کیلی فورنیا واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث تاشفین ملک کے بہانے مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو لبرل اور سیکولر ریاست بنانے کے خواہاں کچھ دیسی آدھے تیتر آدھے بٹیر لال مسجد اور بہائو الدین ذکریہ یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے الہدیٰ تک پہنچ گئے۔ نشانہ الہدیٰ نہیں بلکہ اسلام ہے۔ نیت دہشتگردی کو روکنا نہیں بلکہ مسلمانوں کو قرآن سے دور کرنا ہے تاکہ پوری دنیا کا کلچر وہی ہو جو امریکا و یورپ کا ہے۔ افسوسناک واقعہ پیش تو امریکا میں آیا جس سے ہمارا کوئی لینا دینا بھی نہ تھا لیکن ہمارے دیسی لبرلز نے مسئلہ کا کیا خوب حل پیش کر دیا...... پاکستان میں ریاست اور مذہب کو علیحدہ کر دیں...... پاکستان کو ایک لبرل اور سیکولر آئین دے دیں۔ اللہ جانے کہ واقعہ کی اصل حقیقت کیا ہے، لیکن توقع کے مطابق اسلام اور پاکستان مغربی میڈیا کے نشانہ پر آگئے۔ کچھ ایسا پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا کہ دنیا بھر کے مسلمان apologatic ہو گئے جیسے کہ یہ جرم اُن سے سرزد ہو گیا ہو۔پاکستان نے کہہ دیا کہ تاشفین نے تو زندگی کا لمبا عرصہ سعودی عرب میں گزارا، بہائو الدین ذکریہ یونیورسٹی بھی توبہ توبہ کرنے لگی، الہدیٰ نے بھی وضاحت کر دی کہ وہ دہشتگردی کی ہمیشہ سے مذمت کرتے ہیں۔ تاشفین کے پاکستانی رشتہ داروں نے تاشفین کے سعودی عرب میں مقیم والد سے ہی اپنی قطعہ تعلقی کا اعلان کر دیا جبکہ سعودی عرب نے کہہ دیا کہ انہیں تاشفین کے والد کے بارے میں کوئی خبر نہیں۔ تاشفین اور اس کے شوہر رضوان فاروق کو واقعہ کے بعد ہی پولیس مقابلہ میں مار دیا گیا تھا۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر تو اس واقعہ سے منسلک مختلف زاویوں پر کچھ بحث ہوئی لیکن ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہ سوال نہ اٹھائے گئے کہ آخر دونوں میاں بیوی نے ایسا extremeاقدام کیوں اٹھایا ۔ معذوروں کے جس سینٹر پر مبینہ طور پر انہوں نے حملہ کیا وہاں سے واردات سے کچھ دیر پہلے کس بات پر وہ جھگڑ کر گھر گئے اور اسلحہ لا کر یہ خون خرابہ کیا۔ امریکی میڈیا میں دکھائی جانے والی ویڈیوز کے مطابق پولیس مقابلہ میں مارے گئے رضوان فاروق اور تاشفین کی لاشوں کو ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے دکھایا گیا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟اطلاعات یہ بھی ہیں کہ رضوان جو معذوروں کے سینٹر پر ہی ملازمت کرتا تھا، واردات سے کچھ دیر پہلے اُسے مسلمان ہونے کی بنیاد پر اُسی سینٹر میں جاری کرسمس پارٹی کے دوران تضحیک کا نشانہ بنایا گیا جس کا مبینہ طور پر اُس نے بدلہ لیا۔ حقیقت کیا ہے یہ اللہ کی ہی ذات جانتی ہے لیکن اس واقعہ کے بعد امریکی میڈیا کو تو جیسے موقع مل گیا ہو کہ اسلام کو بدنام کرے اور پاکستان کو کسی نہ کسی طرح اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرا دے۔ کیلی فورنیا طرز کے گن شوٹنگ کے واقعات امریکا میں روز کا معمول ہیں۔ صرف اس سال اس نوعیت کے تقریباً35 واقعات امریکا کی مختلف ریاستوں میں رونما ہوئے۔ کیلی فورنیا واقعہ کے علاوہ کسی واقعہ میں بھی کوئی مسلمان یا پاکستانی ملوث نہ تھا۔ اُن تمام واقعات میں قاتلوں کو جنونی، جذباتی، ذہنی طور پر غیر متوازن وغیرہ کہا گیا اور دہشتگردی یا کسی دہشتگرد تنظیم سے نہ جوڑا گیا۔ پہلے کسی واقعہ کے مجرم کے آبائواجداد کو جاننے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی اُن کے گھروں تک ٹی وی کیمرے پہنچے۔ اس واقعہ کے بعد امریکی ٹی وی کیمرے فاروق اور تاشفین کے فلیٹ کے اندر پہنچ گئے جہاں انہوں نے جائے نمازاور اسلامی کتب کی تصاویر دیکھا کر اپنی خواہش اور ایجنڈے کے مطابق یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ دہشتگردی کا تعلق اسلام سے ہے۔ چند ہی دنوں میں فاروق (جو امریکا ہی میں پیدا ہوا) کو بھلا کر تاشفین کا تعلق داعش سے جوڑا اور پھر پاکستان، لال مسجد، الہدیٰ اور سعودی عرب تک پہنچ گئے۔ تاشفین پر تو شک ظاہر کر دیا کہ وہ داعش کی ہمدرد تھی لیکن کسی امریکی ٹی وی چینل یا اخبار کو یہ سچ بتانے کا حوصلہ نہ ہوا کہ داعش کو کس نے پیدا کیا۔ اور تو اور پاکستانی میڈیا کو بھی جرات نہ ہوئی کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا وہ بیان ہی چلا دیتے جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ داعش امریکا و برطانیہ کی پیداوار ہے۔ کسی نے روسی صدر پیوٹن کے حال ہی جاری بیان پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ G 20 ممالک میں شامل کچھ ریاستیں داعش کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ افسوس کہ کسی مسلمان ملک بشمول پاکستان نے امریکا کو یہ نہیں کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے اپنے جرائم پر نظر ڈالیے۔ کوئی یہ نہ کہہ سکا کہ شدت پسندی کی کوئی اور وجہ تلاش کرنے کی بجائے اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ امریکا و یورپ کی مسلم مخالف پالیسیوں نے شدت پسندی کو جنم دیا۔ کسی نے یہ بات نہ کی کہ افغانستان اور عراق کے بعد امریکا و یورپ ایک ایک کر کے مسلمان ممالک کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ لیبیا کو کیا سے کیا بنا دیا، شام کو کیسے تباہ برباد کیا جا رہا ہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آخر ریاستی دہشتگری کو کھلی چھٹی کیوں دے دی گئی ہے ۔ 9/11 کے بعد لاکھوں مسلمان افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنے جس میں امریکا اور برطانیہ کا کلیدی کردار تھا لیکن اس کے باوجود آج بھی مسلمان ہی apologatic اور defensive ہیں۔ کوئی بولتا کیوں نہیں کہ امن قائم کرنا ہے تو مسلمانوںکا قتل و غارت بند کر دیں، دہشتگرداسرائیل کو نکیل ڈالیں، فلسطین و کشمیر کے مسائل حل کریں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ریاستی دہشتگرد اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے معافی مانگیں اور ذمہ داروں بشمول بش اور بلیئرکا لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے جرم میں ٹرائل کریں۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو پھر ظلم کے جواب میں ظلم ہوتا رہے گا کیوں کہ انسانی ردعمل کو کنٹرول کرنا کسی ریاست یا مذہب کے لیے ممکن نہیں۔ جاتے جاتے ایک سوال چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تاشفین کے پاکستان اور الہدیٰ سے تعلق نے اسے شدت پسند بنا دیا اور وہ اپنے شوہر کو بھی شدت پسند بنانے میں کامیاب ہو گئی تو اُن لاتعداد مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں کو شدت پسند کس نے بنایا جو لبرل اور سیکولر یورپ و امریکا میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑے اور پھر داعش میں شامل ہو گئے؟؟؟