• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی حکومت اور ملکی صورت حال,,,,ملک الطاف حسین

پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقیناً اس بات کا بھی احساس ہوگا کہ جنرل مشرف کے زوال کے جو مختلف اسباب تھے ان میں سب سے بڑا سبب دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں پاکستان کا شریک ہونا تھا جو اہل پاکستان کے نزدیک ایک انتہائی غلط فیصلہ تھا۔ امریکی فوج پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی تو بہت پہلے سے کرتی آ رہی تھی تاہم پی پی کی حکومت آنے کے بعد یہ حملے بڑھ گئے بالخصوص صدر بش نے پاکستان کو ”میدان جنگ“ بنانے کا اعلان اس وقت کیا کہ جب آصف زرداری نے صدر پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا… سوال یہ ہے کہ آمرانہ دور حکومت میں بھی صدر بش کو کبھی ایسی جرأت نہیں ہوئی مگر بھاری عوامی مینڈیٹ رکھنے والی ”حکمران پارٹی“ کے وزیراعظم اور صدر کی موجودگی میں ایسا اعلان کیوں کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی جارح قوت سرحدوں کے اندر مسلسل حملے کرنا شروع کر دے تو کیا اس کا جواب بھی سفارتی احتجاج ہی ہوا کرتا ہے۔ کیا دنیا کے دوسرے آزاد ممالک بھی اپنی آزادی اور خود مختاری پر ہونے والے حملوں کا اسی طرح سے جواب دیتے ہیں۔ گوکہ بظاہر صورت حال پاکستان کے حق میں نہیں لیکن پاکستان، ایران، عراق یا افغانستان بھی نہیں اگر ایران، عراق اور افغانستان اپنی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے تو پاکستان بھی رب العزت کے فضل و کرم سے اس پوزیشن میں ہے مگر اس کے لئے قیادت کا جرأت مند اور دور اندیش ہونا لازمی ہے۔ پاکستان اس وقت جن خطرات سے دوچار ہے ان کو دور کر کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے لہٰذا ہمارا کہنا یہ ہے کہ پی پی قیادت کو پاکستان کے مفاد میں ایک ”قومی حکومت“ تشکیل دینے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ پارٹی کی مقبولیت، مینڈیٹ اور آئینی و جمہوری استحقاق جیسی سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن ان تمام میں کہیں پر بھی یہ لکھا یا کہا نہیں گیا کہ اگر آپ قیادت کرنے اور ناکام ہو گئے تو بھی ”حق حکمرانی“ کو استعمال کرتے رہیں گے۔ اب اگر یہاں کوئی یہ کہتا ہے کہ ابھی جنگ ہوئی نہیں تو قیادت ناکام کیسے ہو گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنگ لڑنے سے پہلے جیتی جاتی ہے اگر آپ مقابلہ نہ کرنے کا اعلان کر کے میدان میں اتریں گے تو ایسا کرنا کسی توہین آمیز دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے ہوگا لیکن اگر آپ یہ اعلان کرکے میدان میں اتریں گے کہ فتح ہر حال میں ہماری ہے تو پھر میدان جنگ بھی آپ کو خوش آمدید کہتا ہے اور آپ ہی کی فتح کا جھنڈا بلند ہوتا ہے۔ اس کی پہلی مثال ایران کی ہے اور دوسری مثال عراق اور افغانستان کی ہے اگر صدام حسین پھانسی کے وقت اپنی غیرت ایمانی اور ناقابل یقین دلیری کا مظاہرہ نہ کرتا تو کیا عراق کے عوام کو آزادی کی جنگ جاری رکھنے کا کوئی پیغام مل پاتا؟ اگر ملا عمر صرف ایک مہمان کی حفاظت اپنے اقتدار کو ٹھوکر مار دینے کے لئے تیار نہ ہو جاتا تو کیا آج افغانستان اپنی تاریخ کا دوسرا سنہری باب رقم کر پاتا۔ مزید برآں ایران کے عوام اور ان کی قیادت کی بصیرت، جرأت اور تدبر کو کیوں سامنے نہیں رکھا جاتا ،اگر احمدی نژاد بھی یہ کہہ دیتے یا کہہ دیں کہ ہم امریکہ سے جنگ نہیں کر سکتے سفارتی احتجاج کریں گے تو کیا اس کے بعد کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کے اعلان کے بعد ایران کا کوئی وجود باقی رہ جائے گا؟ مگر اب امریکہ دیکھ رہا ہے کہ اگر ہم نے حملہ کیا اور ایران کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا تو بھی ہر ایرانی ہمارا مقابلہ کرے گا امریکیوں کا ہی وہ خون ہے کہ جس سے ایران محفوظ ہے مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے۔
اگر موجودہ حکمران جنرل مشرف کی غلط پالیسیوں کو دہراتے ہوئے سب سے پہلے امریکہ کو فوقیت اور اہمیت دے رہے تو اس کا لازمی نتیجہ پاکستان کے ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو جو بھاری مینڈیٹ ملا تھا وہ مشرف کی پالیسیوں کے خلاف اور امریکی خطرے اور بالادستی کا مقابلہ کرنے کیلئے تھا عوام محترمہ کی شہادت کا ذمہ دار امریکہ اور مشرف کو قرار دے رہے تھے۔ سرحد اور بلوچستان آپریشن روکنے کا مطالبہ تھا، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ووٹ دیئے گئے تھے پاکستان کی داخلہ، خارجہ، معاشی اور انتظامی پالیسیاں تبدیل کرنے کا مطالبہ تھا، عوام 2نومبر کی عدلیہ کی بحالی بھی چاہتے تھے مگر عوام کی خواہش کے مطابق کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ علاوہ ازیں سب سے اہم بات پھر وہی کہ پاکستان کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مدبر اور جرأت مند قیادت چاہئے۔ پاکستان کی محافظ قوتوں کو چاہئے کہ امریکی حملے کے خطرے کے پیش نظر کم از کم 6ماہ کیلئے ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ امید ہے کہ ہماری گزارشات پر تمام محب وطن حلقے اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے رہنما اور دانشور سنجیدگی سے غور کریں گے۔
تازہ ترین