• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اور اب 21نومبر کی شب کی تاریکی میں متحدہ پاکستان سے وفاداری اور محبت کے جرم میں بنگلہ دیشی بزرگ بی این پی کے رہنما 66سالہ صلاح الدین قادر اور جماعت اسلامی کے 67سالہ رہنما علی احسن مجاہد کو اکٹھے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ قارئین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ان دونوں رہنمائوں کی اس وقت کے مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیش کیلئے کونسی وفاداریاں تھیں جن کی پاداش میں ان کا عدالتی قتل کیا گیا۔ متحدہ پاکستان کی آخری قومی اسمبلی کے اسپیکر فضل الحق چوہدری صلاح الدین قادر کے والد تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مخالفت کی ،جس کے جرم میں بنگلہ دیش بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے انہیں گرفتار کروادیا اور جب ان کی وفات ہوئی تو وہ ڈھاکہ جیل میں ہی تھے ۔ فضل الحق کی بنگالی قوم کیلئے بہت خدمات ہیں انہوں نے کئی ترقیاتی منصوبے شروع کرائے اور کئی ادارے بھی بنوائے جن میں چٹاگانگ میرین اکیڈمی اور یونیورسٹی کا قیام بھی شامل ہے۔ 1974ء میں جب بنگلہ دیش کچھ حد تک بھارتی اثر سے باہر نکلا تو صلاح الدین قادر نے بھی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا اور 1979ء سے2008ء تک سات مرتبہ بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئےوہ خالدہ ضیاء کی حکومت میں مشیر رہے اور وزیر کا درجہ بھی حاصل رہا ۔ بنگلہ دیشی نیشنلسٹ پارٹی کے اس سینئر رہنما کو دسمبر2010ء میں ڈھاکہ میں حسینہ واجد کی سیکورٹی فورسز نے اٹھا لیا اور طویل عرصہ ایک مکان میں رکھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔حسینہ واجد کے بنائے گئے نام نہاد جنگی جرائم کے انٹرنیشنل ٹریبونل میں 2011ء کو مقدمہ شروع کیا اور اکتوبر 2013ء میں انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ 1971ء میں صلاح الدین قادر نے کئی بنگالی ہندوئوں کو قتل کیا اور پاکستانی فوج کا ساتھ دیا ۔بیالیس سال تک بنگلہ دیشی حکومت کے خیال میں یہ بزرگ اپنے وطن کا وفادار تھا ، آئین سے وفاداری کا 7مرتبہ بطور رکن پارلیمنٹ حلف بھی اٹھایا مگر یکایک وہ ملک کا غدار بن گیا ۔اسلئے کہ وہ اُس وقت 1971ء میں پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔انکے خلاف 41گواہان پیش کئے گئے جبکہ ان کی طرف سے صرف چار گواہوں کو اجازت ملی ، یہاں تک کہ بنگلہ دیشی ہائیکورٹ کے جج اور پاکستان کے سیاسی رہنما اسحاق خاکوانی جو ان کے کلاس فیلو تھے انہیں گواہی تک نہ دینے دی گئی۔ جماعت اسلامی کے بزرگ شہید علی احسن مجاہد کی کہانی بھی اسی طرح کی ہے۔ ان کے والد عبدالعلی مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے رکن اور فرید پور میں جماعت اسلامی کے امیر رہے ۔ علی احسن مجاہد خود کئی مرتبہ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے انہیں بھی جون 2010ء میں گرفتار کیا گیا اور جولائی 2013ء میں سزائے موت سنائی گئی ۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 1971ء میں دانشوروں کا قتل عام کیا۔ متحدہ پاکستان سے محبت کی سزا پانے والے مجاہد نے اپنے بیٹے کو آخری پیغام میں لکھا کہ میرے لئے سزائے موت کوئی وقعت نہیں رکھتی نہ ہی پریشانی کا باعث ہے کیونکہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسے گناہ کا ارتکاب نہیں کیا۔ سینٹرل جیل ڈھاکہ کے جلاد شاہجہاں کے حوالے سے میڈیا میں یہ رپورٹ ہوا ہے کہ یہ دونوں جب تختہ دار کی طرف بڑھے تو بڑے ہشاش بشاش اور انتہائی پُرسکون نظر آرہے تھے ان کو ایک ہی تختے پر بیک وقت پھانسی دی گئی جب ان کی گردنوں میں پھندا ڈالا گیا تو انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا ۔ اس جیل کے سپرنٹنڈنٹ جہانگیر کبیر نے میڈیا کو بتایا کہ علی احسن کے اطمینان سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ انہیں اگلے چند گھنٹوں میں پھانسی دی جائے گی وہ توسارادن بہت خوشگوار گفتگو کرتے رہے۔
پوری انسانیت اور دنیا کو اس بات کا یقین ہے کہ حسینہ واجد بھارت کی محبت اور پاکستان سے سنگین دشمنی کا بدلہ متحدہ پاکستان کے حامی رہنمائوں سے لے رہی ہیں۔ برطانوی میگزین ’’دی اکنامسٹ ‘‘نے لکھا ہے کہ اس ٹریبونل کے جج پر سزائے موت دینے کے حوالے سے پریشر ڈالا جاتا رہا اور سزا دینے کے فیصلے انڈیا کی مداخلت سے ہوئے ۔ اس میگزین کے مطابق اس حوالے سے 17گھنٹے کی گفتگو کی ریکارڈنگ موجود ہے۔یہ صرف دو رہنما ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے ایک درجن سے زائد رہنمائوں کا اسی طرح عدالتی قتل کرایا گیا۔ جماعت اسلامی کے معمر ترین سربراہ غلام اعظم کو بھی نہ بخشا گیا ۔ ان پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کرکے انہیں90برس کی قید سنائی گئی ، دسمبر 2013ء میں عبدالقادر ملا ، نومبر 2014ء کو میر قاسم کو سزائے موت سنائی گئی ۔ اپریل 2015ء میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے نائب سیکرٹری قمرالزمان کو ڈھاکہ میں پھانسی دے دی گئی ۔ ان پر 120غیر مسلح کسانوں کو ہلاک کرنے کا الزام تھا ۔ اس وقت بنگلہ دیش کی مختلف جیلوں میں مولانا عبدالسبحانی اور مطیع الرحمن نظامی سمیت 30ہزار سے زائد کارکنوں کو حسینہ واجد حکومت نے ڈالا ہوا ہے اور ان پر جنگی جرائم کے کیس چلا ئے جارہے ہیں جبکہ ایک ہزارسے زائد افراد کو احتجاج کے دوران شہید کیا گیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا کی کٹھ پتلی حسینہ واجد کی حکومت کے دل میں پاکستان سے کس طرح کی نفرت ہے۔
یہ تو بالکل عیاں ہے کہ یہ سب کچھ بھارت کی خوشنودی کیلئے ہو رہا ہے ۔ گزشتہ دونوں نریندر مودی نے بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر برملا اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان توڑنے میں کردار ادا کیا، جس پر حسینہ واجد نے خوش ہو کر انہیں اعلیٰ اعزاز سے نوازا۔اب میری طرح ہر پاکستانی رنجیدہ ہے وہ حکمرانوں سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی پامالی نہیں؟ آج انصاف کے قتل پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے وہ ادارے خاموش کیوں ہیں جنہوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کو پھانسی دینے کے معاملے پر آسمان سر پر اٹھا لیا تھا ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے آج چپ کیوں ساد ھ رکھی ہے ، کیا ظلم کی یہ انتہا نہیں کہ بنگلہ دیش کی پارلیمان کے اراکین کو پھانسیاں دی جاتی ہیں اور یورپی یونین کا کوئی بھی رکن اس پر صدائے احتجاج بلند نہیں کرتا؟ اغیار کا شکوہ تو اپنی جگہ تماممسلم ممالک نے اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے ؟ بنگلہ دیش نے25سال تک تو حقائق جاننے کیلئے کوئی کمیشن نہیں بنایا مگر یکایک ٹربیونل قائم کرد یا گیا پھر جب آج سے پانچ سال پہلے یہ نام نہاد جنگی جرائم کا ٹربیونل بنایا جا رہاتھا تو اس وقت صدا بلند کیوں نہ کی گئی؟ کیا اگر پہلی پھانسی پر بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی جاتی یا بین الاقوامی عدالت میں اسے چیلنج کیا جاتاتو مزید پھانسیاں ہوسکتی تھیں؟ کیا ان پھانسیوں پر حکومتوں کی خاموشی خود بہت بڑا جرم نہیں ؟ کیا دنیا یہ نہیں جانتی کہ جن کو پھانسی دی گئی وہ 42 سال تک بنگلہ دیشی آئین کے وفادار تھے اور پارلیمنٹ میں کلیدی کردار ادا کررہے تھے ؟ کیا دنیا کو یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ بنگلہ دیش میں اس ٹربیونل نے کسی بھی بین الاقوامی انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا ؟اگر پاکستان نے 1974ء کے سہ فریقی معاہدے پر عمل نہ کرایا تو بنگلہ دیش کی جیلوں میں قید 30ہزار قیدیوں کو سزا ہوگی تو اسکی ذمہ دار بھی حکومت پاکستان ہی ہوگی اور آئندہ آنیوالی نسلیں یہ پوچھتی رہیں گی کہ کیا پاکستان سے وفاداری کی سزا موت ہے ؟
تازہ ترین