• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس ہفتے کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کے پانچویں بڑے شہر قندوز پر قبضہ کر لیا ہے ۔ قندوز پر قبضے کے بعد طالبان کی دوسرے علاقوں کی طرف پیش قدمی جاری ہے ۔ ویسے تو افغانستان کے کسی شہر یا علاقے پر طالبان کا قبضہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ طالبان پورے افغانستان پر حکمرانی کرتے رہے ہیں اور بعد میں بھی کچھ علاقے ان کے کنٹرول میں رہے ہیں لیکن اب کسی شہر یا علاقے پر طالبان کے قبضے کی خبر بہت بڑی لگتی ہے ۔ اس کی وجہ ایک رپورٹ ہے ، جس کے مطابق ’’ نائن الیون ‘‘ کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں6ٹریلین ڈالرز خرچ کر دیئے ہیں ۔ ایک ٹریلین ایک ہزار ارب کے برابر ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنگ میں 6 ہزار ارب ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں ۔ اگر اس رقم کو پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے تو یہ 6 ہزار کھرب روپے سے زیادہ بنتی ہے ۔ پاکستان کا رواں سال کا مجموعی بجٹ ساڑھے 44 کھرب روپے ہے ۔ اس طرح پاکستان کا 134 سال کا بجٹ اس جنگ میں جھونک دیا گیا ہے ۔ امریکا کی براؤن یونیورسٹی میں آئزن ہاور ریسرچ پروجیکٹ کی مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اس وقت لڑنے والی تمام افواج کے جو اخراجات ہوئے تھے ، ان کا آج کی قیمتوں کے تناظر میں تخمینہ لگایا جائے تو دہشت گردی کے خلاف موجودہ جنگ کے اخراجات دوسری جنگ عظیم کے کل اخراجات سے بھی تجاوز کر گئے ہیں ۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکا اور اس کی اتحادی نیٹو افواج 15 سال سے افغانستان میں موجود ہیں ۔ اس کے باوجود طالبان نہ صرف اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں بلکہ وہ افغانستان کے کچھ علاقوں پر کنٹرول بھی حاصل کر چکے ہیں اور مزید پیش قدمی کر رہے ہیں ۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ تو یہ بھی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ آئندہ سال پورے افغانستان پر طالبان کی حکومت ہو گی ۔ طالبان تو ختم نہیں ہوئے بلکہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی نئی برانڈز عالمی مارکیٹ میں متعارف ہو گئی ہیں ۔ کوئی پوچھنے والا ہے کہ اس قدر مہنگی جنگ لڑنے کا کیا فائدہ ہوا ؟ کیا کسی کا احتساب ہو گا ؟ شرم کی بات ہے عالمی طاقتوں کے لیے اور شرم کی بات ہے نیٹو کے ان جرنیلوں کے لیے ، جو بڑے بڑے میڈلز اپنے سینوں پر سجا کر دنیا کو محفوظ بنانے کا دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں ۔ امریکا اور اس کے اتحادی ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ،جن کے پاس کوئی خطہ زمین،حکومت یا معاشی وسائل نہیںہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جنہیں کسی بھی جگہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔یہ تمام گروہ ان علاقوں میں آپریٹ کرتے ہیں،جو خشکی سے محصور ( Landlocked ) ہیں ۔ ان کی کمک ایک سیکنڈ میں بند کی جا سکتی ہے۔اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ گروہ دائیں بازو کے انتہا پسندانہ سیاسی نظریات کے حامل ہیں۔ان کی عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج سے کوئی حقیقی لڑائی نہیں بنتی ہے۔یہ گروہ اپنے اپنے ملکوں میں سامراج دشمن اور ترقی پسند قوتوں کے لیے قہر بنے ہوئے ہیںاور بنیادی طور پر امریکا اور اس کے حواریوں کا کام کررہے ہیں۔ان گروہوں کے خلاف جدیدترین دفاعی ٹیکنالوجی کی حامل اور 5منٹ میں دنیا کو فتح کرنے کی صلاحیت رکھنے والی نیٹو کی انتہائی طاقتور افواج 14 سال سے جنگ لڑ رہی ہیںاور صرف امریکا نے ان کے خلاف 6 ٹریلین ڈالرز خرچ کر دیئے ہیں۔ حیران بلکہ پریشان کر دینے والی بات یہ بھی ہے کہ نیٹو افواج قندوز ایئر پورٹ پران طالبان کاحالیہ قبضہ چھڑانے میں ناکام ہو گئی ہے ،جو طالبان نیٹو افواج کے افغانستان میں داخل ہوتے ہی اقتدار چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ اصل بات سمجھنی ہے تو 6 ٹریلین ڈالرز والی جنگی معیشت کو سمجھنا ہوگا۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی حلقوں کے سب سے معتبر معیشت دان لارڈ کینز نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’ سرمایہ دارانہ نظام حسد اور لالچ جیسی کئی بدعتوں سے پروان چڑھتا ہے۔ جب یہ ساری بدعتیں کارگر نہیں رہتی ہیں اور یہ نظام دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کا آخری حربہ جنگ ہوتا ہے۔ ‘‘ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے شروع کی جانے والی جنگیں دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے نہیں ہوتی ہیں بلکہ ہتھیار بنانے والی کمپنیوں اور بینکس کے سودی کاروبار میں اضافے کے لیے ہوتی ہیں۔امریکا کے میڈل آف آنر ایوارڈ حاصل کرنے والے میجر جنرل بٹلر کہتے ہیں کہ ’’ جنگ ایک چال(Racket ) ہے ۔ میں نے 33 سال 4 ماہ فوج میں ملازمت کی ۔ اس عرصے کا مختصر حال یہ ہے کہ میں سرمایہ داری کا ’’ Racketeer ‘‘ اور ’’ گینگسٹر ‘‘ بنا رہا ‘‘ ۔ دوسری جنگ عظیم کو بھی عالمی ساہوکار فنانس کرتے رہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں سرمایہ یورپ سے امریکا منتقل ہوا اور امریکی سامراج نے جنم لیا ۔ اس کے بعد جنگ امریکا کا کاروبار بن گئی ہے ۔ اس کاروبار میں اس نے دہشت گرد گروہوں ،منشیات اور اسلحہ کے اسمگلرز ، آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں ، تیسری دنیا کے جرنیلوں ، سیاست دانوں اور اسمارٹ پرائیویٹ افراداور اداروں کو اپنا پارٹنر بنا لیا ہے۔لاطینی امریکا میں منشیات کے خلاف جنگ سے لے کر دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ تک وہ سب کو نواز رہا ہے ۔ صرف افغانستان میں اپنے فوجیوں کو ایئر کنڈیشننگ کی سہولت مہیا کرنے کے لیے امریکا سالانہ 20 ارب ڈالرز خرچ کر رہا ہے ۔ اس طرح ایک فوجی پر اس سہولت کی مد میں سالانہ 10 لاکھ ڈالرز خرچ ہوتے ہیں ۔ جنگ سے تباہ حال افغانستان کی بحالی کے لیے صرف 5.3 ارب ڈالرز دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس میں سے ابھی تک ایک ڈالر بھی نہیں دیا گیا ۔ جب چین نے افغانستان کے علاقے بدخشاں سے اپنی سرحد تک سڑک تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا تو طالبان نے قندوز پر قبضہ کر لیا تاکہ یہ منصوبہ رک جائے ۔ جنگ کے نام پر خرچ کی جانے والی رقم میں سے کئی سو ارب ڈالرز چوری اور خورد برد ہو جاتے ہیں ، جن کا کوئی احتساب نہیں ۔ عراق کی دوبارہ تعمیر کے لیے 18.7 ارب ڈالرز ’’ چوری ‘‘ ہو گئے ۔ اسی طرح کئی سو ارب ڈالرز کے ہتھیار اور دفاعی سازو سامان راستے میں ’’ غائب ‘‘ ہو جاتے ہیں ۔
تازہ ترین