• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر کوجب آزادی نصیب ہونی ہوگی ہوجائے گی، ہم اپنی شرح پیدائش شاید موجودہ صدی کے دوسرے نصف میں اُس وقت کم کرنے کا سوچیں گے جب اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے اس ملک میں آبادی کا منہ زور سیلاب سر سے گزرچکا ہوگا۔ بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی کوخوراک کی فراہمی کے لئے دستیاب زمین اور پانی کے ذخائر کم ہوتے جائیں گے، اور پھر کچھ دیگر معجزے بھی ہوں گے۔
تاہم جس دوران ان معجزوں کے منتظر ، ہم اپنی فوجی استعداد بڑھانے ، اپنی جوہری طاقت میں اضافہ کرنے اور اپنے دفاع کو پہلے سے بھی زیادہ ناقابل ِ تسخیر بنانے میں مصروف ہیں، کیاہم تھوڑی دیر کے لئے ان آفاقی امور سے نظریں ہٹا کر زمینی معاملات کی طرف متوجہ ہونا چاہیں گے؟ہم ہر قسم کی گندگی سے اتنا اُنس کیوں رکھتے ہیں(اور کوئی لفظ ہمارے رویے کی عکاسی کرنے سے قاصر ہے)؟جدید تہذیب کی ایک پروڈکٹ کوڑے کرکٹ کے ڈھیرہیں۔ بلاشبہ تمام شہرٹنوں کے حساب سے کوڑا کرکٹ پیدا کرتے ہیں جسے وہ ری سائیکل کرنے یا مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے قابل نہیں ہوتے ۔ ہم اس کوڑے کرکٹ اور گندگی سے خصوصی وابستگی رکھتے ہیں۔ ذرا اندرون شہروں اور دیہات کی طرف دیکھیں۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہمارے دیہات میں پلاسٹک بیگ نامی کسی شیطانی چیز کا گزر نہ تھا، نہ ہی آلوکے چپس اور سستی ٹافیوں کے پیکٹ دکھائی دیتے تھے ، اور صحت مند دیہاتی بھائیوں کے حلق کاربن آمیز مشروبات سے ناآشنا تھے۔ اب پاکستان کے کسی بھی گائوں میں چلے جائیں، ہر جگہ گندگی کے ڈھیروں پر پلاسٹک بیگ کے انبار دکھائی دیں گے۔
کچھ کوڑا کرکٹ ری سائیکل ہوجاتا ہے ۔ افغان اور پشتون لڑکے خالی بوتلیں، پلاسٹک کی چیزیں اور کاغذات وغیرہ اکٹھے کرتے ہیں۔ ہمارے نازک مزاج پنجابی لڑکے اس قابل ِ قدر محنت کو اپنے وقار کے منافی سمجھتے ہیں۔ افغان لڑکے علی الصبح اپنے گھروںسے نکل کر بہت محنت سے یہ بکھری ہوئی چیزیں اکٹھی کرتے ہیں( اور اب ہم اُنہیں اپنے وطن سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں)۔ میں نے خود بھی بارہا لکھا کہ افغانوں کو اب اپنے وطن واپس چلا جانا چاہیے۔ لیکن جب وہ سب واپس چلے جائیں گے تو ہم اُنہیں شدت سے یاد ضرور کریں گے ۔ یوں توپاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ، لیکن ہم خود بھی انہیں بڑھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ پلاسٹک کی بیماری کوئی ناگہانی قدرتی آفت نہیں، یہ مصیبت ہم نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک ِ خداداد پرنازل کی ہے ۔
کوڑے کرکٹ سے بھی زیادہ افسوس ناک چیز ہمارے حکمران طبقے کی بے حسی ہے ۔ ملک کو پلاسٹک بیگ نے برباد کردیا لیکن کسی کو احساس ہی نہیں۔ دیگر ممالک نے اگر اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا تو بھی کنٹرول ضرور کیا ہے ، لیکن ہمارے ملک میں اسے کوئی مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ روانڈا میں پال کاگم(Paul Kagame) نے اس پر مکمل پابندی لگائی ، اس کے لئے ایک ماہ کا نوٹس دیا، اور اس کا نفاذ یقینی بنایا۔ ہم ایسا کیوں نہیںکرسکتے ؟یقینا پال کاگم کوئی مثالی حکمران نہیں لیکن کم از کم اس معاملے میں تو ہم اُن کی قائم کردہ مثال کی پیروی کرسکتے ہیں۔ جب ہم بے رحمی پر اتر آئیں توتمام حدود پار کرجاتے ہیں تو ہم ان معاملات میں بے رحم کیوں نہیں ہوسکتے ۔ خدا گواہ ہے کہ پلاسٹک بیگ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ۔ سمندر سے لے کر پہاڑوں تک ہر جگہ اس کی عملداری ہے ۔ جنرل راحیل شریف نے بہت سے معاملات میں اچھی مثالیں قائم کیں لیکن وہ اس چیز کے خاتمے سے صرف ِ نظر کرگئے ۔ وہ تمام چھائونیوں اور ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیز، جو الخالد ٹینک اور غوری میزائل کی طرح ہمارے دفاعی نظام کا ناگزیر حصہ ہیں، میں اس شیطانی چیز کا داخلہ ممنوع قرار دے سکتے تھے ۔ جب فوج انتہا پسند ی کے خلاف کارروائی کی قیادت کررہی تھے ، سویلینز کو بھی چاروناچار اس کا حصہ بننا پڑا۔ اگر جنرل راحیل شریف پلاسٹک بیگ کے خلاف بھی معرکہ شروع کردیتے تو ہوسکتا ہے کہ چاروں صوبائی حکومتوں کے سربراہ بھی اس جنگ میں شریک ہوجاتے ۔ پلاسٹک بیگ کا خطرہ بھی دہشت گردی سے کم نہیں۔ بلکہ دہشت گردی توتباہی کی وقتی لہر ہوتی ہے ، پلاسٹک کی عمر تو صدیوں سے جڑی ہوتی ہے ، یہ تحلیل ہوتا ہی نہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ پلاسٹک مثبت استعمال رکھتاہے لیکن شاپنگ بیگ سے انسانیت محفوظ ہی رہتی تو بہتر تھا ۔
یہاں ہماری مہارت اور فطری صلاحیتوں کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔ لاہور خود اپنا کوڑا کرکٹ نہیں اٹھا سکتا تھا، چنانچہ وزیر ِاعلیٰ نے فوراً ہی ایک ترک کمپنی سے شہرکو صاف کرنے کا معاہدہ طے کرلیا۔ یہی کچھ راولپنڈی میں ہوا۔واقعی دوست ہی مصیبت میں کام آتا ہے ۔ اگر تر ک ہمارا ہاتھ نہ تھامتے تو ہمارے شہر گندگی اور کوڑے کرکٹ کے انبار میں کہیں کھوچلے تھے ۔ اب آصف علی زرداری نے ہمیں کراچی کے حوالےسے ایک انقلابی خبر سنائی ہے کہ سندھ حکومت نے بھی کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لئے ایک چینی کمپنی سے ڈیل کی ہے ۔ ہمارا دفاع ناقابل ِ تسخیر، ہمارے میزائل بر ِ صغیر کے ہر کونے کو نشانہ بنانے کے اہل، ہم ایٹمی صلاحیت رکھنے والے دنیا کے واحد اسلامی ملک، لیکن اپنا کوڑ اکرکٹ اٹھانا اور شاپنگ بیگ پر پابندی لگانا ہمارے بس سے باہر۔
آپ کو علما کی کانفرنسیں اور ریلیاں دکھائی دیں گی جو مقامات ِ مقدسہ کے تحفظ کے نعروں سے زمین لرزاں، لیکن مجال ہے کہ جو کبھی ان کی زبان عام مسائل پر کبھی بے نیام ہو۔ اسلام کے اس قلعے میں ہزاروں مساجد ہیں لیکن جمعے کے خطبے میںجہنم کی آگ سے نجات کی راہ دکھائی جاتی ہے، بالکل درست ، لیکن انسانیت کو درپیش مسائل سے کنارہ کشی کیوں ؟تبلیغی جماعت کے سالانہ عظیم الشان اجتماع کے آخر میں نہایت رقت آمیز دعا سے اہل ِایمان کے دل نرم کیے جاتے ہیں، اُن کی آنکھوںسے آنسو کی جھڑی لگ جاتی ہے۔ کاش مولانا کوئی ایک آدھ جملہ پلاسٹک بیگ پر بھی ارزاں کردیا کریں۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے انسانیت کو قانون بھی دیا۔ تو جہاں علما حضرات دیگر احکامات پر عوام پر رقت طاری کردیتے ہیں، تو آپﷺ کا وہ فرمان ِ مقدس بھی گوش گزار کردیا کریں کہ صفائی نصف ایمان ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہم ذاتی صفائی پر توجہ دیں لیکن معاشرے کی اجتماعی صفائی پر رویہ بے حسی کا مظہر ۔ میں نے شاید ہی کوئی ندی یا جھیل ایسی دیکھی ہو جہاں دولت مند اور تعلیم یافتہ افراد پکنک منانے آئے ہوں اور وہ وہاں کوڑا کرکٹ نہ پھینک گئے ہوں۔ کاش ہمارے حکمرانوں کوبھی عقل آجائے اور وہ دیگر آفاقی امور کے علاوہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی توجہ دیں جو ہمیں مہذب قوم بناسکتی ہیں۔




.
تازہ ترین