کان پکڑنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں جو ہم معلومات عامہ کی خاطر بتائے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن یہ راز آشکار کرنے سے پہلے اس کے پریکٹیکل یعنی عملی مظاہرے کے لئے جب ہم جدید دور کے کسی بچے سے کہیں کہ ” بیٹا ! ذرا کان تو پکڑو !“ تو وہ چند لمحوں تک حیرت سے ہمیں دیکھے گا، پھر اچھلے گا اورہمارا دایاں کان پکڑ کر لٹک جائے گا، ممکن ہے وہ کچھ دیر جھولا جھولنے کی کوشش بھی کرے کہ ایسے زریں مواقع بار بار نہیں ملتے بلکہ وہ آواز دے کر محلے کے دوسرے بچوں کو بھی بلا لے گا جو اس بے ٹکٹ تفریح کے لئے قطار بنا کر کھڑے ہو جائیں گے، ہم چیخ پکار کرتے ہوئے کہیں گے ” چھوڑو، چھوڑو! “ مگر وہ جواب میں کہے گا ” انکل ! آپ ہی نے تو کہا تھا !“ اس موقع پر ہمیں فارسی کا وہ محاورہ یاد آ جائے گا کہ ” خود کردہ را علاجے نیست !“ مگر ہم وہ محاورہ اسے یوں نہیں سنائیں گے کہ آج کے بچے فارسی کی جگہ صرف انگریزی جانتے ہیں، اس لئے ہم اسے زور سے دھکا دے کر سر پٹ بھاگیں گے اور اس خطرناک علاقے سے دور نکل جائیں گے پھر اپنا گال سہلاتے ہوئے ہمیں فارسی کی وہ حکایات یاد آئیں گی جن کے اختتام پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا ” سبق “ اور فاضل مصنف اس سبق کے ذریعے یہ بتاتا تھا کہ اس کی حکایت کا مثبت نتیجہ کیا نکلا ہے۔ چنانچہ ہم اپنی اس درد انگیز حکایت کا افسوسناک ” سبق “ معلومات عامہ کے متمنی افراد کے گوش گزار کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر کان پکڑوانے کا درست نظارہ کرنا ہو تو احتیاطاً یہ بتا دینا ضروری ہے کہ فرمائش کرنے والے کا کان ہر گز نہ پکڑا جائے بلکہ جس سے کہا جائے وہ خود اپنا کان پکڑ کر دکھائے کیونکہ بد قسمتی سے یہ سائنسی دور ہے اور آج کے ذہین بچے اس جدید سائنسی انکشاف سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ” پکڑا جانے والا کان ہمیشہ وہ بہتر ہوتا ہے جو دوسرے کا ہو ! “۔
زمانہ بڑی تیزی سے بدلا ہے اور نہ صرف معاشرہ تبدیل ہوا ہے بلکہ بچے بھی، اب ہمارے طبقہٴ اشرافیہ کے بچے مہنگے مہنگے، ایئرکنڈیشنڈ انگریزی اسکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں کوئی عقلمند ٹیچر کسی بدتمیز بچے کے کان نہیں کھینچ سکتا بلکہ بدتمیزی پر صبر کرکے خود ہی ایک سرد آہ کھینچ سکتا ہے کیونکہ اگر وہ اس بچے کو یوں ہی ایک ہلکی سی چپت بھی لگا دے تو بچہ روتا ہوا گھر آ جائے گا اور اگلے دن اس کے ڈیڈی اسکول کے پرنسپل سے کہہ رہے ہوں گے کہ اس ظالم ٹیچر کو ملازمت سے برطرف کر دیا جائے کیونکہ اس نے ان کے بچے پر ” تشدد “ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی اسکولوں کے سہمے ہوئے ٹیچر بچے کو کبھی ڈانٹتے بھی ہیں تو اتنے پیار سے جیسے دس سال پہلے مرے ہوئے اس کے پھوپھا کی وفات پر تعزیت کا اظہار کر رہے ہوں۔
ان اشرف المخلوقات قسم کے ماڈرن والدین نے کبھی اپنے بچوں کو بتایا ہی نہیں ہے کہ جب وہ خود بچے تھے تو تعلیم کا انداز کیا ہوا کرتا تھا۔ آپ آج کے کسی انگریزی اسکول میں پڑھے ہوئے بچے سے پوچھئے ” بیٹے ! آپ نے کبھی تختی لکھی ہے؟“ تو وہ حیران ہو کر پوچھے گا ” تختی کیا ہوتی ہے؟“
پھر آپ اسے بتائیے کہ تختی لکڑی کی ایک مستطیل چیز ہوتی تھی۔ وہ حیران ہو کر کہے گا ” مستطیل “!!!؟ "What do you mean?"
آپ انگریزی میں بتائیے "Rectangle"، وہ فلسفیانہ انداز میں سر ہلائے گا مگر تختی کا صحیح نقشہ اس کے ذہن میں نہیں آئے گا۔ اب آپ اسے بتائیے کہ لکڑی کی اس مستطیل چیز پر کھریا مٹی یعنی ” گاچی “ کا لیپ کیا جاتا تھا۔ وہ حیران ہو کر پوچھے گا ” واٹ گاچی؟ “ بہتر ہے کہ بات کو یہیں ختم کر دیجئے ورنہ اسے بتانا پڑے گا کہ گاچی کے لیپ سے تختی پر پہلے کا لکھا ہوا مٹ جاتا تھا اور گیلی تختی کو سکھانے کے لئے اس زمانے کے بچے جو تختی کو پیار سے پھٹی کہتے تھے، پھٹی کو ہوا میں لہرا کر یہ نغمہ گایا کرتے تھے
” پھٹیے پھٹیے سکھ جا
کالا چور آیا جے
ڈنڈا لے کر آیا جے “
تختی خوفزدہ ہو کر ذرا سی دیر میں سوکھ جاتی تھی، اس زمانے کی تختیاں کالے چور سے ڈرا کرتی تھیں اور بچے ماسٹر صاحب سے خوفزدہ ہوا کرتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے کے ماسٹر صاحب کی شکل صدر بش سے ملتی تھی یا استانیاں کونڈالیزا رائیس جیسی ہوتی تھیں جنہیں دیکھتے ہی لرزہ طاری ہو جائے بلکہ وہ سب عام انسانی شکل و صورت کے لوگ ہوتے تھے لیکن اسکول کے نظام میں حفظ مراتب ایسا تھا کہ بچے اپنے بڑوں سے بد تمیزی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ کر ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ سزا کا خوف بھی ہوتا تھا۔ وہ سب کے سب بچے فرشتہ سیرت، نیک خصلت اور حسن اخلاق کا پیکر نہیں تھے۔ غلطیاں ان سے بھی سرزد ہوتی تھیں، کچھ ایسے کام چور نالائق بھی نکلتے تھے جو ہوم ورک پورا کرکے نہیں لاتے تھے چنانچہ بید زنی سے لے کر چپت اندازی تک خیر سگالی کے تمام جذبات کا اظہار ان سے کیا جاتا تھا مگر مجال ہے جو ” ڈیڈی “ قسم کا کوئی ابّا اسکول جا کر پرنسپل سے شکایت کرتا کہ ” جناب ! ہمارے بچے پر تشدد کیا گیا ہے۔ ہم اپنے بچے کو اسکول بھیجتے ہیں، گوانتاناموبے نہیں بھیجتے ! “ اس زمانے کی مروجہ سزاؤں میں کان پکڑوانا ایک پسندیدہ طریقہ سمجھا جاتا تھا چنانچہ ہوم ورک کر کے نہ لانے والے بچے کو حکم دیا جاتا کہ وہ کان پکڑ کر توبہ کرے اور وعدہ کرے کہ آئندہ مکمل ہوم ورک کر کے لائے گا۔ یہ کان پکڑنے کا پہلا درجہ تھا یعنی نمبر ایک !
دوسرے طریقے کا موجد ہونے کا فخر خود ہمیں حاصل ہے۔ ایک دن ہوا یہ تھا کہ پیریڈ خالی تھا، ہماری چوتھی کلاس کے بچوں نے ہم سے فرمائش کر دی کہ چونکہ ہمیں فن موسیقی میں یدِ طولیٰ حاصل ہے اور ویسے بھی ہماری سریلی آواز ملکہٴ موسیقی روشن آرا بیگم سے بہت ملتی ہے۔ اس لئے ہم کوئی دل پذیر نغمہ گا کر کلاس کی فضا کو نغمگی سے لبریز کر دیں چنانچہ بہت اصرار کرانے کے بعد ہم مان گئے اور ٹیچر کی خالی کرسی پر بیٹھ کر، میز پر طبلہ بجاتے ہوئے ہم نے اس زمانے کا یہ مشہور و مقبول نغمہ چھیڑ دیا کہ
جیا بے قرار ہے، چھائی بہار ہے
آ جا مورے بالما تیرا انتظار ہے
بس اچانک … دروازہ دھڑام سے کھلا اور بالما اندر آ گیا ! یہ ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب تھے ! (جاری ہے)