• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ‘ ابھی یا پھر کبھی نہیں … !....مشتاق احمد قریشی

آج ہم اگر وطن عزیز کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ ہم اُس مقام سے کس قدر دور ہٹ چکے ہیں جس کے حصول کے لیے قائد نے زندگی بھر جدوجہد کی۔ جب تک پاکستان قائم ہے قائد اعظم کا نام بھی زندہ رہے گا۔ ان کے اقوال اور زریں اصول بھی زبان زد عام رہیں گے لیکن صد افسوس کہ اس سب کے باوجود کبھی ہم نے سوچا اور اپنے اپنے کردار کا جائزہ لیا ہے کہ ہم کیا کہہ اور کررہے ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں کس قدر تضاد ہے۔ ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرنا ہوتا ہے وہ کہتے نہیں۔ پندرہ جون 1948ء کی ایک شام جب قائد اعظم نے کوئٹہ میونسپلٹی کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب میں فرمایا تھا۔ ” اب ہم سب پاکستانی ہیں نہ کوئی بلوچی ہے ‘ نہ پٹھان ‘ نہ بنگالی ‘ نہ سندھی ‘ نہ پنجابی ‘ ہم سب صرف پاکستانی ہیں اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہئے“۔ آج اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو کیا ہم اس قول قائد اعظم پر پورا اترتے ہیں؟قائد نے 21 فروری 1948 ء کو کراچی میں افواج پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ”ہم نے پاکستان کی آزادی کی جنگ تو جیت لی ہے لیکن اس آزادی کو برقرار رکھنے اور پاکستان کو مستحکم اور مضبوط بنیاد پر تعمیر کرنے کی سنگین تر جنگ ابھی جاری ہے “۔ پاک بحریہ میں شامل ہونے والے جہاز دلاور کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے موقع پر 23 جنوری 1948ء کو فرمایا ” پاکستان کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں آپ میں سے ہر ایک کو اپنی جگہ الگ الگ انتہائی اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لیے آپ کا نعرہ ہونا چاہئے۔ ” ایمان ‘ تنظیم اور ایثار “۔ تاریخ عالم میں قائد اعظم محمد علی جناح وہ منفرد شخصیت تھے جنہوں نے بغیر کوئی گولی چلائے بغیر جیل جائے اپنی اہلیت و قابلیت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنے اصولی موقف کو انگریز اور ہندوؤں سے منوایا اور جدوجہد آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ قائد اعظم نے پرامن اور جمہوری جدوجہد کے ذریعہ خطے کو انگریز کے پنجہ استبداد سے نجات دلائی لیکن آج ہم خود اپنوں کا خون اپنے ہی ہاتھوں سے ان کا خون بہانے میں مصروف ہیں۔ پورے ملک میں امن و امان کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ دہشت گردی کا دنیا میں کوئی حامی نہیں جنہیں دہشت گرد گردانا جارہا ہے وہ بھی خود کو دہشت گرد کہلانا پسند نہیں کرتے۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی سلامتی کے لیے افغانستان کا تحفظ ضروری ہے۔ اس کے لیے عراق سے واپس بلائے جانے والے فوجیوں کو افغانستان میں تعینات کیا جائے گا۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں خصوصاً قبائلی علاقوں میں صورت حال بڑی خطرناک موڑ لے رہی ہے۔ امریکہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں عراق جیسی حکمت عملی اپنانے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں اب امریکی براہ راست مداخلت کررہے ہیں ان کے ہیلی کاپٹر ‘ فوجی اور طیارے جب چاہتے ہیں سرحد پار کرکے پاکستانی علاقوں میں من مانی کارروائیاں کرکے چلے جاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں بلکہ افغانستان کے ہی کسی علاقے میں کارروائیاں کررہے ہوں۔ امریکہ اگر ہماری خودمختاری اور سرحدوں کی خلاف ورزی کرے ‘ہمارے عالمی حقوق پامال کرے تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر رد عمل کے طور پر ہی سہی ہمارے قبائلی اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کریں تو وہ دہشت گردی ہوتی ہے۔ آصف علی زردای نے صدر مملکت کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ منصب سنبھالنے پر امریکی صدر نے انہیں ٹیلی فون پر مبارکباد بھی دی ہے اور اپنے جذبات اور عزم کا اظہار کرتے ہوئے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ امریکہ نہ صرف پاکستان میں جمہوری حکومت کی بھرپور حمایت کرے گا بلکہ دہشت گردی کے خاتمے سمیت وہ تمام شعبوں میں پاکستان سے تعاون جاری رکھے گا۔ اس طرح دیکھا جائے تو امریکی صدر بش نے آصف علی زرداری کو ایک واضح پیغام بھی دیا ہے کہ اگر وہ قبائلیوں کی قیادت سے کسی طرح کا نرم رویہ یا مذاکرات کی کوشش کریں گے تو پھر امریکہ یونہی براہ راست پاکستانی سرحدوں میں مداخلت کرکے ان کی تمام کوششوں پر پانی پھیرتا اور اپنی ناراضی کا برملا اظہار کرتا رہے گا جبکہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ قبائلی معاملات صرف جرگوں کے ذریعے ہی طے ہوسکتے ہیں ورنہ گولی کا جواب گولی سے آئے گا اور بے گناہ لوگوں کا خون بہتا رہے گا۔ امریکہ کو اس کی قطعی فکر نہیں کہ طاقت کے استعمال سے ہماری کتنی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور امن بحال کرنے میں کتنا وقت درکار ہوگا پھر بھی امن ہوسکے گا کہ نہیں۔ اس کی منصوبہ بندی تو کچھ اور ہی محسوس ہورہی ہے۔ امریکہ کا اصل نشانہ تو خود پاکستان ہے۔ امریکی منصوبہ سازوں نے سوچا ہوگا کہ افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستان تو تر نوالہ ہوگا جب چاہیں گے گھس جائیں گے اور من مانی کارروائیاں کرکے اپنا ہدف پالیں گے۔ نومنتخب حکمرانوں خصوصاً نومنتخب صدر زرداری کو اس وقت ملکی مسائل کے حوالے سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں کہا ہے کہ ” شرپسند ہمارے ملک کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرسکتے “۔ انہوں نے بڑے حوصلے اور بلند عزم کا اظہار کیا ہے جو عوامی امنگوں کے عین مطابق ہے لیکن کیاامریکہ اور نیٹو افواج کا راستہ روکنے والے ہی شرپسند کہلائے جاتے رہیں گے۔ تمام قبائلی جن کے پاس نہ تو نیٹو افواج اور امریکہ جیسا جدید اسلحہ اور سازوسامان ہے اور نہ تربیت یافتہ افرادی قوت ہے۔ ہاں ان میں ایک جذبہ ضرور بھرپور موجود ہے کہ دشمن کو مارو یا مرجاؤ۔ شاید ان کے اسی جذبے نے امریکہ کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ صدر زرداری کو بیک وقت بہت سے چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اب تک کرتے رہے ہیں کہ تمام شرکاء کے ساتھ مل جل کر مشاورت سے قدم اٹھاتے ہیں۔ اگر آئندہ بھی وہ یہی روش قائم رکھیں تو ان پر بوجھ بھی زیادہ نہیں پڑے گا اور قوم بھی متحد رہے گی۔ امریکہ جتنا مرضی ناراض ہوتا رہے لیکن انہیں مقامی طالبان یا عسکریت پسندوں کے ساتھ اپنے مقامی طور طریقوں کو اپناتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے بندوق کی گولی کی جگہ زبانی کلامی اخلاقی ہتھیاروں سے کام لے کر ان مسائل کو حل کرلینا چاہئے۔ ڈائیلاگ کا دروازہ کھلا رکھنا ہوگا اور ڈائیلاگ کے ذریعے ہی بین الاقوامی سطح پر بھی وہ بڑی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ ہر کام کے لیے طاقت کا استعمال ضروری نہیں ہوتا۔ یہ اچھی بات ہے کہ آصف علی زرداری نے متاثرین دہشت گردی کے لیے عالمی فنڈ قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدام اٹھانا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے کشمیر کے بارے میں بھی قوم کو جلد کسی اہم خوشخبری کی نوید سنائی ہے۔ اللہ کرے کہ وہ خوشخبری عوام کے سامنے آئے اور کشمیری عوام پر توڑے جانے والے مظالم کا سدباب ہوسکے۔ صدر صاحب کو یہ بات بھی خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ مہنگائی کے عفریت کے شکنجے میں پھنسے ہوئے عوام اب خالی خولی وعدوں سے نہیں بہل سکیں گے۔ انہیں آٹا ‘ چاول ‘ چینی ‘ گھی ‘ تیل ‘ بجلی ‘ پیٹرول ‘ گیس اور پانی جیسی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مناسب حد تک کمی اور ان کی بھرپور فراہمی ہی دلاسہ دے سکتی ہے۔ سیاسی طور پر اب ملک کی باگ ڈور تمام تر پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں آچکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ بھی پورا آگیا ہے۔ اب اگر حکمرانوں نے صرف وعدوں پر ہی ٹرخانا شروع کیا تو پھر پارٹی اپنی ساکھ کھودے گی۔ اب تک تو بھٹو خاندان کے زور پر پارٹی چلتی رہی ہے۔ پارٹی کا ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے جس کا نام زرداری ہے ۔ پارٹی لیڈروں کو بہت سوچ سمجھ کر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوں گے۔ آج ‘ ابھی یا پھر کبھی نہیں ۔ ذرا سی بھی لغزش انہیں کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے۔ پھر بہت سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حکمرانی سے ان کے خزانے تو بھرسکتے ہیں لیکن سیاست سے ان کے قدم اکھڑ بھی سکتے ہیں۔ اس لیے عوام سے کئے گئے تمام وعدے پورے کرنے ہوں گے۔ روٹی ‘ کپڑا اور مکان کے نعرے کو عملی شکل دینا ہوگی۔ ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں اور عوام کے مسائل جلد از جلد حل کرسکیں، آمین!
تازہ ترین