اسلام آباد (طاہر خلیل )گزشتہ دنوں کی سموگ اور دھند سے مطلع واضح نہ تھا ، تاہم پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین اسلام آباد میں تصادم کے خطرات ختم ہوئے اور محاذ ڈی چوک سے شاہراہ دستور پر عدالت عظمیٰ کی جانب منتقل ہوا اور ساتھ ہی آفتاب کا پسِ غبار سفر بھی نکھر گیا تو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جو بہت کم بیرون ملک دوروں پر جاتے ہیں برطانیہ کا رختِ سفر باندھا ۔ لندن میں ان کی برطانوی رہنمائوں سے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ جس میں دوطرفہ تعلقات کے ساتھ بھارت کے جارحانہ رویے سے خطے کے امن و استحکام کےلئے پیدا خطرات ، دہشت گردی کے خلاف جنگ ، انسانی اسمگلنگ ، ڈرگ ٹریفکنگ سمیت منظم جرائم کی روک تھام کےسلسلے میں پاکستان کی حالیہ کامیابیوں سے برطانوی لیڈروں کو آگاہ کیا، حالیہ دورے کے نظری اور اجمالی جائزے اور اثرات کے حوالے سے مبصرین مختلف آراءکا اظہار کر رہے ہیں لیکن برطانوی وزیراعظم، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائیزر، وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ سے ان کی ملاقاتیں خاص اہمیت کی حامل تھیں ۔ چوہدری نثار علی خان کے حالیہ دورے کا سب سے نمایاں اور قابل ذکر پہلو برطانوی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سرمار ک لائل گرانٹ سے ملاقات ہے ۔ جو 10ڈائوننگ سٹریٹ میں ہوئی جو برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ سرمارک لائل گرانٹ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر رہ چکے ہیں ۔ پاکستان ، بھارت ، افغانستان سمیت جنوبی ایشیائی سیاست کی تہہ در تہہ رمزیں مارک لائل گرانٹ سے پوشیدہ نہیں ۔ ان کے خاندان کا اس دھرتی سے گہرا تعلق رہا ہے ، نو آبادیاتی دور میں ان کے داد الائل گرانٹ کے نام پر ہی موجودہ فیصل آباد شہر لائل پور کے نام سے آباد ہواتھا ۔ مارک لائل گرانٹ سے چوہدری صاحب کی ملاقات اس وقت دنیا بھر کی میڈیا کی توجہ کا فوکس بن گئی جب وزیراعظم تھریسامے کسی پیشگی پروگرام کے بغیر وہاں پہنچ گئیں۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے کےلئے چوہدری نثار علی خان قطعی طور پر شناسا شخصیت ہیں کیونکہ برطانوی وزیرداخلہ کی حیثیت سے انہوں نے چوہدری صاحب کے ساتھ تحسینی انڈر سٹینڈنگ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو آگے بڑھایا ۔ اسی لئے اپنے بہترین تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرداخلہ نے درست تجزیہ کیا کہ تھریسامے کے دور میں دو طرفہ تعلقات میں جس قدر مضبوطی آئی۔ اسے آگے لے جانے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان قائم سٹرٹیجک پارٹنر شپ سے دو طرفہ طور پر استفادہ کیا جا سکے ۔ ملاقات کے نتیجے میں ایک اچھی خبر یہ آئی کہ برطانوی وزیراعظم اگلے برس(2017)کے پہلے حصے میں پاکستان کا دورہ کریں گی، تھریسامے نے حال میں بھارت کا دورہ کیا تھا ۔ ان کا پاکستان کا مجوزہ دورہ موزوں اور مناسب ہوگا کیونکہ جنوبی ایشیا حالیہ علاقائی صورت حال کے تناظرمیں تبدیلیوں کے دھانے پر ہے ۔ اس لئےبین الاقوامی برادری اور خاص طور پر برطانوی دوستوں کو بھارت کے جارحانہ عزائم کی وجہ سے خطے کےا من و استحکام کےلئے پیدا ہونے والے خطرات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے ۔ تاکہ بین الاقوامی برادری اور دوست ممالک پاکستان کے خلاف بھارت کو جارحانہ عزائم سے باز رکھنے کےلئے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں ۔ خوش کن پہلو ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے جو دبنگ شخص کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں برطانوی قیادت کے سا منے کشمیر ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، پاک بھارت تعلقات ، پاک افغان تعلقات اور الطاف حسین کے معاملات پر پاکستان کا مقدمہ نہایت موثر انداز میں پیش کیا۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان جیسے جہاندیدہ شخص کو وزارت داخلہ دینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے عمل لا کر قوم کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائیں گے ۔ حوصلہ بخش پہلو ہے کہ مسلح افواج کے اپریشن ضرب عضب، پولیس، ایف سی ،رینجرز اور سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور قوم کے عزم صمیم کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اب منطقی انجام کی طرف بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں تاہم چوہدری صاحب کے اس نقطہ ٔنظر سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ دشمن کمزور ہوا ہے ختم نہیں ہوا ۔ اور یہ جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی ۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنےو الوں کو منہ کی کھانا پڑے گی ۔ اسی ضمن میں انہوں نےا یک برطانوی شہریت کے حامل کردار الطاف حسین کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا حوالہ بھی دیا ۔ جو لندن سے ہمارے ملک کو غیر مستحکم کرنےمیں ملوث ہیں ، اور یہ برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں خلاف قانون سرگرمیوں پر کارروائی کرے ، دورے کے جو مثبت نتائج سامنے آئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ سیکیورٹی ، کائونٹر ٹیرارزم ، قانون نافذ کرنے والےا داروں کی استعداد کار بڑھانے ، تجربے اور تکینکیی معلومات کے تبادلے ، منظم جرائم کی روک تھام کے شعبوں میں جاری تعاون بڑھانے پر اتفاق رائے ،خطے میں پائیدار امن کے قیام کی طرف اہم پیش رفت ثابت ہوگا۔ بین الاقوامی امن اور استحکام کےلئے برطانیہ کی جانب سے پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنا یقیناًریاست کی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار ہے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ برطانوی ہم منصب امبر رڈ ، وزیر خارجہ ، سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ، لارڈ نذیر احمد ، بریڈ فورڈسے ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ سمیت دیگر شخصیات سے ملاقاتوں کے نتیجے میں دوطرفہ اور کثیر جہتی تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی ۔ جنوبی ایشیائی سیاست میں پاکستان کا موقف بھی سمجھا گیا ہے ۔ برطانوی حکومت کو باور کرایا گیا ہے کہ لندن میں ایک پاکستانی کا قتل ہو ا۔ برطانیہ کو عمران فاروق قتل کیس انجام تک پہنچانا ہوگا۔ وزیرداخلہ کے دورے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو درپیش کئی مشکلات کا ازالہ ہوگا، اور دونوں ملکوں کے عوام کے مابین رابطے بڑھنے سے فلاح و بہبود ، سماجی اور معاشرتی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔