• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برسوں پہلے ایک شاعر نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں لکھا تھا کہ ” ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے “ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور اقتدار تھا اور فوجی آمر اس شاعر کی نظم پر لرز کر رہ گیا۔ نہتی لڑکی کے حاسدین نے شاعر پر الزام لگا دیا کہ اسے خرید لیا گیا ہے۔ شاعر اس الزام کی پروا کئے بغیر مسکرایا اور کہنے لگا کہ میں کل بھی کرائے کے مکان میں رہتا تھا اور آج بھی کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، نہ کل مجھے خریدا جا سکا نہ آج کوئی خرید سکتا ہے، ہاں جن کی اپنی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے وہ دوسروں کو بھی برائے فروخت سمجھتے ہیں، لیکن مجھے ایسے زر خرید الزام بازوں کی کوئی پروا نہیں میں جو سچ سمجھتا ہوں لکھتا رہوں گا۔ ایک دن اس غریب اور بیمار شاعر کو جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کے ایک وزیر نے کہا کہ بے نظیر بھٹو ایک جاگیردارنی ہے اور آپ غریبوں کی بات کرتے ہیں، ایک جاگیردارنی سے غریب لوگ بھلا خیر کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ شاعر نے جواب میں کہا کہ وہ جاگیردارنی ضرور ہے لیکن جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہرحال اچھی ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت میں مجھے گستاخانہ شعر کہنے کی آزادی تو ہو گی۔ اس شاعر کا نام حبیب جالب تھا۔
1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں۔ صرف ایک سال کے بعد جالب صاحب نے ایک نظم میں کہا ” دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے۔ پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے “۔ وزیراعظم صاحبہ نے اپنے وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن سے پوچھا کہ جالب صاحب مجھ سے کیوں ناراض ہیں؟ چوہدری صاحب نے جواب میں کہا کہ جالب صاحب آپ سے ناراض نہیں ہیں بلکہ عوام کی حالت نہ بدلنے پر مضطرب ہیں، ان کی نظم ہمارے لئے ایک یاددہانی ہے اور ہمیں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ جالب کا اضطراب ختم ہو جائے۔ شاعر کا اضطراب اعتزاز احسن سے بہتر کوئی دوسرا نہیں جان سکتا کیونکہ اعتزاز احسن خود ایک شاعر ہیں۔ آج کل اعتزاز احسن بھی اسی دور سے گزر رہا ہے جس دور سے کبھی حبیب جالب گزرے تھے۔ اعتزاز پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اسے خرید لیا گیا ہے کیونکہ اس نے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں آصف زرداری کو صدارتی امیدوار بنانے کی تجویز کی حمائت کی۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ آصف زرداری نے بار بار معزول ججوں کی بحالی کا وعدہ کیا اور بار بار وعدہ پورا نہیں کیا جس پر عوام کی ایک بڑی اکثریت ان سے نالاں ہے۔ اعتزاز احسن کی حالت بھی اس شاعر سے مختلف نہیں جسے پہلے تمناؤں میں الجھایا گیا، پھر کچھ دلاسوں سے بہلایا گیا اور آخرکار ایک تحریری معاہدہ سامنے لایا گیا۔ زرداری صاحب نے اس تحریری معاہدے کو نظر انداز کر دیا تو اعتزاز احسن کے پاس دو راستے تھے یا تو چاک گریباں کے ساتھ سڑکوں پر آ کر نعرے لگائیں اور عوامی طاقت سے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ یہ ممکن نہیں کیونکہ عوام پہلے ہی مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہیں۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ اپنی پارٹی کے اندر رہتے ہوئے معزول ججوں کی بحالی کیلئے آواز بلند کرتے رہیں۔
اعتزاز احسن نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں معزول ججوں کی بحالی کیلئے بھرپور آواز بلند کی جس پر زرداری صاحب نے ان سے وعدہ کیا کہ جج ضرور بحال ہوں گے اور شائد یہی وجہ تھی کہ جب اجلاس کے شرکاء کی اکثریت نے آصف زرداری کو صدارتی امیدوار بنانے کی تجویز دی تو اعتزاز احسن نے تائید کر دی کیونکہ یہ اکثریت کا فیصلہ تھا اور اس فیصلے کے سامنے سر جھکا کر ایک شاعر اپنے کچھ خوابوں کی تعبیر دیکھنے کی امید رکھتا تھا۔ یہ وہی شاعر تھا جسے تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا اور کچھ دیر بعد اس کے سینے پر رائفل کی نال رکھ کر گولی مارنے کی دھمکی دی گئی۔ یہ شاعر لاہور میں اپنے گھر پر کئی ماہ تک نظر بند رہا۔ اسے خریدنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن تمام خریدار ناکام لوٹے۔ اس شاعر نے اپنے وکلاء ساتھیوں کے اصرار پر عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا جو اپنے مقصد کی خاطر بہت بڑی قربانی تھی۔ بعدازاں اسے راولپنڈی سے ضمنی الیکشن لڑنے کی پیشکش کی گئی۔ شاعر نے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی۔ پھر اس نے لانگ مارچ کیا، ایک کامیاب لانگ مارچ جو پرویز مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی کا باعث بنا۔ اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی وکلاء ججوں کو معزول کرنے اور گرفتار کرنے والے پرویز مشرف کو ہٹانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور انہیں بدستور امید ہے کہ معزول جج بھی ضرور بحال ہوں گے۔
اعتزاز احسن کے خلاف فتوے بازی میں مصروف دانشوروں نے ان کے پچھلے ڈیڑھ سال کے کردار اور قربانیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ ان میں سے اکثر فتوے باز ڈیڑھ سال میں نہ کبھی سڑک پر نکلے، نہ گرفتار ہوئے نہ کسی پابندی کا شکار ہوئے۔ یہ فتوے باز نہیں جانتے کہ پچھلے سال پرویز مشرف نے طارق عزیز کے ذریعہ اعتزاز احسن کو جو پیشکش کی تھی وہ اکثر سیاستدانوں کو صرف خواب میں نظر آیا کرتی ہے۔ اس پیشکش کو ٹھکرانے والا اعتزاز احسن آج اپنے ضمیر کا سودا کیسے کر سکتا ہے جبکہ آصف زرداری ایسی پیشکش کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔ بات دراصل یہ ہے کہ حبیب جالب کی طرح اعتزاز احسن بھی بدترین جمہوریت کو بہترین آمریت سے اچھا سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں آئین کے اندر طے شدہ طریقہ کار کے مطابق آصف زرداری کے پاس مطلوبہ ووٹ پورے ہیں تو صدر بننا ان کا حق ہے۔ جمہوریت اسی کو کہتے ہیں۔ یہ جمہوریت پسندی نہیں کہ ایک شخص کے پاس مطلوبہ اکثریت موجود ہے اور آپ اسے کہیں کہ تم صدر نہ بنو کیونکہ تم مجھے اچھے نہیں لگتے۔ آصف زرداری کے صدر بننے کے بعد معزول ججوں کی بحالی کیلئے آواز بلند کرنا اور تحریک چلاتے رہنا اعتزاز احسن کا حق ہو گا اور خدانخواستہ جج بحال نہ ہوئے تو اعتزاز احسن یہ حق استعمال کرتے رہیں گے بالکل اسی طرح جیسے حبیب جالب نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیراعظم بننے کے بعد بہت زور سے کلمہ حق بلند کیا تھا۔ سچا شاعر کبھی گستاخی سے باز نہیں آتا۔
آصف زرداری یاد رکھیں کہ وہ صدر بننے والے ہیں تو صرف اور صرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی قربانی کی وجہ سے۔ وہ ایوان صدر پہنچ کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ زرداری صاحب یاد رکھیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل معزول ججوں کی بحالی نہیں چاہتے تھے اور اسی لئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسلام آباد کی ججز کالونی میں جا کر کہا تھا کہ افتخار محمد چوہدری میرا جج ہے اور میں اس کے گھر پر پاکستان کا پرچم ضرور لہراؤں گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے الیکشن 2008ء کے منشور میں آئین کی سترہویں ترمیم ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کو نظام تبدیل کرنے کا راستہ قرار دیا تھا اور اس راستے پر سفر کے آغاز میں پارلیمنٹ کو صدر سے وہ تمام اختیارات واپس لینے ہوں گے جو پرویز مشرف نے چھین کر حاصل کئے تھے۔ جب تک سترہویں ترمیم کے اختیارات نئے صدر کے پاس رہیں گے، قوم آصف زرداری کو پرویز مشرف سمجھتی رہے گی اور جس دن یہ اختیارات ختم ہو جائیں گے اسی دن پرویز مشرف ایوان صدر سے رخصت ہو گا اور وہی دن آمریت سے جمہوریت کے انتقام کا دن ہو گا۔ امید ہے اعتزاز احسن نئے صدر کو وہ سب وعدے یاد کراتے رہیں گے جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم سے کئے تھے، نئے صدر صاحب نواز شریف کے ساتھ تحریری معاہدوں کو آسانی سے توڑ سکتے ہیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے قوم سے وعدوں کو نہیں توڑ سکتے، یہ وعدے ٹوٹے تو پھر جمہوریت آصف زرداری سے انتقام لے گی۔

تازہ ترین