• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال عوام کی خود پر اپنی حکمرانی کا ہے۔ ہنوز تشنۂ تکمیل! مقامی خود حکومتی کے تجربات کو ایک صدی ہو چلی۔ اب تک ہر حکمران کی یہی خواہش رہی ہے کہ اختیار اُس کے ہاتھ سے کہیں عوام کی جانب نہ کھسک جائے۔ اختیار و اقتدار، ریوڑیاں تھوڑی ہیں، جو عوام میں بانٹ دی جائیں۔ بھلا اقتدار پر قابض استحصالی اور اجارہ دار طبقے، جمہوری حکمرانی کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے پر کیوں راغب ہوں گے۔ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کا ورد کرنے والے بھی اور ’’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا‘‘ والے بھی! غیر جمہوری حکمرانوں نے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہوئے، مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے میں جو فیاضی دکھائی وہ صرف اس لئے کہ وفاقی و صوبائی سطح پر عوامی اقتدار کی تطہیر کی تشفی کی جا سکے۔ انہی غیرسیاسی نرسریوں سے وہ ’’سیاسی‘‘ کھیپیں تیار کی گئیں جو جمہوری تحریکوں کا زور توڑنے میں کام آئیں۔ پنجاب کی آج کل کی دو مدمقابل جماعتیں اُنہی ’’غیرسیاسی‘‘ ممبروں پر مشتمل ہیں یا پھر اُن کی باقیات ہیں۔ اس سے جمہوری جماعتیں کچھ ایسی بدکیں کہ وہ مقامی حکومتوں سے ہی تائب ہو گئیں۔لیکن، عدم مرکزئیت، وفاقیت، صوبائی خودمختاری، مقامی حقِ حکمرانی اور شراکتی جمہوریت وہ اہم مسئلہ رہا ہے جو برصغیر اور پاکستان کی تقسیم اور ہماری سیاسی تاریخ کے مدوجزر کا باعث رہا ہے۔ 1935 کا ایکٹ، وائسرائے/ گورنر جنرل کی مرکزیت پاکستان کی گھٹی میں اتنی داخل ہوئی کہ گیارہ برس گورنر جنرلز کی لایعنیوں میںگزر گئے اور اُس کی جگہ لی بھی تو اُس سے بڑھ کر زور دار چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز نے جو بار بار آتےرہے۔ جمہوریت، وفاقیت اور صوبائی حقوق کے لئے کئی نسلیں مر کھپ گئیں اور کہیں اب جا کر اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی اکائیوں کو کچھ اقتدار منتقل ہوا۔ لگتا ہے معاملہ یہیں پر اٹک کر رہ گیا ہے۔ آپ عوامیت پسند ہیں، یا قوم پرست یا پھرمذہبی، عوام کے مقامی حقِ خودحکمرانی پہ سبھی بہانے تراشتے دکھائی دیتے ہیں۔ کون سے حیلے بہانے ہیں اور کون کون سے نسخے ہیں کہ جو ایجاد نہیں کئے گئے تاکہ اقتدار و اختیار صوبے سے ضلع اور پھر مقامی سطح پر منتقل نہ ہو۔
شکریہ! عدالتِ عظمیٰ تیرا! ورنہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے پر کہاں راضی تھیں؟ حالانکہ ووٹ کم ہی پڑے، بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کی حکومت اس معاملے میں سب سے آگے رہی۔ پھر خیبرپختون خوا میں ’’نئے پاکستان‘‘ کی نوید دینے والوں نے ایک نیم بااختیار مقامی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ مگر، پنجاب ہو یا سندھ، مقامی خودمختاری پر دونوں ناک بھوں چڑھاتے نظر آئے۔ اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سوہانِ روح بنی لگتی ہے۔ ان دونوں صوبوں میں حکمراں جماعتیں اپنی جیت کیلئے جو بھی کر سکتی تھیں، ببانگِ دہل کر پائیں۔ سندھ میں تو مقامی انتخابات پیپلز پارٹی کے وڈیروں کے مابین رسہ کشی تک محدود رہے یا پھر متحدہ قومی موومنٹ کا شہری حلقوں میں قبولیت کا امتحان۔ پنجاب میں گو پلڑا مسلم لیگ نواز کے حق میں بھاری رہا، لیکن تحریکِ انصاف نے گلی گلی ڈنکے کی چوٹ پر مقابلہ کر کے خود کو ایک زور دار متبادل بنا لیا ہے۔ ڈھونڈنے کو اگر ملی نہیں تو وہ ہے جماعتِ اسلامی یا پھر پیپلز پارٹی۔ لیکن جس پیمانے پر آزاد اُمیدوار کامیاب ہو کر سامنے آئے ہیں۔ اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹیوں کے تنظیمی ڈھانچے ابھی مقامی کثرت کو خود میں سمونے میں بے لچک ہیں۔مقامی حکومتوں کے قوانین کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنرل ضیا الحق کی روح کم و بیش پنجاب اور سندھ کے قوانین میں براجمان نظر آتی ہے۔ یہی حال بلوچستان کے قانون کا ہے۔ البتہ خیبرپختون خوا کا قانون جنرل مشرف کے ماڈل کے قریب ہے۔ پنجاب کے قانون میں تو مقامی حکومتوں کو فقط نام کے اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ اُس پر طرہ یہ کہ صوبائی سطح پر لوکل گورنمنٹ بورڈ اور لوکل گورنمنٹ کمیشن مسلط کر کے رہی سہی کسر بھی نکال دی گئی ہے۔ چیئرمین اور میئر حضرات نمائشی و مشاورتی ہی رہیں گے۔ اُن کے اوپر انتظامی افسر ہوں گے۔ تعلیم و صحت کے لئے بھی علیحدہ ادارے ہوں گے اور ان سب کی کمان ہمارے ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کے ہاتھ میں ہوگی جن کی ڈوری صرف خادمِ اعلیٰ ہی ہلا سکیں گے۔
سندھ میں بھی کم و بیش یہی حالت رہے گی۔ ان مقامی حکومتوں کے لئے، مالیاتی انتقال ہوگا نہ انتظامی۔ اور ترقی کے چند چھلکوں کے لئے یہ سب ادارے تختِ لاہور کی جانب ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔کہنے کو تو یہ انتخابات بہت ہی جمہوری ہیں (ماسوا انتظامی اور سیاسی مداخلت کے)، غور سے دیکھنے پر معلوم ہوگا کہ 80فیصد غریب عوام پر تو جماعتوں کا ٹکٹ حاصل کرنے کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ لاہور اور فیصل آباد کے مسلم لیگ نواز اور تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں کا جائزہ لیا جائے تو جیو الیکشن سیل کے مطابق لاہور میں نواز لیگ نے 265 اُمیدواروں میں سے 186 تاجر و پراپرٹی ڈیلرز اور فیصل آباد میں اُن کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔ سکے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے بھی ان شہروں میں زیادہ تر اُمیدوار تاجر اور پراپرٹی ڈیلرز ہیں۔ (لاہور میں یہ 164 اور فیصل آباد میں 75ہیں)۔ نوجوانوں کو تو بس آگے لانے کے دلاسے دیئے گئے تھے۔ ان حقائق سے یوں لگا کہ یہ مقابلہ تحریکِ انصاف اور نواز لیگ میں نہیں تاجروں اور پراپرٹی ڈیلرز میں ہے۔
نواز لیگ کی ’’ترقی‘‘ کی باتیں اور تحریکِ انصاف کی نئے پاکستان کی اُمیدیں محض تماشہ ہے۔ وکلا، اساتذہ، دانشور، ڈاکٹرز، ماہرین کی اُمیدواروں میں شرح آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ مزدوروں، کسانوں اور سیاسی کارکنوں کا کہیں نام و نشان نہیں۔ جو امر نہایت افسوسناک ہے وہ ہے مزدوروں، کسانوں، خواتین اور اقلیتوں کے بنیادی جمہوری حقوق کی نفی۔ اُن کا انتخاب اب فقط مخصوص نشستوں پر بذریعہ نامزدگی ہوگا۔ سندھ میں یونین کونسل کے چھ اراکین اور پنجاب میں 8 اراکین 5 مخصوص نشستوں پر ان اراکین کو نامزد کریں گے جن میں دو خواتین، ایک مزدور یا کسان، ایک نوجوان اور ایک اقلیت کا نمائندہ شامل ہے۔ان انتخابات کے حوالے سے اگر سیاسی کلچر پر نظر ڈالی جائے تو نہایت دلخراش تصویر سامنے آئے گی۔ جماعتی ہونے کے باوجود یہ انتخابات غیرسیاسی ہی رہے۔ جماعتیں اور اُن کے جھنڈے تو تھے، پروگرام اور منشور کہیں نظر نہیں آئے۔ بس ایک میاں نواز شریف ہیں یا عمران خان یا پھر بھٹوز کی یادیں۔ اللہ اللہ خیر صلہ! خیر ہو میڈیا کی جس نے اسے کچھ سیاسی ظرف سے آشنا کرایا۔ جن لوگوں کو ٹکٹ نہ ملا وہ پارٹی چھوڑ بالٹی اُٹھا میدان میں رہے۔ ایک کو ٹکٹ ملا، باقیوں نے مخالفانہ جگتو فرنٹ بنا لیا۔ جو منتخب ہوئے ہیں وہ پارٹیوں کے دیرینہ سیاسی کارکنوں کو دروازہ دکھا دیں گے۔ اور مصروف ہوجائیں گے اپنے مقامی گروپ بنانے میں۔ بہتر ہوتا کہ یہ انتخابات مقامی مسائل پر ہوتے۔ کاش جمہوری طور پر منتخب قیادتیں جان سکتیں کہ اگر لوکل باڈیز آمریت کا سہارا بنیں تو فعال ، طاقتور اور جمہوری مقامی حکومتیں جمہوریت کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ عوام کے حقِ حکمرانی اور مقامی حقِ حکمرانی کی توقیر نہ کی گئی تو جاری جمہوریت کے پلے کیا باقی رہے گا!
تازہ ترین