• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی سیاست کے اُفق سے خوف وسوسوںاور غیر یقینی کے بادل چھٹنے اور ماحول کے قدر ے اعتدال پر آنے کے باعث سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے وطن واپسی کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔گزشتہ اقتدار کے اختتام کے بعد اپنے سیاسی"دوست" میاں نواز شریف کے بدلے تیور اور ملک کے طاقتور حلقوں کی طرف سے محسوس کردہ خدشات کے ردعمل میں جذباتی ہو کر انہوں نے دونوں کو برسر عام آڑے ہاتھوں لیا تھا ۔میاں نواز شریف کو ماضی کا وہ واقعہ یاد کرایا تھاجس میں موصوف کے ایماپر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اُن کی زبان پر گہرے زخم آئے تھے جبکہ ملک کے طاقتور حلقوں کو اپنے اور اپنی پارٹی کے خلاف ریشہ دیوانیوں سے باز رہنے وگرنہ " دمادم مست قلندر" یعنی تصادم کیلئے تیار رہنے کا چیلنج جاری کردیا تھا۔اُس وقت میاں نواز شریف اور ہیت مقتدرہ (Establishment)کو اپنے خلاف ایک صفحے پر مجتمع پا کر انہوں نے ملک سے کوچ کر جانے میں ہی عافیت جانی تھی ۔عمران ، قادری اسلام آباد گھیرائو کے دوران غیر سیاسی قوتوں کی ممکنہ مداخلت کے پیش نظر انہوں نے سیاست میںعملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر میاں نواز شریف کی حکومت بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ اُن کا جمہوری سیاست کے حوالے سے بہترین فیصلہ تھا۔ اب عسکری قیادت میں تبدیلی اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خانوادے کے خلاف منی لانڈرنگ اور مالی بد عنوانیوں کی سپریم کورٹ میں جاری انکوائری اور آئند ہ عام انتخابات میں فقط ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی رہ جانے کی بنا پر چونکہ اب ملکی سیاست میں دھرنوں اور گھیرائو کی گنجاش باقی بچی ہے اور نہ ہی غیرجمہوری حلقوں کی مداخلت کے اندیشوں کی لہٰذا خود ساختہ جلاوطنی اختیار کئے جناب آصف علی زرداری کی واپسی کی راہ میں حائل اب بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ وطن واپسی پر اُن کے استقبال کو متاثر کُن بنانے کیلئے ہوم ورک مکمل کر لینے کے بعد اُمید ہے کہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹواُن کی واپسی کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے ۔ اغلب امکان ہے کہ جناب آصف علی زرداری کراچی ائیرپورٹ پر قدم رنجاں ہونگے کیونکہ ایک تو صوبہ سندھ میں پی پی پی عرصہ دراز سے برسر اقتدار چلی آرہی ہے جس کے سبب شہری علاقوں میں جلسہ جلوس کی حد تک اژدھام اکھٹا کر لینے کی فطری صلاحیت رکھتی ہے ۔اور یہ بھی کہ بڑے شہروں کے شور سے دورسندھ میں جھگیوں اور کچے مکانوں کے مکینوں میں آج بھی پیپلز پارٹی سے وابستہ رومانس زندہ نو جوان ہے جبکہ بلدیاتی سے لیکر صوبائی اور قومی سطحوں تک اس کے منتخب نمائندوں کی بھی اکثریت ہے اور اس پر مستزاد پورے پاکستان سے متوقع پیپلز پارٹی کے چھوٹے بڑے قافلے،سندھ کی حکومتی مشینری،شہری کارکنوں،اندرون سندھ کی مقامی قیادتوںاور بالخصوص پنجاب کی پارٹی تنظیموںکو متحرک کر کے آصف علی زرداری کی وطن واپسی کو متاثر کن بنایا جا سکتا ہے ۔اس کے وقتی اثرات تو ضرور مرتب ہونگے لیکن دیر پا ہرگز نہیںکیونکہ اصل سوال سندھ سے باہرپیپلز پارٹی کی نشاۃثانیہ اوراحیاء نو کا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ سمندر سے گہرے اور چار دہائیوں پر محیط تلخ و شیریں اور گرم و سرد تعلق کے باعث راقم ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ اور فروغ کے معاملے میں قابل فخر تاریخ رکھنے کے باوجود پی پی پی اس المیے کا شکاررہی ہے کہ اس کے اندرون خانہ جمہوری کلچرنہ ہونے کے برابر ہے ۔ پارٹی کی پالیسی طے کرنے کے معاملے میںآئندہ بھی جناب آصف علی زردار ی کی رائے ہی حرف آخر قرار پائے گی جبکہ اچھے بھلے تجربہ کار اور معقول سمجھے جانے والے اس کے عمر رسیدہ رفقاء کا کام ماضی کی طرح فقط ہاں میںہاں ملنے تک ہی محدود رہے گا۔اگر آصف علی زرداری پارٹی کو عدم مقبولیت کے بحران سے نکال کر اُس کے کھوئے ہوئے مقام پر دوبارہ کھڑا کرنے کی حقیقی تڑپ رکھتے ہیں تو انہیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ہوگا جن کی وجہ سے ماضی کی یہ مقبول ترین سیاسی جماعت آج عدم مقبولیت کے اُس مقام پر لا کھڑی کردی گئی ہے جہاں عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ ، بدترین آمر اور رجعت پسند قوتیں ملکر بھی نہ پہنچا پائی تھیں۔یہ تسلیم کئے بغیر کہ انہوں نے اپنے گزشتہ دور اقتدار میں فقط حکومت کے تسلسل کی خاطر انتہائی بے اصول سمجھوتے کئے ، پارٹی کو مقبولیت کی پٹری پر نہیںچڑھایا جا سکتا۔انہیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ بظاہر مفاہمت کی سیاست کو رواج دینے کے نام پر انہوںنے پارٹی کی شناخت تک کو دائو پر لگائے رکھا۔ انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ یا تو وہ ملکی سیاست کی سائنس کو سمجھ ہی نہ پائے یادانستہ اس سے اغماز کیا کیونکہ ذوالفقا علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے حوالے سے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ملکی سیاست کی باہم متضاد و مخاصمانہ قوتیں ہیں جن کے درمیان وہ اپنے پورے دور اقتدار میں موافقت کی راہیں تلاش کرتے رہے ان کے اس عمل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا ڈائی ہارٹ کیڈر اُن سے نالاں ہوتا چلا گیا ۔انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ پیپلز پارٹی کو موجودہ زبوںحالی تک لانے میں اُن کی اُس سوچی سمجھی پالیسی کا بھی معتدبہ حصہ ہے جس کے مطابق انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کے دیرینہ ساتھیوں کی پوری کی پوری لاٹ کو کھڈے لائن لگا کر پارٹی اور حکومتی مناصب پر اجنبی چہروں کو بااختیار بنا دیاتھا۔ ان نئے چہروںکی کیمسٹری پیپلزپارٹی سے مطابقت رکھتی تھی اور نہ ہی کلچر سے ۔لہٰذا اُن کے پورے دور اقتدار میں پارٹی کی اصل طاقت یعنی اس کے گلی محلوں سے لیکر ملکی سطح تک پہچانے جانے والے پرانے اور آزمودہ کارکن بے آبرو رہے۔2013 کے عام انتخابات میں یہ لوگ بیگانگی کا شکار ہو کر انتخابی عمل سے لاتعلقی اختیار کئے رہے جبکہ عام ووٹر جناب آصف علی زرداری کے انداز حکومت و سیاست کے ردعمل میں عمران خان کی طرف چلا گیااس کے نتیجے میں صوبہ سندھ کے علاوہ پورے پاکستان میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا ۔ اب حالت یہ ہے کہ سندھ کے علاوہ باقی ہر جگہ پی ٹی آئی ، مسلم لیگ کے بالمقابل کھڑی ہے اور سماج کے استحصال زدہ طبقوں کی نمائندہ اور ترقی پسند سیاست کا استعارہ پیپلز پارٹی کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی ۔
پیپلز پارٹی کو اسکے کھوئے ہوئے مقام پر واپس لانے کیلئے ضروری ہے کہ ایسا واضح پروگرام عوام کے سامنے پیش کیا جائے جس میں عام شہری کی معاشی حالت کی بہتری کے سامان نظر آتے ہوں اور ملک سے غربت ، جہالت اور بے روزگاری کے خاتمے کی کرنیں پھوٹتی ہوں۔اس سے بھی اہم پہلو پی پی پی کی موجودہ قیادت کی عوام کے درمیان کریڈبلٹی کا سوال ہے جس کا اب تک نشان بھی نظر نہیں آرہا۔


.
تازہ ترین