• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تمام ایکسپورٹرز ایسوسی ایشنز نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر تجارت کو میٹنگ میں پاکستان کی گرتی ہوئی ایکسپورٹس کی وجوہات پر مختلف پریذنٹیشن اور تجاویز پیش کیں جس میں ڈینم پر میری پریذنٹیشن بھی شامل تھی۔ دو روزہ میٹنگ میں فیڈریشن کے صدر میاں محمد ادریس، TDAP کے CEO ایس ایم منیر، ایف بی آر کے چیئرمین طارق باجوہ، وزیراعظم کے ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد اور اعلیٰ حکومتی عہدیدارشریک تھے۔ اس موقع پر ایکسپورٹرز نے بجلی، گیس کی قیمتوں اور اجرتوں میں اضافے، ایکسپورٹ پر بلاواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ سے مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافے کو ملکی ایکسپورٹ میں کمی کی وجہ قرار دیا لیکن روپے کی قدر میں کمی کرنے پر ایکسپورٹرز منقسم نظر آئے۔ جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ دنیا کی کرنسیوں میں 4% سے 47% کمی ہوئی ہے جس میں بنگلہ دیش، سری لنکا، چین، آسٹریلیا، کینیڈا اور روس سمیت 20 ممالک نے اپنی کرنسیوں میں کمی کی ہے لیکن پاکستانی کرنسی کی قدر کم ہونے کے بجائے مستحکم ہوئی ہے اور نتیجتاً ایکسپورٹرز کو ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کم روپے ملتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کا یہ کہنا تھا کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کم از کم 4% سے 5% کمی کی جائے تاکہ ہماری قیمتیں مقابلاتی بن جائیں جس سے ملکی ایکسپورٹس میں اضافے ہوگا۔ چین اور خطے کے دیگر ممالک کی کرنسیوں کی قدر میں کمی اور گرتی ہوئی ایکسپورٹ کے پیش نظر حکومتی رضامندی کے باعث پاکستانی روپے کی قدر میں اب تک 4%کی کمی ہوچکی ہے اور انٹربینک میں ڈالر 106 روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔
معیشت کے طالبعلم ہونے کے ناطے میری رائے میں روپے کی قدر میں مزید کمی کا مطالبہ ہماری معیشت کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا اور ڈی ویلیوایشن کرنے سے ملکی ایکسپورٹ میں اضافے کا امکان بھی نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ماضی میں جب بھی روپے کی قدر میں خاطر خواہ ڈی ویلیوایشن کیا گیا تو اس کا فائدہ بیرونی خریداروں کو پہنچا جنہوں نے ڈی ویلیو ایشن کا فائدہ ڈسکائونٹ کی شکل میں ہمارے ایکسپورٹرز سے مانگ لیا۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں کمی کرنے سے بجٹ میں غیر ملکی قرضے اتنے ہی تناسب سے بڑھ جاتے ہیں جو بجٹ خسارے میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
روپے کی قدر میں اب تک 4% کمی سے ہمارے موجودہ 65 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں 4% اضافہ ہوگیا ہے جو ملک پر قرضوں کا اضافی بوجھ ہے۔ پاکستان کی امپورٹس، ایکسپورٹس کے مقابلے میں زیادہ ہیں، ہماری موجودہ ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر ہیں جس کے مقابلے میں امپورٹس 45 ارب ڈالر ہیں جس کی وجہ سے ہمارا تجارتی خسارہ 20 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ روپے کی قدر مزید کم کرنے سے ہماری امپورٹس مہنگی ہوجائیں گی جس کا اثر عام آدمی پر پڑے گا اور مہنگائی یعنی افراط زر میں اضافہ ہوگا لہٰذا میرے خیال میں روپے کی قدر میں مزید کمی کرنا بلاجواز ثابت ہوگا۔ ہمیں ملکی ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے دراصل اپنی پیداواری لاگت میں کمی لانا ہوگی۔
میرے ساتھ اپٹما کے چیئرمین ایس ایم تنویر، TDAP کے CEO ایس ایم منیر، بزنس کمیونٹی کے لیڈر افتخار علی ملک، فیڈریشن کے صدر میاں محمد ادریس، سینئر نائب صدر رحیم جانو اور زبیر طفیل نے پاکستان میں بجلی اور گیس کے نرخوں کا خطے کے ممالک سے موازنہ پیش کرتے ہوئے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت سرچارج ملاکر 14.4 سینٹ فی کلو واٹ ہے جبکہ چین میں 8.5 سینٹ، بھارت میں 11.3 سینٹ، سری لنکا میں 9.2 سینٹ اور بنگلہ دیش میں 7.3 سینٹ فی کلو واٹ ہے۔ اسی طرح گیس کی قیمت پاکستان میں 6.72MMBTU، بھارت میں 4.66، بنگلہ دیش میں 1.86، سری لنکا میں 3.66، ویت نام میں 4.33 فی MMBTU ہے اور اس طرح ہم بجلی اور گیس کے نرخوں میں خطے میں سب سے مہنگے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے نرخ خطے اور مقابلاتی حریفوں میں سب سے کم ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں مزدور کی اجرتیں پاکستان کے مقابلے میں آدھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹس ایکسپورٹس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور آج بنگلہ دیش کی گارمنٹس ایکسپورٹس 26 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہیں جو پاکستان کی سالانہ مجموعی ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔
پاکستان فاریکس ایسوسی ایشن کے عہدیدار ملک بوستان نے بھی اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ حکومت کا روپے کی قدر میں کمی کرنا عارضی عمل ہوگا جس سے ایکسپورٹس میں مطلوبہ اضافہ ممکن نہیں۔ پیداواری لاگت میں کمی کیلئے حکومت کو ایکسپورٹرز کے ایف بی آر کے پاس اربوں روپے کے سیلز اور انکم ٹیکس ریفنڈ کو ترجیحی بنیادوں پر واپس کرنے ہوں گے تاکہ ایکسپورٹرز کی لیکویڈیٹی بہتر ہوسکے۔ اس کے علاوہ ایکسپورٹرز کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کیلئے انہیں مقابلاتی ممالک کی طرح ربیٹ (Rebate)بھی دیا جائے۔ میں نے اپنے کالموں میں متعدد بار کہا ہے کہ یوٹیلیٹیز دنیا میں کہیں بھی ریونیو حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہوتیں اور انہیں مقابلاتی رکھا جاتا ہے لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ وہ گیس کے نرخوں پر عائد نئے GIDC سرچارج میں کمی کرے تاکہ ہماری صنعت کے گیس نرخ خطے کے ممالک سے مقابلاتی رہیں۔
پوری دنیا میں ایکسپورٹس زیرو ریٹڈ ہوتی ہیں اور اس پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا جبکہ پاکستان میں ایکسپورٹس پر 5% سے 6% ان ڈائریکٹ ٹیکسز عائد ہیں۔ ہمیں بھی ملکی ایکسپورٹ کو زیرو ریٹڈ بنانا ہوگا۔مقامی صنعتوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ بھارت اور دیگر ممالک سے سستی مصنوعات امپورٹ اور اسمگل کرنے کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ مقامی صنعت متاثر نہ ہو۔ ہمارے برادر ملک ترکی نے اپنی مقامی ٹیکسٹائل صنعت کو تحفظ دینے کیلئے چند سال پہلے 18% اضافی کسٹم ڈیوٹی نافذ کی تھی جس کی وجہ سے پاکستان سے ترکی ڈینم ایکسپورٹ پر اب مجموعی 24% کسٹم ڈیوٹی ہوگئی ہے جس کے باعث ترکی کو ہماری ڈینم فیبرک کی ایکسپورٹس نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں لیکن ترکی کے اس اقدام سے ان کی ڈینم صنعت بحران کا شکار ہونے سے بچ گئی۔ ترکی اپنی مقامی ٹیکسٹائل صنعت کے دبائو پر پاکستان کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدے (PTA) میں ٹیکسٹائل مصنوعات کو شامل کرنا نہیں چاہتا۔ ہمیں بھی ترکی کی طرح اپنی مقامی صنعت کو تحفظ دینے کیلئے ایسے ہی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری صنعتوں کو بھی بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلاتی رہنے کیلئے ویلیو ایڈیشن کے ذریعے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا۔ زراعت کے ان شعبوں جن کا براہ راست تعلق صنعت سے ہے، میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے ذریعے ان کی پیداواری صلاحیت کو بھی بڑھانا ہوگا۔ افسوس کہ کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود ہماری کاٹن کی پیداوار اب بھی 12 سے 13 ملین بیلز سالانہ سے زیادہ نہیں بڑھ سکی ہے جبکہ بھارت نے اس عرصے میں کاٹن کے بیجوں میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ذریعے اپنی کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سے بڑھاکر 36 ملین بیلز کرلی ہے۔ یاد رہے کہ ایک ملین بیلز خام کاٹن کی عالمی مارکیٹ میں قیمت ایک ارب ڈالر ہوتی ہے جس میں 3 یا 4 گنا ویلیو ایڈیشن کرکے ہم 3 سے 4 ارب ڈالر کی اپنی ایکسپورٹ بڑھاسکتے ہیں لیکن ہم نے اپنی معیشت کے سب سے اہم زراعت اور مینوفیکچرنگ سیکٹرز پر خاص توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج یورپی یونین سے ڈیوٹی فری جی ایس پی پلس مراعات ملنے کے باوجود انٹرنیشنل مارکیٹس میں ہمارا ایکسپورٹس شیئر کم ہوتا جارہا ہے اور ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت جو سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرتی ہے، جمود کا شکار ہے۔ وزارت ٹیکسٹائل کا طویل عرصے سے کوئی وزیر نہیں اور اطلاعات ہیں کہ وزارت ٹیکسٹائل کو دوبارہ وزارت تجارت میں ضم کیا جارہا ہے جبکہ بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں ٹیکسٹائل کی فعال وزارتیں اپنی ایکسپورٹس بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ میری وزیراعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ ٹیکسٹائل صنعت جس کا ملکی ایکسپورٹس میں 50% سے زائد حصہ ہے، کو بدحالی کا شکار ہونے سے بچائیں۔
تازہ ترین