• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو زیادہ تر مبصرین اس کی توقع نہیں کررہے تھے اور اب انھوں نے صف ِ ماتم بچھا لی ہے ۔ امریکی انتخابات کی پاکستانی کوریج نے حماقت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان معاملات میں ہمارا حریف دور دور تک کوئی نہیں۔ امریکی پولز نے جو کچھ بھی کہا، پاکستان میڈیانے من و عن اپنا لیا۔ اب ان کے چہرے سے صدمے کی پرچھائیاں ٹلنے کا نام نہیں لے رہیں جیسے ان کا کوئی ذاتی نقصان ہوگیا ہو۔
انتخابات سے ایک دن پہلے ایک ٹی وی ٹاک شو میں ، میں نے پنے دو سابق وزرائے خارجہ کو اس موضوع پر بات کرتے سنا۔ اگر کہوں کہ تبصرہ کررہے تھے تو درست نہ ہوگا، وہ مسند ِ ارشاد سے مس کلنٹن کی کامیابی کا حتمی فیصلہ سنا رہے تھے ۔ پھر اُنھوںنے چہرے پر نہایت سنجیدہ تاثرات طاری کرتے ، بیچاری پیشانی کو انتہائی شکن آلود کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں ٹرمپ کی صدارت سے ڈراتے ہوئے ہٹلر اور پتہ نہیں خدا جانے اور کون کون سے حوالے استعمال کیے ۔پاکستانیوں کی ہیلری کلنٹن سے محبت نما عقیدت کی وجہ سمجھ سے باہر ۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتیں تو ہم کس کی امید کررہے تھے ؟ ہم کس چیز کا جشن منانے جارہے تھے ؟
ٹرمپ کو ایک شیطانی طاقت اور خطرناک روح کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ ان بقراطوں کی دانائی پر عقل مائوف تھی کیونکہ حقائق اس کے برعکس تھے ۔ یہ ٹرمپ تھے جنہوں نے عراق جنگ پر تنقید کی ۔ اُنھوں نے دوٹو ک الفاظ میں ، کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر، ان غیر ملکی مہموں میں امریکہ کے ملوث ہونے کی مخالفت کی ۔ سچی بات یہ ہے کہ ’’ جنگی چیمپئن‘‘ مس کلنٹن تھیں، جنہوں نے مشرق ِوسطیٰ کی تینوں جنگوں، عراق، شام اور لیبیا، کی حمایت یا ان میں معاونت کی ۔اگر کسی ایک شخص کو لیبیا کی تباہی اور وہاں پھیلنے والی شورش پسندی کا ذمہ دار قرار دیا جاناہو تو وہ سیکرٹری کلنٹن کے سوا اور کوئی نہیں کیونکہ اُنھو ں نے ہی اوباما انتظامیہ کو یہ راہ دکھائی تھی۔ زیادہ تر اسلامی دنیا اور امریکہ میں مقیم مسلمان تارکین ِوطن ان حقائق کو نظر انداز کرگئے ۔ ہم مسلمان مہاجرین کے خلاف ٹرمپ کے بیانات پر برہم ہوتے رہے لیکن ہیلری کلنٹن کی جنگوں کی حمایت نے ہمیں کبھی پریشان نہ کیا۔
امریکی انتخابی نتائج کے حوالے سے حماقت میں صر ف ہم ہی یکاونتہا نہیں، انتخابات سے دودن پہلے ، اتوار کو میں اسلام آباد میں ہونے والے ایک لنچ میں تھا۔ بہت ہی شاندار جگہ تھی، سامنے پہاڑوں کو دلکش نظارہ تھا، اور وہاں امریکی سفارت خانے کا تقریبا تمام سیاسی سیکشن موجود تھا۔ بلاامتیاز تمام مردو زن اس بات کے قائل تھے کہ امریکہ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون امریکی صدر بننے والی ہے ۔ خالص مشروب کے چند ایک گلاس نوش جان کرنے کے بعد راقم الحروف نے ٹرمپ کی ممکنہ صدارت کی خوبیاں گنواتے ہوئے کہا کہ کس طرح اس کا دنیا کے بہت سے حصوں پر خوشگوار اثر پڑے گا، کم از کم جنگ زدہ مشرق ِوسطیٰ کے لئے یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔ اس پر زیادہ تر نظروں نے مجھے غیر یقینی انداز میں دیکھنا شروع کردیا جیسے وہ میری بات ہضم کرنے کے قابل نہ ہوں۔ اُن میں سے ایک دو نے اردگرد پہاڑیوں پر نظردوڑاتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں وہ اسلام آباد میں جائیداد خرید نا چاہیں گے ۔ مجھے یقین ہے کہ اب وہ اپنی رائے تبدیل کرتے ہوئے حقائق کے ساتھ سمجھوتہ کرچکے ہوںگے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اس دن کا انتظار کررہاہوں ، اور مجھے یقین ہے کہ ایسا جلد ہی ہوگا، جب وہ مجھے ملیں اور بتائیں کہ کس طرح ٹرمپ کی کامیابی امریکی ڈریم کا جیتا جاگتا اظہار ہے ۔
مجھے رونالڈ ریگن کے پہلی مرتبہ کے انتخابات یاد ہیں۔ اُس وقت میں اسلام آبا د سے نکلنے والے اخبار ’’مسلم ‘‘ کا اداریہ نویس تھا۔ اُس وقت ہر جگہ، بشمول امریکی میڈیا ، یہ بات کی جارہی تھی کہ ریگن ایک گھٹیا سی فلم کے اداکار ہیں ۔ تاہم اس کے بعدسے آج تک اُنہیں بیسویں صدی کا سب سے کامیاب امریکی صدر قرار دیا جاتاہے ۔ اُن کے کریڈٹ پر دیگر کامیابیوں کے علاوہ امریکہ کے سب سے بڑ ے حریف، سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرنا بھی ہے ۔ اگرچہ اس کی وجوہ میں امریکہ کا حصہ کم اور اندرونی تباہ کن عنصر ( میخائل گوربا چوف) کا عمل دخل زیادہ تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ آج ٹرمپ کی کامیابی پر مختلف مقامات پر جو صف ِ ماتم بچھی ہوئی ہے ، اس کی وجہ امریکی میڈیا ہے جس نے ٹرمپ کو غلط سمجھا ۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میںٹرمپ کا یہی تاثر قائم رہے ۔
ٹرمپ کو احمق بنانا مشکل ہے ، احمق عام طور پر اپنی محنت سے ارب پتی نہیں بن سکتے ، اور نہ ہی امریکی صدر۔ جارج بش کی بات البتہ اور ہے کیونکہ وہ اپنے سے زیادہ چالاک افراد، ڈک چینی اور رمزفیلڈ کے ہاتھوں احمق بن گئے تھے ۔ اگرچہ ایک عظیم لکھاری، ایچ ایل مینکن (H. L. Mencken) کہا کرتے تھے کہ یہ اصول بھی حتمی نہیں ۔ ذرا یاد کریں کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سماجی طور پر کتنی نارواباتیں کیں، جن سے اجتناب کیا جانا چاہئے تھا، توہین آمیز رویے کا اظہار کیااوربازاری باتیں کیں، لیکن آخر میں کامیاب رہے۔ ایک عام شخص کے منہ سے نکلے ہوئی یہ باتیں اُس کا کیرئیر تباہ کرسکتی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی میڈیا سے ’’پنگا‘‘ لے لیا۔ امریکی سیاست میں ایسا کس نے کیا تھا؟ایک موقع پر اُنھوں نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان غیر جانبدار رہیں گے ۔ امریکی سیاست میں یہ بات کہنا کیا اپنے پائوں پر کلہاڑ ا مارنے کے مترادف نہیں؟اُنھوں نے اپنی ہی جماعت، رپبلکن پارٹی کے روایتی تصورات، جیسا کہ برتھ کنٹرول اور آزادتجارت کی مخالفت کی۔ درحقیقت ٹرمپ نے رپبلکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی تصادم کی راہ اپنائے رکھی ، اس کے باوجود وہ نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ اس دوران وہ پیوٹن کے بارے میں کچھ معقول باتیں بھی کرتے رہے ۔ تاہم امریکی صدارتی مہم کے دوران یہ سب کچھ سیاسی خودکشی کا ایک بھرپور پیکج تھا، اور یہاں ہماری آنکھوں کے سامنے ٹرمپ فاتحانہ طور پر وائٹ ہائوس میں داخل ہورہے ہیں۔
دوسری طرف ہیلری کلنٹن کی طرف دیکھیں۔ اُن کے پاس کہنے کے لئے نئی بات کوئی نہ تھی۔ وہ بے کیف اور روایتی جملے بول رہی تھیں۔ سب جانتے ہیں کہ وہ کس موقع پر کیا کہیں گی ، ان کے بارے میں اندازہ لگانا آسان تھا۔ اور ان کے بارے میں لگایا گیا حتمی اندازہ اچھا نہ تھا۔ زیادہ تر رائے دہندگان صنعتوں کی بندش، بے روزگاری اور مالی مسائل کی وجہ سے پریشان اور ناراض تھے ۔
امریکیوں کی فی کس اوسط آمدن میں 1999 کے بعد سے اضافہ نہیں ہوا ۔ وہ اس گراوٹ پر اپنی اسٹیبلشمنٹ اور گلے سڑے سیاسی نظام کو برا بھلا کہتے ہوئے نئی پیش رفت پر کمر بستہ ہوگئے ۔ ٹرمپ کی کامیابی ایک پیش رفت ہے اور امریکی ووٹروںکی یہ سوچ فیصلہ کن ثابت ہوئی ۔ جہاں تک تاریخ کے فیصلے کا تعلق ہے تو اس کے لئے اگلے چار سال کا انتظارکرنا پڑے گا۔ بہرحال جو بھی ہو، یہ ایک دلچسپ اور رنگین دور ہوگا۔ مس کلنٹن کی کامیابی کی صورت میں امریکہ بے کیف اور بوریت سے لبریز ہوجاتا، ٹرمپ نے اس میں زندگی کی حرارت بھردی ہے ۔ اس دوران بہتر ہے کہ ہم اپنا ہوم ورک کرلیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کے باد نما کی سمت کلنٹن کی کامیابی کی طرف تھی، لیکن اب ہم نے اسے تبدیل کرنا ہے ۔ ہمیں بچگانہ حرکتوں سے اجتناب کرتے ہوئے ایک معقول اوردانا قوم بننا ہے، اپنی ترجیحات درست کرنی ہیں۔ اس دوران اگر، اور جب امریکی توجہ افغانستان کی طرف ہوئی تو ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے اس پر سرمایہ کاری رقم کا زیاں سمجھے گی۔ ہوسکتا ہے کہ اس بحث میں کہیں پاکستان کا بھی ذکر آجائے ۔


.
تازہ ترین