آج کا کالم دو حصوں پر مشتمل ہے ایک حصے کا تعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خاں اور دوسرے کا تعلق تبلیغی جماعت کے مولانا یعقوب کے بیان سے ہے ، چوہدری نثار علی خاں ایک نہایت زیرک اور ”سیزنڈ“ سیاست دان ہیں ، ان کی ساری عمر دشت سیاست کی سیاحی میں گزری ہے ، وہ مسلم لیگ (ن) کے ان وابستگان میں سے ہیں جو12/اکتوبر 99ء کے بعد پیدا ہونے والی لوٹا گردی میں بھی پوری استقامت کے ساتھ اپنی جماعت کے وفادار رہے، وہ سیاست کی نزاکتوں اور اس کے تقاضوں سے بھی پوری طرح واقف ہیں لیکن گزشتہ روز ان کا ایک ایسا بیان نظر سے گزرا جسے سمجھنے کی میں ابھی تک کوشش کر رہا ہوں مگر میں اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ برادرم نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو القائدہ یا طالبان بلکہ کسی بھی مسلمان سے کوئی خطرہ نہیں، اسکے ساتھ میں دو خبریں اور بھی شائع ہوئی ہیں ، ایک خبر کے مطابق بارود سے بھری ہوئی ایک گاڑی لاہور میں داخل ہو گئی ہے جس کی منزل رائیونڈ میں شریف برادران کی رہائش گاہ ہے اور دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ حکومت پنجاب نے ممکنہ دہشت گردی اور تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی ہٹ لسٹ پر ہونے کے خدشے کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی سکیورٹی سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے پاک فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے 25ریٹائرڈ کمانڈوز کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
اگر یہ دونوں خبریں یعنی بارود سے بھری گاڑی کی ”آمد“ اور شریف برادران کی سکیورٹی سخت کرنے کا فیصلہ نہ بھی شائع ہوتیں تو بھی یہ فرض کرنا بہت مشکل تھا کہ جہاں بلاامتیاز سیاست دانوں اور عام پاکستانیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہو، وہاں دہشت گرد شریف برادران کو معاف کر دیں گے۔ چوہدری صاحب کے اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے شریف برادران طالبان میں چھپے ہوئے اس گروہ کے لئے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں جو بے گناہ مسلمانوں کو خاک وخون میں غلطاں کرنے میں لگا ہوا ہے حالانکہ کسی دہشت گرد کے لئے کوئی پاکستانی یا ان کا کوئی قائد یہ سوچ کیسے رکھ سکتا ہے ؟ اس سے پہلے امریکہ اور اس کے حواری میاں نواز شریف کے ڈانڈے طالبان اور القائدہ سے ملاتے رہے ہیں۔حالانکہ میاں نواز شریف امریکہ کی طرف سے شروع کی ہوئی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے حوالے سے متعدد تحفظات رکھتے ہیں اور ان کا یہ نقطہ نظر نہ صرف سامنے آتا رہتا ہے بلکہ پاکستانی قوم کی اکثریت اس سے متفق بھی ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ طالبان کے اس گروہ کو پسند بھی کرتے ہیں جو پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے میں مشغول ہے یہ سراسر امریکی جھوٹ ہے اور چوہدری نثار علی خاں کے متذکرہ بیان سے اس جھوٹ کو تقویت مل سکتی ہے ۔
میرے نزدیک شریف برادران اس وقت قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں، ان کی سوچ خالص پاکستانی سوچ ہے اور یوں وہ بہت سے دلوں میں کانٹے کی طرح کھنک رہے ہیں ان میں عالمی طاقتوں کے علاوہ دانستہ یا نادانستہ طور پر خودکش بمباروں کے وہ ماسٹر مائنڈ بھی شامل ہیں جو پاکستان میں جہالت کا راج چاہتے ہیں چنانچہ اس قیمتی اثاثے کی حفاظت میں کسی مفروضے کے تحت کوئی کمی نہیں ہونا چاہئے۔ ان امور سے قطع نظر میرے خیال میں چوہدری صاحب جو بات کہنا چاہتے تھے وہ کھل کر نہیں کہہ سکے۔ وہ غالباً یہ کہنا چاہتے تھے کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو خطرہ ”کسی اور طرف “ سے ہے اگر ایسا ہے تو بھی یہ بات جماعتی سطح پر کہنے کے لئے یہ وقت موزوں نہیں ہے، لیکن میں چونکہ سیاست دان نہیں ہوں، چوہدری صاحب سیاست دان ہیں بلکہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی ایسی بصیرت کے مالک ہونے کی وجہ سے اس صف کے اسرار و رموز سے واقف ہیں لہٰذا انہوں نے جو بھی کہا ہے سوچ سمجھ کر ہی کہا ہو گا،میں نے تو ایک ”لے مین“ کے طور پر صرف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
آج کے کالم کا دوسرا حصہ تبلیغی جماعت کے مولانا یعقوب صاحب کے اس بیان کے حوالے سے ہے جس کے سننے کو میرے کان ایک عرصے سے ترستے تھے۔ مولانا نے رائے ونڈ میں سالانہ تبلیغی اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان لباس اور شکل بدلنے کی بجائے اپنے اعمال بدلیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ آواز اس کونے سے آئی ہے جس کونے سے آنا چاہئے تھی۔ آج تک مسلمانوں کو یہی درس دیا جاتا رہا ہے کہ لباس حلیہ اور وضع قطع بدل لو، اس سے سارا کچھ بدل جائے گا اعمال کی اصلاح کی بات بہت کم سننے میں آتی رہی ہے ۔ ”اعمال “ تبلیغی جماعت کی ایک مخصوص اصطلاح ہے اس سے زیادہ تر عبادات ہی مراد لی جاتی ہیں چنانچہ جماعت کے ”نصاب“ میں ”فضائل اعمال “ نام کی ایک کتاب بھی شامل ہے، جس میں عبادات کی فضیلت کے بیان میں کمزور احادیث بھی جمع کر دی گئی ہیں اور اس کا جواز ایک تبلیغی دوست نے یہ پیش کیا تھا کہ اگر کوئی کمزور حدیث بھی کسی کے ”اعمال“ کو بہتر بنا دے تو اس میں کیا حرج ہے ؟یہ وضاحت میں نے اس لئے کی ہے کہ جب میں اعمال کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد ”معاملات “ ہوتے ہیں جس کی طرف بہت دین دار (یعنی عبادت گزار ) مسلمان بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے چنانچہ ہر طرح کی بے ایمانی اور بددیانتی معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی ہے ۔
مولانا یعقوب صاحب مدظلہ سے درخواست ہے کہ انہوں نے جہاں ایک نہایت اہم بات لباس اور حلئے کے حوالے سے کی ہے وہاں وہ معاملات کو بھی نہ صرف یہ کہ موضوع بنائیں بلکہ اگر وہ چاہتے ہیں (جو وہ یقینا چاہتے ہیں) کہ اسلام کی صحیح روح مسلم معاشرے میں رواج پائے تو وہ ”اکرام مسلم “ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے معاملات کی راست روی پر مسلسل زور دیں اور اپنا سارا زور بیان اس پر فوکس کریں تاہم یہ فرض صرف تبلیغی جماعت کا نہیں بلکہ تمام دینی جماعتوں کا ہے کہ شرعی وضع قطع کی آڑ میں بداعمالیوں اور بد معاملگیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے ایک تحریک چلائیں یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے مسلم امہ کے زوال کا باعث یہی امر ہے کہ ہم نے انہیں عبادات کے فضائل تو بتائے ہیں لیکن وہ عبادات کے شجر کے میٹھے پھل یعنی امانت اور دیانت سے محروم چلے آ رہے ہیں کیونکہ ہم نے انہیں سچ بولنے، پورا تولنے اور وعدہ پورا کرنے کے اخروی فائدے نہیں بتائے نیز ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری سے اجتناب کے فضائل بھی اس شدت کے ساتھ بیان نہیں کئے جس شدت کے ساتھ ہم شرعی وضع قطع اور ”اعمال “ کے فضائل بیان کرتے ہیں امید ہے میری اس گزارش پر دینی حلقے توجہ دیں گے انہیں اس لئے بھی توجہ دینا چاہئے کہ اسلام کے علاوہ یہ ان کی اپنی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔