• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیکسپئر کی کہی ہوئی صدیوں پرانی بات ۔۔۔گلاب کو کسی نام سے بھی پکاریں وہ گلاب ہی رہے گا۔ اب ایک باسی کہاوت سی بن گئی۔ میرے حساب سے تو اس گھسے پٹے فارمولا یا کہاوت کو اب دفن کردینا چاہئے کہ شیکسپئر کے عہد کی انگریزی بھی اب دم توڑ چکی ہے۔ لیکن کچھ لوگ ابھی بھی گئے زمانے کے لوگوں کو پالنے پوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب محض نام پکارنا مطلوب نہیں ہے بلکہ نام رکھنا، نام دینا، نام لینا، نام لکھنا وغیرہ وغیرہ کا بھی اپنا ایک مقام ہے اب یہی دیکھ لیجئے مرحوم چوہدری ظہور الٰہی کو کسی مداح نے ’’اللہ کا سپاہی‘‘ کہہ کر پکارا تو یہی ان کی عرفیت بن گیا۔ ان کا نام پڑ گیا۔
1970کے انتخابات کا واقعہ ہے لاہور کے ایک حلقے میں چوہدری ظہور الٰہی کی کنونسنگ ہورہی تھی۔ راتوں رات دیواروں پر بڑے بڑے اور جلی حروف میں ان کے لئے یہ انتخابی نعرہ تحریر کیا گیا۔
’’چوہدری ظہور الٰہی ۔ اللہ کا سپاہی‘‘۔۔۔ ظاہر ہے، یہ محض سیاسی و انتخابی درفطنی تھی، اور ووٹروں کو صحیح یا غلط طور پر متاثر کرنے کے لئے اللہ کے سپاہی کے حوالے سے چوہدری صاحب کا قدکاٹھ بلند کیا گیا تھا۔ لیکن ہوا یوںکہ اگلی ہی رات کو کسی ستم ظریف نے ہرجگہ جہاں بھی اللہ کا سپاہی لکھا ہوا تھا اس سے آگے بریکٹ میں (ریٹائرڈ) لکھ دیا اور یہ تبدیلی لاہوریوں کی تفریح طبع کا سامان بن گئی۔ چوہدری ظہور الٰہی۔اللہ کا سپاہی (ریٹائرڈ)۔۔ابراہیم جلیس مرحوم، ایک بار لاہور آئے تو ادا کارہ عالیہ نے انہیں دعوت دی جس میں بہت سے شاعر ادیب اور فلمی دنیا سے متعلق لوگ شریک ہوئے۔ جب کھانے پینے کا دور چلا تو مصروف نغمہ نگار ریاض الرحمن ساغر نے ابراہیم جلیس سے کہا ’’جلیس صاحب ذرا وہاں سے ایک چمچی تو عنایت کردیجئے‘‘۔ جلیس نے کہا ہاں ہاں لیجئے صاحب۔۔۔ یہ چمچی لیجئے۔ اور اس کے ساتھ ایک انڈی بھی لیجئے‘‘۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ میرے دوست ریاض الرحمن ساغر نے پھر زندگی بھر چمچ کو چمچی کے نام سے نہیں پکارا ہوگا۔اب اپنے ہمسائے کے بارے میں ایک واقعہ سنئے۔
سابق صدر جمہوریہ ہند گیانی ذیل سنگھ اپنے آپریشن کے لئے امریکہ گئے وہاں وہ ٹیکساس کے اسپتال میں تھے جس میں ان کے پیش رو سنجیواریڈی بھی زیر علاج رہ چکے تھے۔ جب وہ آپریشن تھیٹر میں لے جائے گئے تو چیف سرجن نے موصوف سے پوچھا ’’Are You Ready‘‘ کیا آپ تیار ہیں۔۔۔۔گیانی ذیل سنگھ نے اس کے جواب میں کہا No I am not Reddy. I am Zail Singh.
’’میں ریڈی نہیں ہوں، میں ذیل سنگھ ہوں‘‘۔
ایک بار علما میں بحث چل رہی تھی کہ اجمیر شریف ، تونسہ شریف، بغداد شریف وغیرہ لکھنا جائز ہے یا ناجائز۔۔۔ بعض علما اس کے مخالف تھے اور بعض موافق۔ بات جب بہت بڑھ گئی اور فیصلے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو یہ معاملہ مولوی نذیر احمدکے سامنے رکھا گیا اور اس سلسلے میں ان کی رائے دریافت کی گئی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’اگرمزاج شریف کہنےمیں کوئی مضائقہ نہیں تو پھر اجمیر شریف یا بغداد شریف بھی کہنا درست ہے‘‘۔
قیام پاکستان سے قبل کا واقعہ ہے کانگریس کے مشہور لیڈر جو بعدمیں ہندوستان کے مشہور لیڈر اور کانگریس کے صدر بھی رہے شری سیتا رام تھے۔ موصوف یوپی کے کسی شہر میں مشاعرے کی صدارت کررہے تھے اسی مشاعرے میں معروف ظرافت نگار ظریف لکھنوی بھی شاعروں میں شامل تھے۔ جب ان کی باری شعر سنانے کی آئی تو انہوں نے صاحب صدر کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا۔
نر ہے یا مادہ عجب ترکیب ہے اس نام کی
کچھ حقیقت ہی نہیں کھلتی ہے سیتا رام کی
سامعین کی کیا حالت ہوئی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ صدر مشاعرہ نے آئندہ کسی مشاعرے میں شرکت سے توبہ کرلی۔ کہتے ہیں کہ ایوب خان کے دورِ حکومت میں جب ایک کم پڑھے لکھے شخص نے صدر پاکستان ایوب خان کو خط لکھا اور لفافے پر ان کا نام ایوب خان کی بجائے ’’عیوب خان‘‘ صدر پاکستان لکھ دیا تو یہ خط سنسر والوں کے ہاتھ آلگا انہوں نے فوراً خفیہ ایجنسی کے حوالے کردیا اور اس بات کی تحقیقات ہوتی رہی کہ ایوب خان کو عیوب خان لکھنے والے کے پیچھے کون کون تخریب کار اور دہشت گرد شامل ہیں اور ان کا مقصد کیا ہے۔ اب ایک واقعہ نام کی اہمیت اور ہم نام ہونے کے بارے میں سنئے۔ اس کے راوی معروف صحافی حمید اختر مرحوم تھے وہ بتاتے ہیں 1981 کا واقعہ ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں ہم تقریباً ستر نظر بندوں کے ساتھ اداکار حبیب بھی نظر بند تھے۔ ان کی گرفتاری کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی اس لئے کہ تمام گرفتار شدگان کو زیادہ تر پیپلز پارٹی کے عہدیداروں یا ہمدردوں سے موافقت کی وجہ سے پابند سلاسل کیا گیا تھا اداکار حبیب کا تعلق پارٹی کے مخالفوں سے تھا اور وہ چوہدری ظہور الٰہی اللہ کا سپاہی کے امیدوار کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کے خلاف انتخاب بھی لڑ چکے تھے۔ بہرحال بیس روز بعد ایک دن انہیں جیل سے مارشل لا کے دفتر بلایا گیا اور بتایا گیا کہ حبیب الرحمن ولد عبدالرحمن نامی ایک شخص کی جگہ جو گوجرانوالہ میں پیپلزپارٹی کا کارکن ہے اداکار حبیب کو غلطی سے گرفتار کرلیا گیا تھا کیونکہ ان کا نام حبیب ہونے کے علاوہ ان کے والد کا نام بھی عبدالرحمن ہے چنانچہ انہیں تین ہفتوں کے بعد رہا کردیا گیا۔
پیارے قارئین تو کیا آپ اب بھی شیکسپئر کی یہ بات کہ نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو کسی نام سے بھی پکاریں وہ گلاب ہی رہے گا۔
دل کو کعبہ کہہ رہا ہوں بات سمجھا کیجئے
میرا مطلب ہے کسی کا دل نہ توڑا کیجئے
تازہ ترین