• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز قبل سپریم کورٹ آف پاکستا ن کے جج جسٹس امیر ہانی مسلم نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ فیس بک نے نئی نسل اور معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ فاضل جج نے یہ ریمارکس "فیس بک کے ذریعے بلیک میلنگـ" سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران دئیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی ، خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی منہ زور سیلاب کی مانند آگے بڑھ رہی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک ہی کی طرح پاکستان میں بھی اسکے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔یہ استعمال مثبت بھی ہے اور منفی بھی ۔ عام طور پرجدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور اسکا استعمال کسی بھی ملک کی ترقی کو جانچنے کا پیمانہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ا ستعمال کا بڑھتا ہوا رجحان اس امر کا غماز ہے کہ ہمارا ملک اللہ کے فضل و کرم سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آج کے تیز رفتار دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی بلا شبہ ایک نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔ جو واقعتاََ ہماری زندگی میںآسانی کا باعث ہے۔ جہاں تک انٹرنیٹ کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں تین کروڑ افراد اسکا استعمال کرتے ہیں ۔وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔انٹرنیٹ کی سہولت نے معلومات تک رسائی کو بے حد آسان بنا دیا ہے۔آج بھی کتاب کی اہمیت مسلم، تاہم کتاب سے کہیں زیادہ اور جدید معلومات ہمیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہوتی ہیں۔ اسی ٹیکنالوجی نے ہمیںاخبار کے انتظار اور اسے خریدنے کی زحمت سے بھی آزاد کر دیا ہے۔ اور ہم دنیا بھر کے اخبارات اپنے کمپیوٹر یا آئی پیڈ وغیرہ کے ذریعے باسہولت پڑھ سکتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا رجحان بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے۔خاص طور پر فیس بک اور ٹوئٹر کا استعمال بے حد عام ہے۔ گرچہ سوشل میڈیا کسی نہ کسی صورت ہر عمر اور شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی کا حصہ ہے تاہم خاص طور پر نوجوان اسکے استعمال میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کے لئے دوستوں ، رشتہ داروں سے روابط کو آسان بنا دیا ہے۔ تعلیمی، کاروباری، سیاسی، ذاتی ،غرض ہر طرح کے رابطے کے لئے دنیا بھر میں اسکا استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کے دورمیں رائے سازی کے لئے اسکا استعمال بے حد اہم ہے۔مصر میںالتحریر اسکوائر کا احتجاج اور اسکے نتیجے میں برپا ہونے والا سیاسی انقلاب سوشل میڈیا سے ہی شروع ہوا۔ ہمارے ہاں بھی خاص طور پر 2013 کے بعد سیاسی رہنما لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے اور انکی رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کی غرض سے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد سوشل میڈیا ہی کے ذریعے لوگوں نے ا پنے پیاروں کی خیریت معلوم کی۔غرض آج کے دور میں فوری پیغام رسانی اور رابطہ کاری کے لئے اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔تاہم تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ ایک جانب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنے اور انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا تک رسائی بہت سے معاملات میں سہولت کا باعث ہے، وہیںکچھ معاملات میںبگاڑ کا ذریعہ بھی ہے۔اس ٹیکنالوجی کے باعث نہ صرف ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ 9/11 کاسانحہ ہو یا پیرس میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کا واقعہ ، ملوث ملزمان ٹیکنالوجی سے مستفید ہوئے۔انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے سائبر کرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔آئے روزبلیک میلنگ، ہراساں کرنے اور اغوا سمیت دیگر واقعات سامنے آتے ہیں۔اسکے بیجا استعمال سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار بھی ہوئی ہے۔ کسی قد غن اور پابندی کے بغیر، ہر طرح کی تصویر اور تحریر انکی رسائی میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرم ،حیا اور حجاب کا کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ صنف مخالف سے دوستیوں کا رجحان بڑھ گیا ہے ۔ ان غیر ضروری سماجی روابط کو بڑھانے کی دوڑمیں اکثر نوجوان اپنے گھر والوں سے دور اور تنہائی کا شکار ہو تے جا رہے ہیں۔ شعوری لاشعوری طور پر وہ خودسے دور افراد سے رابطہ قائم رکھنے کو تو بے تاب ہوتے ہیں تاہم اپنے قریب رہنے والوں کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ ہر نوجوان نے اپنی ایک الگ دنیا تخلیق کر رکھی ہے۔ جو غیر حقیقی بھی ہے اور غیر محفوظ بھی۔ اسکے استعمال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر وقت لیپ ٹاپ، آئی پیڈ اور موبائل وغیرہ پر مصروف رہنے والوں کی جسمانی صحت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر نظر کی خرابی کی شکایت بڑھ چکی ہے۔ جسمانی صحت کے علاوہ سوشل میڈیا کا بکثرت استعمال نفسیاتی مسائل بڑھانے کا بھی باعث ہے۔ ایک افسوس ناک رجحان یہ ہے کہ ذرا ذرا سے معاملے کو تصویر کی صورت سوشل میڈیا کی زینت بنایا جاتا ہے۔جسکے باعث نئی نسل میں ریاکاری اور دکھاوا عام ہو رہا ہے۔ کسی نے کوئی نیا موبائل لیا ہے، کہیں تفریحی دن گزارا ہے، کسی سے ملا ہے، کسی ریستوران میں کچھ کھایا ہے، غرض ہر ہر معاملے کو اپنے تمام جاننے والوں کو بتانا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اس سے ایک تو اپنی نفسیاتی تسکین کا سامان کیا جاتا ہے دوسری جانب دوسرے لوگوں کو احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار کیا جاتا ہے۔ جس دین کے ہم پیروکار ہیں وہ تو پھل کھانے کے بعد اسکے چھلکے بھی گھر کے باہر پھینکنے کی ممانعت کرتا ہے۔ کہ کہیں کسی غریب ہمسائے کو احساس محرومی نہ ہو۔ جبکہ ہم سحری افطاری کے کھانوں اورقربانی کے جانور جیسے خالصتا مذہبی معاملات بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا کر مقابلہ بازی کا اہتمام کر تے دکھائی دیتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا سمیت کوئی بھی ٹیکنالوجی بذات خود کوئی بری چیز نہیں ۔ معاملات تب بگاڑ کا باعث ہوتے ہیں جب حد سے تجاوز کر جائیں ۔ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کا مکمل بائیکاٹ کرنا یا اس پر کوئی مستقل قدغن لگا دینا ممکن ہے اور نہ ہی یہ مسئلے کا حل ہے۔ ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے یو ٹیوب کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اسکا ہمیں اگر کوئی فائدہ ہوا ہے تب بھی ، اس پابندی کے باعث ہم ا سکے مثبت استعمال سے محروم ہو چکے ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے کی اصلاح احوال میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں پر نگاہ رکھیں اور دیکھیں کہ وہ کس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔انہیں ایک مقررہ حد سے زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ طالب علموں کو ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کی جانب راغب کریںاور سماجی روابط کے نام پر دوستیوں، مقابلہ بازی اور ریا کاری جیسی سوچ کی حوصلہ شکنی کریں۔ اس معاملے میں ارباب اختیار کو بھی متحرک ہونا پڑے گا۔ ہمارے ہاں ابھی تک سائبر قوانین موجود نہیں ہیں۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس حوالے سے کچھ کام تو کیا تھا تاہم عدم اتفاق رائے کی وجہ سے وہ بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ یہ معاملہ فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
تازہ ترین