اس برس ماہ ستمبر میں ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت بڑا موڑ آیا ہے 8ستمبر کا دن درحقیقت قومی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل ہے کیونکہ اس روز قومی زبان اردو کو اس کا جائز مقام دینے سے محروم رکھنے کی طویل سازش کا منہ توڑ جواب عدالتی ایوانوں سے ایک تاریخی فیصلے کی صورت بخوبی دیدیا گیا ۔ تقریباً 7 دہائیوں کے بعد عدلیہ نے بھی اپنے ذمے ایک کفارہ ادا کردیا اور اردو کو ملک کی سرکاری زبان کے طور پہ رائج کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے ۔قومی امنگوں کا عکاس یہ فیصلہ آئے 3 ماہ ہونے کو ہیں اور سپریم کورٹ نے 8 ستمبر کو اپنے تاریخی فیصلے میں وفاقی حکومت کو اردو کو بطور سرکاری و دفتری زبان نافذ کرنے کیلئے تین ماہ کا جو وقت دیا تھا وہ چند ہی روز بعد 8 دسمبر کو پورا ہوجائے گا لیکن اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی کارکردگی نہایت مایوس کن ہے اور ایسا قطعی نہیں لگتا کہ عدلیہ کے اس اہم فیصلے پہ اسکی روح کے مطابق عملدرآمد ہوسکے گا۔ اس ضمن میں چند نمائشی کاموں کا تکلف ضرور ہوا ہے جیسے کہیں کہیں سرکاری عمارتوں اور عوامی مقامات پہ آویزاں ہونے والے ہدایتی بورڈز پہ انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی عبارتوں کا لکھا جانا وغیرہ،لیکن یہ سب بھی بقدر اشک بلبل سے زیادہ نہیں۔ کہنے کو تو وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کی سرکردگی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دی جاچکی ہے لیکن اس کی جانب سے بھی اجلاسوں کی طلبی اور نشستند گفتند برخواستند ہی کا روایتی شعار دیکھنے میں آیا ہے اور تاحال نفاذ اردو کی عملی صورت گری کیلئے کوئی بڑا فیصلہ یا ٹھوس اقدام سامنے نہیں آسکا ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سرکاری نوکر شاہی اور اشرافیہ نے عدالتی فیصلے کے باوجود قومی زبان کے نفاذ کی راہ میں روڑے اٹکانے کی روش ابھی بھی نہیں بدلی ہے کیونکہ یہ منظرنامہ اسکے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے ہرگز کم نہیں کہ زبان کے اس فرق کے مٹنے سے گوالمنڈی کے گورنمنٹ کالج کے طلباء ایچی سن کالج کے طلباء کےہم پلہ ہوجائیں ،،، یہ کشمکش اس تناظر میں زیادہ اہمیت یوں بھی اختیار کرجاتی ہے کہ یہ محض کسی زبان کے نفاذیا عدم نفاذ کا کوئی عام سا لسانی قضیہ نہیں بلکہ خاصی حد تک طبقاتی امتیاز کا معاملہ ہے - عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ قوموں کی تعمیر کی راہ میں ہر جگہ شروع میں اسی طرح کا طبقاتی نظام آڑے آتا رہا لیکن ہرجگہ اسے اڑا کے رکھدیا گیا کیونکہ کسی ایک بہت چھوٹے سے طبقے کے مفاد کیلئے قومی امنگوں کا خون نہیں کیا جاسکتا اور نفاذ اردو کے معاملے کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ آج کی دنیا کی جتنی بھی ترقی یافتہ اقوام ہیں ان سب نے اپنے تمام معاملات اور تعلیم و تدریس کے سارے کام اپنی قومی زبان میں سرانجام دیئے ہیں۔ گو پاکستان کے قیام کے محض 6 ماہ بعد ہی قائد اعظم نے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو ملک کی واحد سرکاری زبان بنانے کا اعلان کردیا تھا لیکن آج 67 برس گزرجانے کے باوجود ان کے اس فرمان پہ عملدرآمد کی ابھی تک نوبت نہیں آسکی ہے - 1973ء کے آئین میں اس کا وعدہ کیا بھی گیا تو اس وقت کی حکومت نے اس پہ عملدرآمد کیلئے مزید 15 برس کی مدت مانگ لی اور اس کے بعد سے اب تک 27 برس ہوجانے کے بعد بھی اور یہ صورتحال جوں کی توں ہے۔ لیکن 3 ماہ پہلے خدا خدا کرکے وہ اجلی سویر بھی نمودار ہوہی گئی کہ جب جسٹس جواد خواجہ اور ان کے ساتھیوں نے مجاہد اردو بیرسٹر کوکب اقبال کی جانب سے 2003ء میں نفاذ اردو کیلئے دائر کردہ مقدمے کی سماعت کرکے اس کے نفاذ کا تاریخی حکم نامہ جاری کردیا ۔ اس فیصلے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت 3 ماہ کی مدت کو نگاہ میں رکھ کر جنگی بنیادوں پہ کام کرتی اور ہنگامی بنیادوں پہ مطلوبہ اقدامات روبہ عمل لاتی لیکن صورتحال اس کے بر عکس رہی ۔راقم نے اس حوالے سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سربراہ سے 5 نومبر کو ملاقات کرکے اس فیصلے کی رو شنی میں ، جب مقابلے کے امتحان کو اردو میں لیے جانے کی قانونی ضرورت کی تکمیل کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ایسا کرنے سے یکسر انکار کردیا اور اس کی وجہ پہلے سے چلے آرہے سسٹم کو قرار دیا لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ قومی امنگوں کے رستے میں طویل عرصے سے کھڑا یہ سسٹم آخر کیا بلا ہے اور قوم کو اس سے نجات کب اور کیسے مل سکے گی۔ اسی طرح جب میں نے ادارۂ فروغ قومی زبان کا دورہ کیا تو یہ جان کر حیران رہ گیا کہ 1979ء میں قائم ہونے والےاس عظیم قومی ادارے کوگزشتہ چند برس قبل اتھارٹی کے درجے سے معزول کرکے قطعی عام سے بے اختیار سے سرکاری دفتر میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اس کے ملک کے طول و عرض میں قائم 12 ریجنل دفاتر بھی بند کردیئے گئے ہیں اور اب یہاں کے 100 کے لگ بھگ ملازمین طویل عرصے سے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے محض تنخواہیں لے رہے ہیں جبکہ پہلے اس ادارے نے بے پناہ غیرمعمولی کارنامے سرانجام دیئے ہیں جن میں اردو کے دامن میں دفتری و کاروباری اصطلاحات کی تشکیل، کئی بین الاقوامی زبانوں کی اردو میں لغات کی تیاری اور متعدد بڑی غیرملکی زبانوں کی اہم کتب کے اردو کے قالب میں ڈھالنے جیسے شاندار کارنامے شامل ہیں ۔اب حالت یہ ہے کہ اس ادارے کی اپنی مطبوعہ کتب میں سے بھی کئی اہم کتب اب یہاں پہ دستیاب نہیں ہیں۔ مگر کوئی بہتری ہو تو کیسے ہو ۔ یہ محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری بزرجمہروں نے قومی زبان کے نفاذ کی راہ میں مددگار اس اہم قومی ادارے یعنی ادارہء فروغ قومی زبان کو طاق نسیاں کی زینت بنادیا ہے اور اسکی بابت حکومت کی عدم دلچسپی کا تو یہ حال ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک یہاں کئی ماہ تک کوئی چیئرمین بھی موجود نہ تھا- اس ادارے میں اردو میں تعلیم و تدریس سے متعلق مواد بھی بہت کم ہے اور ابھی قومی زبان میں تمام مدارج بشمول اہم پیشہ ورانہ تعلیم کی تدریس سے متعلق نصاب کے تراجم اور متعلقہ مواد کی تیاری جیسے اہم مراحل تشنۂ تکمیل ہیں بلکہ اکثر مواد تو سرے سے موجود ہی نہیں - البتہ کئی احباب کے توسط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اردو سائنس بورڈ نے اردو میں سائنسی علوم کی تدریس کے حوالے سے بہت سامواد تیار کرلیا ہے اور کئی اہم سائنسی شعبہ جات سے متعلق اسکی متعدد دقیع کتب وہاں موجود ہیں ،،، تاہم اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا وہ کتب عام بازاروں میں بھی دستیاب ہیں تو اسکا جواب نفی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جب تدریس اردو میں ہوہی نہیں رہی تو انکی طلب بھی مارکیٹ میں کیونکر ہوسکتی ہے - لیکن اردو زبان کی تدریسی کتب کا معاملہ صرف سائنس ہی تک تو موقوف نہیں دیگر سماجی ، فنی و تجارت و کاروبار سے متعلق بہتیرے علوم کی اردو میں تدریس کا مسئلہ بھی تو ہے اگر ذمہ داری سے سوچا جائے تو 100 کے لگ بھگ بیکار بیٹھے ملازمین سے اس ضمن میں انہی وسائل کی مدد سے ان کتب کے تراجم ، تالیف و تیاری کا یہ کام بخوبی لیا جاسکتا ہے
نفاذ اردو کے ضمن میں دستیاب وسائل و کتب کی اپنی اس جائزہ مہم کے آخری مرحلے میں نیشنل بک فاؤنڈیشن جانے کا موقع بھی ملا وہاں اسکے سربراہ انعام الحق جاوید سے ملا قات بھی ہوئی اور یہاں کی کارکردگی کوخاصی حد تک تسلی بخش پایا - یہ ادارہ اردو میں کم قیمت میں بہت اہم کتب کی اشاعت اور فراہمی کو یقینی بنانے میں مصروف ہے اورگمشدہ ذوق مطالعہ کی بازیابی کی مد میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے- اگر ادارۂ فروغ قومی زبان اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے درمیان اشتراک عمل کی کوئی صورت پیدا کردی جائے تو انعام الحق جاوید جیسے متحرک عبقری کی سرکردگی میں بہت سے مطلوبہ اہداف پورے کئے جاسکتےہیں اور ان اداروں کی افرادی قوت یکجا ہوکر نفاذ اردو کیلئے درکار کتب اور مواد کی فراہمی سے متعلق ضروریات کے کٹھن چیلنجز کو مؤثر طور پہ پورا کرسکتی ہے- لیکن ایسا تبھی ممکن ہے کہ جب وفاقی حکومت فی الواقع نفاذ اردو کیلئے حقیقی طور پہ سنجیدہ ہو ۔ اب 8 دسمبر زیادہ دور نہیں عدالتی فیصلے پہ بروقت عملدرآمد نہ ہونے کا معاملہ اسے توہین عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرسکتاہے۔