کیا زمانہ آ یا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان سیّد یوسف رضا گیلانی نے مسائل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور کہا ہے کہ جو شخص یہ مسائل حل کر سکتا ہے، وہ آگے آئے، وہ اس کے لئے اقتدار چھوڑنے کو تیار ہیں ۔ حالانکہ اقتدار کوئی عام چیز نہیں، یہ تو ایک عشوہ طراز محبوب ہے جسے چھوڑنے کا لاکھ ارادہ کیا جائے اور زبان سے چاہے جو کچھ بھی کہا جائے مگر اندر سے دل مانتا نہیں ہے۔ بقول اردو کے ایک ممتاز شاعر (یعنی راقم الحروف)
اسے اب بھول جانے کا ارادہ کر لیا ہے
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کر لیا ہے
چنانچہ لگتا ہے کہ ہمارے سیّد وزیر اعظم نے خود پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ کرنا شروع کر دیا ہے یا ان کا مطلب یہ ہے کہ بطور وزیر اعظم جیسے اختیارات ان کے پاس ہیں، ان اختیارات کے ساتھ کوئی دوسرا میدان میں آنا چاہتا ہے تو آئے اور مسائل حل کر کے دکھائے۔ وزیر اعظم صاحب کے اس بیان کے جواب میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے جزاک اللہ کہتے ہوئے یہ پیشکش قبول کرنے کا اعلان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اقتدار ان کے سپرد کر دیا جائے اور اس میں فوج کو مداخلت کی اجازت نہ ہو تو وہ ملک و قوم کو درپیش تمام مسائل حل کر کے دکھا سکتے ہیں۔ قاضی صاحب نے یہ چیلنج قبول کر کے اقبال کی روح کو خوش کر دیا ہے چنانچہ میرے خیال میں اقبال نے #
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد!
والا مصرعہ قاضی صاحب کو ”داد“ دینے ہی کے لئے کہا تھا۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی پیشکش پر قاضی صاحب کا فوراً ”قبول، قبول، قبول“ کہنا اس حوالے سے بھی قابل تحسین ہے کہ اس طرح کے ”لین دین“ میں انتخابات کے انعقاد پر جو اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور بیسیوں لوگ قتل ہو جاتے ہیں، یہ سلسلہ متذکرہ نوع کے ”پرامن انتقالِ اقتدار“ کی وجہ سے ختم ہو جائے گا، مگر اس ضمن میں ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش ہے اور وہ یہ کہ اسلام میں اقتدار کے طالب کو پسند نہیں کیا جاتا اور جماعت اسلامی ماشاء اللہ ایک اسلامی جماعت ہے۔ ممکن ہے اس کا جواز یہ ہو کہ قاضی صاحب اقتدار اپنے لئے طلب نہیں کر رہے بلکہ ایک جماعت کے لئے طلب کر رہے ہیں اور اس کے لئے گزشتہ کئی عشروں سے ان کی جمہوری اور غیر جمہوری جدوجہد بھی ہم سب کے سامنے ہے مگر یہاں ایک سوال اور اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ خلفائے راشدین میں سے کوئی ایک بھی ”اقتدار“ کا طالب نہیں تھا اور نہ ہی ان کا کسی ایسی جماعت سے تعلق تھا جو اسلامی نظام نافذ کرنے کی دعویدار ہو۔ یہ بات میں نے اس لئے کی ہے کہ مولانا مودودی کی سوچ جماعت کی آج کی سوچ اور عمل سے مختلف تھی۔ وہ اسلام کو ایک جامد مذہب تصور نہیں کرتے تھے بلکہ بدلتے زمانے کے ساتھ قرآن و حدیث کے متعین کردہ بنیادی اصولوں کی روشنی میں نئے دور کی ضرورتیں مدنظر رکھتے تھے جس کے نتیجے میں انہیں ان علماء کے فتووں کا نشانہ بھی بننا پڑا جن علماء کا فکری دم چھلا ان دنوں جماعت بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ جماعت کے اس فکری جمود کی وجہ سے میں نے آج کے جمہوری نظام کو اسلام کے شورائی نظام سے متصادم قرار دیا ہے ورنہ سچ یہی ہے کہ موجودہ جمہوری نظام اسلام کے شورائی نظام ہی کا تسلسل ہے۔
بات خواہ مخواہ سنجیدہ سی ہو گئی ورنہ اللہ جانتا ہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، میں تو واقعی قاضی صاحب کی تحسین کرنا چاہتا تھا کہ انہوں نے وہ بھاری پتھر چومنے کا چیلنج قبول کر لیا ہے جو اپنے وزنی ہونے کی وجہ سے یوسف رضا گیلانی سے اٹھایا نہیں جا رہا یا انہیں اٹھانے نہیں دیا جا رہا تاہم اس میں ایک چھوٹا سا مسئلہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ گیلانی صاحب کے اقتدار کسی اور کے حوالے کرنے کا چیلنج قبول کرنے والے صرف قاضی صاحب ہی نہیں ہیں بلکہ اور بھی بہت سے مشتاقانِ اقتدار میدان میں موجود ہیں جن میں سے ایک میں خود بھی ہوں چنانچہ میں بھی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب کا چیلنج قبول کرتے ہوئے ان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اب سیدھے ہاتھ سے اپنی حکومت میرے حوالے کریں، باقی جہاں تک مسائل کے حل کا تعلق ہے ، ان کا حل وہی ہے جو فٹ بال میچ پر تاخیر میں ایک کھلاڑی نے منتظمین سے بازپرس کی تو منتظمین نے کہا فٹ بال کا انتظار ہے ، وہ ملتے ہی میچ شروع ہو جائے گا۔ کھلاڑی نے کہا ”آپ میچ شروع کریں، فٹ بال آتا رہے گا“۔ سو میری گزارش بھی صرف اتنی ہے کہ آپ اقتدار میرے حوالے کریں، مسائل بھی حل ہوتے رہیں گے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ نہیں حل ہوں گے۔ اس سے پہلے کون سی حکومت نے عوام کے مسائل حل کئے ہیں جو میں نہیں کروں گا تو قیامت آ جائے گی ! تاہم واضح رہے یہ میں ازراہِ انکسار کہہ رہا ہوں ورنہ میں برسرِ اقتدار آتے ہی انشاء اللہ سب سے پہلے اپنے مسائل حل کروں گا ،اس کے بعد مقروضوں کے قرضے معاف کروں گا تاہم یہ قرضے صرف وہ ہوں گے جن کی مالیت اربوں روپے ہو گی۔ لاکھ دو لاکھ کے قرضے اتارنا تو کسی کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا چنانچہ وہ خود ہی اتارتے رہیں گے ۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے ساٹھ بیروزگاروں کو وفاقی وزیر کے طور پر روزگار دلایا ہے، میں اس سے تین گناہ بے روزگاروں کی کابینہ بناؤں گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بہت سے لوگوں نے ابھی تک امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کا صرف نام ہی سنا ہے، انہیں ان ملکوں کی سیاحت کا موقع نہیں ملا، میں انشاء اللہ سابقہ تمام حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کا ریکارڈ توڑ دوں گا اور جہاز بھر بھر کر اپنے ان ہم وطنوں کو جو اتفاق سے میرے دوست ہوں گے، تمام دنیا کی سیر سرکاری خرچ پر کراؤں گا۔
اس کے علاوہ بھی میرے بہت سے منصوبے ہیں جو تقریباً اسی طرح کے ہیں جن کی چند مثالیں میں نے اوپر کی سطور میں پیش کی ہیں اور ظاہر ہے قاضی حسین احمد اس میدان میں میرا مقابلہ نہیں کر سکیں گے کہ وہ کہیں نہ کہیں اصولوں کو لے کر بیٹھ جائیں گے، لہٰذا قاضی صاحب کو چاہئے کہ وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں میرے حق میں دستبردار ہو جائیں، میں ان سے وعدہ کرتا ہوں کہ بے روزگاری ختم کرنے کی مہم کے دوران جماعت کے بے روزگاروں کو بھی اکاموڈیٹ کروں گا بلکہ وہ مجھے مولانا فضل الرحمن سمجھیں کہ مجھ میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ صرف داڑھی کی ہے اور جس طرح انہوں نے صوبہ سرحد میں مولانا کے ساتھ کئی سال اقتدار میں اکٹھے گزارے ہیں، کچھ عرصہ میرے ساتھ بھی گزار کر دیکھیں، انشاء اللہ انہیں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہو گا۔ اگر قاضی صاحب میرے ساتھ کولیشن پر تیار ہیں تو براہِ کرم مجھے مطلع کریں تاکہ میں یوسف رضا گیلانی صاحب کو بتا دوں کہ وہ اولین فرصت میں واپس ملتان چلے جائیں کیونکہ میں اور قاضی صاحب پہلی فلائٹ میں اسلام آباد پہنچ رہے ہیں!