کو پروپیگنڈے کا موقع ملا تو انگریزی اخبار کی ایک خبر سے ملا اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سارا زور سرل المیڈا کو ای سی ایل میں ڈالنے میں لگا رکھا ہے ۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری کے حوالے سے مکمل تجزیہ پیش کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں 23مئی 2013ء کو چینی وزیراعظم کے دورئہ پاکستان کے موقع پر پاک چین اقتصادی راہداری کے ایم او یو پر دستخط ہوئے،جون 2013ء میں وزیراعظم نواز شریف چین کے دورے پر گئے اور مزید تفصیلات طے کیں، اگست 2014ء میں جب پی ٹی آئی کی قیادت کنٹینرپر محو رقص تھی تو سی پیک کے حوالے سے فیصلہ ساز فورم جے سی سی کی چار میٹنگیں ہوچکی تھیں اور ان منصوبوں کی تفصیلات طے پاچکی تھیں جن پر دستخط کیلئے چینی صدر پاکستان تشریف لارہے تھے، سوا سال کے اس عرصے میں نہ عمران خان نے کبھی سی پیک کا ذکر کیا اور نہ ہی خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وفاقی حکومت سے صوبے کے حصے اور مغربی روٹ کے حوالے سے کوئی خط و کتابت کی۔ سلیم صافی نے مزید کہا کہ اس موقع پر چینی سفیر نے چوہدری شجاعت حسین سمیت کی دیگر لوگوں سے درخواست کی کہ عمران خان اور طاہر القادری کو چینی صدر کے دورے کی خاطر کچھ دنوں کیلئے دھرنے معطل کرنے پر راضی کرلیں لیکن وہ نہ مانے بلکہ عمران خان نے الٹا کنٹینر پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کردیا کہ چینی صدر پاکستان آ ہی نہیں رہے ہیں، حالانکہ چینی وزیر خارجہ اور سفارتخانہ چینی صدر کے دورے کا اعلان بہت پہلے کرچکا تھا، اس کے بعد مجبوراً چینی صدر کو دورئہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا، اس دورے کا التواء پاکستان کیلئے سبکی اور چینی سفارتخانے کیلئے بڑی پریشانی کا باعث ہوا۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملہ میں افسوسناک امر یہ ہے کہ دھرنوں کا ڈرامہ فلاپ ہونے کے بعد بھی لمبے عرصے تک عمران خان یا خیبرپختونخوا کی حکومت کو سی پیک یاد نہیں آیا، اپریل 2015ء میں جب چینی صدر نے پاکستان آکر سی پیک کے 46ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کیے تو اس کے بعد بھی خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے کوئی مطالبہ یا اعتراض سامنے نہیں آیا، 2015ء کے وسط میں اے این پی، بی این پی مینگل اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی نے اس منصوبے میں حکومت کے مبینہ گھپلوں اور روٹ کی تبدیلیوں کے حوالے سے سرگرمیاں شروع کردیں تو خیبرپختونخوا اور تحریک انصاف کی قیادت کو بھی سی پیک یاد آگیا، لیکن افسوس کہ اس کے بعد بھی پرویز خٹک اپنے صوبے کا کیس صحیح طریقے سے پیش نہیں کرسکے، صوبائی حکومت کے پاس کونسل آف کامن انٹرسٹ ایک بہترین فورم تھا لیکن اس نے سی پیک کے معاملہ پر اجلاس طلب کرنے کیلئے باقاعدہ خط بھی نہیں لکھا ، خیبرپختونخوا حکومت نے نہ تو پنجاب اور سندھ حکومت کی طرز پر سی پیک کیلئے کوئی دفتر بنایا اور نہ صوبائی بیوروکریسی سے مناسب انداز میں کیس تیارکروایا۔ سلیم صافی کا کہناتھا کہ پرویز خٹک چینی سفیر کے بارے میں جس انداز میں بات کرتے ہیں اس سے لگتا ہے وہ ابھی تک سفارتی آداب کو بھی نہیں سمجھتے ہیں، معاملہ جب دوبارہ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے لگا تو پرویز خٹک نے انتہائی غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ چینی سفیر نے ان سے کہا ہے کہ مغربی روٹ سی پیک میں موجود ہی نہیں ہے،یہ خالصتاً پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اس میں چینی حکومت یا سفارتخانے کو گھسیٹنا کسی صورت مناسب نہیں ہے، چین کی حکومت نے وہی کچھ کیا ہے جو پاکستان کی وفاقی حکومت نے جے سی سی کے فورم پر اسے تجویز کیا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ پہلی اے پی سی کے اختتام پر وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ پہلے مغربی روٹ مکمل ہوگا، دوسری اے پی سی میں وزیراعظم نے زبانی وعدہ تو یہی کیا لیکن جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں لکھا گیا تھا کہ ایک ہی روٹ ہوگا جس کی متفرق شاخیں ہوں گی، روٹ کے ساتھ مشرقی یا مغربی نہیں لکھا گیا تھا، چینی دوستوں کو یہ بتایا گیا کہ حکومت نے سیاسی قیادت کے ساتھ کوئی نئی بات نہیں کی ہے بلکہ ایک ہی روٹ یعنی مشرقی روٹ ہوگا جسے مختلف سڑکوں کے ذریعے مغربی سڑکوں سے منسلک کردیا جائے گا۔